18 شوال 1445 هـ   26 اپریل 2024 عيسوى 1:05 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مسلمان شخصیات |  حواری اول حضرت علیؑ ابن ابی طالب۔۔۔ علی ؑ اور حق ایک ہی کشتی پر ہیں
2020-07-31   460

حواری اول حضرت علیؑ ابن ابی طالب۔۔۔ علی ؑ اور حق ایک ہی کشتی پر ہیں

اے میرے رب میں تیری طرف سے آنے والے رسولوںؑ اور آسمانی کتب پر ایمان رکھتی ہیں،میں اپنے دادا حضرت ابراہیمؑ  جو اللہ کے خلیل ہیں ان کے کلام کی تصدیق کرتی ہیں جنہوں نے  خانہ کعبہ کو تعمیر کیا۔اس کے صدقے میں جس نے اس گھر کو بنایا اور اس مولود کے صدقے میں جو میرے پیٹ میں ہے میرے لیے ولادت کو آسان کر دے ۔ یہ کلمات حضرت فاطمہ بنت اسدؑ نے  کہے اور جب یہ کلمات ختم ہوئے اور آپ نے کعبہ کی دیوار کو مس کیا دیوار کعبہ آپ کی کرامت اور آپ کے جلال اور اسی طرح نبی اکرمﷺ کے کار رسالت کے معاون کے احترام میں دیوار کعبہ شق ہو گئی۔

 حضرت علی ؑ خانہ کعبہ میں پیدا ہوائے۔ جمعہ کا دن جو یوم اللہ ہے ،رجب المرجب کی تیرہ تاریخ کو عام الفیل کے تیس سال بعد پانچ سو پچانوی عیسوی کو ،حضرت فاطمہ بنت اسد ؑ کے ہاں پیدا ہوئے ۔کعبہ میں ولادت حضرت علیؑ کی پہلی کرامت تھی،آپؑ سے پہلے اور آپ سے بعد کوئی بھی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا۔

آپ کا نام علي بن ابي طالب بن عبدالمطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصيّ بن كلاب بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن النضر بن كنانة بن خزيمة بن مدركة بن إلياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان ہے  آپؑ حضرت اسماعیل بن ابراہیم ؑ کی نسل سے ہیں ۔

آپ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد بن ہاچم بن عبد مناب تھا ۔نبی اکرمﷺ حضرت فاطمہ بنت اسد کو اپنی والدہ کی طرح سمجھتے تھے کیونکہ آپﷺ کی پرورش آپ نے فرمائی تھی۔حضرت فاطمہ بنت اسد  کو سبقت ایمانی حاصل ہے،آپ نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ مدینہ ہجرت کی۔نبی اکرمﷺ آپ سے بہت محبت فرمایا کرتے تھے اسی لیے جب آپ کا انتقال ہوا تو آپ  کو اپنی  قمیض کا کفن دیا  اور خود تدفین کا اہتمام فرمایا۔

جب حضرت ابوطالبؑ ابوطالب ؑ کثیر العیال تھے ،ان ایام میں مکہ  قحط کا شکار ہو چکا تھا ۔ان حالات میں نبی اکرمﷺ نے حضرت علیؑ کو اپنی تربیت میں لے لیا۔آپﷺ حضرت کے مربی اول اور استاد بے مثال تھےحضرت علیؑ نے نبی اکرمﷺ کی طرف سے حاصل تربیت کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

تم نبی اکرمﷺ سے میری قربت و قرابت اور خاص منزلت کو جانتے ہو۔مجھے گود میں بٹھاتے اور سینے پر لٹاتے تھے۔میں ان کے بستر پر سوتا تھا میں  ان کے جسم کو مس کرتا اور آپ ﷺ کی خوشبو کو محسوس کرتا۔وہ پہلے چباتے اور پھر مجھے کھلاتے ،میں نے نبی اکرمﷺ کے قول میں کوئی جھوٹ نہیں پایا اور نہ ہی آپ ﷺ کے عمل میں کوئی غلطی پائی۔اللہ تعالی نے آپﷺ کے ساتھ ایک  فرشتہ معین  کیا  جو آپ ﷺ جو اچھائی کا راستہ دکھاتا تھا اور اچھے اخلاق  کا طریقہ بتاتا تھا وہ دن رات  ایسے ہی کرتا۔ میں نبی اکرمﷺ کی ایسی اتباع کرتا جیسے بچہ  ماں کے قدموں کی پیروی کرتا  ہے ہر دن  میرے علم و اخلاق میں  بلندی ہوتی۔مجھے حکم دیتے کہ میں ان کی  پیروی کروں  یہ ہر سال بہت قیمتی ہے میں اسے دیکھتا ہوں اور کوئی اور نہیں دیکھ سکتا۔اس وقت  دنیا  میں کوئی ایسا گھر نہ تھا جہاں تین مسلمان ہوں جب   حضرت خدیجہؑ اور حضرت رسول اکرمﷺ  میں ایک ہی گھر میں تین مسلمان تھے۔میں نور وحی و رسالت کو دیکھا اور نبوت کی خوشبو کو سونگھا۔

حضرت علیؑ کے لیے اس اعلی تربیت کا اہتمام کیا گیا اس کے ساتھ ساتھ حضرت علیؑ  اعلی استعداد کے حامل تھے جو  کسی بھی  الہی عہدے کے لیے درکار ہوتی ہے بطور امام  جن کی امامت  کی دعائیں نبی اکرم ﷺ نے کیں۔

حضرت علیؑ آپﷺ کے پہلے حواری،پہلے نقیب  اور آپﷺ کے بارہ اوصیاء میں سے پہلے ہیں۔حضرت محمد ﷺ اللہ کے حکم سے غدیر کے میدان میں  حضرت علیؑ کی ولایت کا اعلان کیا اور فرمایا:

من كنت مولاه فعلي مولاه"

جس کا میں مولا ہوں اس کا علیؑ مولا ہے۔

اس کے ساتھ ہی اللہ نے آیت مجیدہ نازل کی جس میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ اعلان غدیر کے ساتھ ہی تمام نعمتیں تمام ہو گئی ہیں اور  حضرت علیؑ کے  حق ولایت کا اعلان اس آیت مجیدہ میں کیا گیا ہے:

 اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا (سورۃ المائدہ ۳)

آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔

حضرت علیؑ نے  حضرت فاطمہ بنت محمدﷺ سے ذی الحجہ کی پہلی تاریخ کو ہجرت نبوی کے دوسرے سال شادی کی۔امام حسنؑ،امام حسینؑ ،زینب کبریؑ اور زینب صغریؑ جنہیں ام  کلثومؑ کی کنیت سے جانا جاتا ہے آپ کی حضرت فاطمہ ؑ سے اولادیں ہیں۔حضرت علیؑ کے القابات میں  أمير المؤمنين ،أبو الريحانتين،يعسوب المؤمنين ،أبو تراب،مبيد الشرك والمشركين ، ولي أمر المؤمنين،أمير البررةِ وصاحب اللواء ،سيد العرب،خاصف النعل والشاهد ،باب مدينة العلم ،غرة المهاجرين ، صفوة الهاشميين ،الكرار غير الفرار ،أبو الأرامل والأيتام ،مذل الأعداء ومعز الأولياء ،قدوة أهل الكساء ،أبو الشهداء ،مميت البدعة ،محيي السنة ،الخليفة الأمين ،العروِة الوثقى اور مصباح الدُجى ہیں۔

حضرت علی ؑنے سب سے پہلے نبی اکرمﷺ کی  دعوت اسلام پر حضرت خدیجہ ؑ کے ساتھ  نبی اکرمﷺ کی تصدیق کی اس وقت آپؑ کی عمر دس سال تھی۔اس کے بعد تمام  جنگوں میں اسلام کا رسولﷺ کی معیت میں دفاع کیا۔آپؑ صرف تبوک کی جنگ میں شامل نہیں ہوئے کیونکہ  اس میں اللہ کے رسولﷺ نے انہیں اپنے خلیفہ کے طور پر مدینہ میں بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑا تھا۔

حضرت علیؑ نے خود  کو نبی اکرمﷺ پر قربان ہونے  کے لیے پیش کر دیا  جب آپؑ نے نبی اکرمﷺ کے بستر پر سوئے ۔جب  نبی اکرمﷺ مدینہ ہجرت کر رہے تھے اس وقت مکہ کے مشرکین  نبی اکرمﷺ کو قتل کرنا چاہتا تھے اور پورا منصوبہ بنا کر آپﷺ کے گھر کا گھراو کر چکے تھے۔دشمن کے گھیرے میں رسولﷺ کے بستر پر جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سونا  آپ ؑ  کواسلام کا پہلا فدائی قرار دیتا ہے۔

ماہ رمضان المبارک کی انیس تاریخ کو ہجرت نبویﷺ کے چالیسویں سال مسجد کوفہ میں  جب حضرت علیؑ فجر کی نماز پڑھا رہے تھے  اس وقت ایک خارجی جس کا نام عبدالرحمن بن ملجم تھا  آپؑ کو تلوار کے وار سے زخمی کیا۔جب آپؑ کو اس لعین نے زخمی کیا اس وقت آپؑ نے یہ شہر آفاق جملہ کہا تھا:

فزت ورب الكعبة"

رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔

حضرت علیؑ اس حملے کے تین دن بعد شہید ہو گئے،اس وقت آپ کی عمر چونسٹھ برس تھی آپؑ انسانیت کی اس معراج پر فائز تھے  اپنے قاتل کے بارے میں وصیت کرتے ہوئے فرمایا:

"أبصروا ضاربي أطعموه من طعامي، واسقوه من شرابي"

مجھے ضرب لگانے والے کو دیکھو اسے  میرے کھانے سے کھانا کھلاو اور اسے میر ے پانی سے پانی پلاو۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018