18 شوال 1445 هـ   27 اپریل 2024 عيسوى 7:35 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مقالات  |  فاطمہ سلام اللہ علیہا سیدۃ نساء العالمین
2020-06-14   841

فاطمہ سلام اللہ علیہا سیدۃ نساء العالمین

اللہ تعالی کا اپنے بندوں پر خاص لطف اوراپنی مخلوق میں اس کے عدل کا تقاضا ہے کہ اس نے انسانی معاشرے میں خواتین کے لئے بہت اہم مقام عطا کیا ، اور انسانی و اجتماعی زندگی کی بنیادون کو مستحکم کرنے میں خواتین کا بہت بڑا کردار رکھا ۔ خواتین انسانی معاشرے کا نصف حصہ ہے کہ جس کے بغیر زندگی کی بقاء ممکن نہیں ۔ اسی لئے آسمانی شریعتوں میں خواتین کو بہت اہمیت دی گئی ،اور انسانی زندگی میں ان کے کردار کو ان کے حقوق کا تحفظ اور عفت و پاکدامنی کی حفاظت کے ذریعے مستحکم کیا گیا ۔  انسانی تاریخ میں بہت سی خواتین کا عظیم کردار ہمیں نظر آتے ہیں ،جن میں  انسانی تہذیبی ورثے میں ان خواتین کا بہت بڑا کردار دکھائی دیتا ہے ،خواہ دینی اعتبار سے ہوں  سیاسی اعتبار سے ہو یا پھر سماجی اعتبار سے ، خواتین میں سے بعض نے بطور ملکہ بعض نے بطور معلمہ،بعض نے ادیبہ کے طور پر اور بعض نے اسی طرح زندگی کے دیگر شعبوں  میں خواہ  دینی میدان میں ہو یا دیگر انسانی شعبے تاریخ کے ہر موڑ پر اپنا کرار ادا  کیا۔

بعض معروف خواتین :

صدیقہ و مقدسہ حضرت مریم بنت عمران آسمان عز و کرامت پر ستارے کی طرح حضرت عیسی علیہ السلام جیسے  اولوالعزم نبی کی ماں کی حیثیت میں ابھری، جنکا ذکر قرآن مجید میں کئی مرتبہ ہوا ، اسی طرح حضرت آسیہ بنت مزاحم فرعون کی زوجہ ،ایک فرعونی معاشرے میں مؤمنہ بن کر تارخ انسانیت کے صفحات کو منور کر گئی ، ایک ایسی مؤمنہ جو اپنے عقیدے اور دین کی خاطر ظلم و جبر کا مقابلہ کرتی رہی  جن کا قصہ قرآن نے نہایت عزت و تکریم کے ساتھ بیان کیا .

اسلام کا دامن بھی ایسی عظیم خواتین سے خالی نہیں ہے کہ جنہوں نے انسانیت کے سفر میں نہایت اہم کردار ادا کئے ، انہی خواتین میں سے حضرت خدیجہ بنت خویلد سلام اللہ علیہا کی ذات سر فہرست تھی کہ جنہوں نے اسلام کی بنیادوں کو مستحکم کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا ، اسی طرح آپ علیہا السلام کی بیٹی  ، صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا ، رسول خدا کی لخت جگر ، سیدہ نساء العالمین بھی ہے کہ جن کا مختصر ذر اس مقالے میں کرنا مقصود ہے ،اسی طرح ان عظیم خواتین میں صبر کی ملکہ ، علی کی شیر دل بیٹی حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا اور دیگر بہت سے خواتین  بھی شامل ہیں ،

فاطمہ سلام اللہ علیہا کون ہے ؟

آپ سلام اللہ علیہا کا نام فاظمہ بنت محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ،جبکہ آپ کی والدہ گرامی کا نام حضرت خدیجہ بنت خویلد سلام اللہ علیہا ہے ،آپ  حضرت  علی ابن ابی طالب کی زوجہ تھی ، آپ علیہا السلام کی ولادت مکے میں ہوئی  ، آپ کی سنہ ولادت میں مؤرخین کا اختلاف ہے ، بعض کے مطابق آپ کی ولادت بعثت رسول خدا سے پانچ سال پہلے ہوئی، جیسا کہ اکثر اہل سنت علماء کی رائی بھی یہی ہے  ، جبکہ بعض دیگر مؤرخین کے نزدیک آپ کی ولادت بعثت  کے پانچ سال بعد ہوئی ، اس قول کو اصول کافی میں شیخ کلینی نے اختیار کیا ہے ، لیکن بعض دیگر مؤرخین کے نزدیک آپ علیہا السلام کی ولادت بعثت کے سال ہوئی  جیسا کہ یعقوبی نے ایسا کہا اور شیخ طوسی نے بھی اسی قول کو قبول کیا ۔ 

لیکن جب ہم آپ علیہا السلام کی تاریخ وفات اور اس وقت آپ علیہا السلام کی عمر کو دیکھتے ہیں، ساتھ میں متوفرہ دیگرتاریخی اسناد کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات زیادہ حقیقت کے قریب لگتی ہے کہ آپ سلام اللہ علیا کی ولادت بعثت رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دو یا تین سال بعد ہوئی ہے، کیونکہ رسول گرامی اسلام کی وفات 11 ہجری کو ہوئی ،اوروفات رسول خدا کے بعد  آپ سلام اللہ علیہا کی شہادت اظہر رویات کی بناء پر 18 سال کی عمر کوہوئی ہے ،پس سادہ حساب کے ذریعے ہم اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ آپ کی ولادت تقریبا بعثت کے تیسرے سال ہوئی ہے۔

زواج النورين

شیعہ معاشروں میں جناب فاطمہ زہراء سلاماللہ علیہا اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی شادی کے واقعے کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ کیونکہ یہ واقعہ بھی بہت عظیم ہے ، اسی لئے اس شادی و "زواج النورین "نور کی نور سے شادی کہا جاتا ہے ، ایک طرف علی علیہ السلام جیسی شخصیت ہے جو کہ رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم  خدا کے چچا زاد ، اسلام لانے والوں میں سب سےپہل کرنے والا ، اسلام کی قیام اورپھیلنے میں جس کا بہت بڑا کردار ، صاحب ذوالفقار کہ جس کے بارے میں رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اسلام صرف خدیجہ سلام اللہ علیہا کی دولت اور علی علیہ السلام کی تلوار کی بدولت قائم ہوا ہے ۔ جبکہ دوسری جانب فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا، رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی کی اکلوتی بیٹی ،جو ایک خاتون کی شکل میں خود رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جسمانی شباہت میں، اخلاقی شباہت میں اور گفتار کے اعتبار سے مکمل تصویر تھی۔ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ ابوبکر، عمر اور دیگر اور صحابہ نے رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فاطمہ سلام اللہ علیہا کے لئےخواستگاری کی مگر آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرما کر انکار کر دیا کہ اس معاملے میں خدا کے فیصلے کا منتظر ہوں،

پھر ایک دفعہ جمعہ کا دن تھا ،رسول خدا نے صبح کی نماز پڑھی ، اور فرمایا کہ : میں نے ملائکہ کی آوازیں سنیں ، میں نے دیکھا کہ جبرئیل ملائکہ کے ستر صفوں کے ساتھ سر پر نورانی تاج لئے ہوئے آ رہے تھے ، میں نے جبرئیل سے پوچھا کہ اے جبرئیل! یہ آوزیں کیسی ہیں ؟  جبرئیل نے کہا کہ یا محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم  خدا نے آج زمین پر نگاہ کی اور مردوں میں سے علی کو اور خواتین میں سے  فاطمہ کو چن لیا ہے ،پس فاطمہ کی شادی علی سے کر دیجئے ۔ جب رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سنا تو زہراء سلام اللہ علیہا نے اپنا سر اتھایا ، تبسم کے ساتھ فرمایا: خدا اور اس کے رسول کی مرضی پر میں راضی ہوں۔  .

پھر رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو مسجد میں بلایا، جب سب آگئے تو آپ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا : اللہ تعالی نے مجھے اپنی بیٹی فاطمہ کی شادی اپنے چچا زاد بھائی ، لوگوں میں میرے سب سے قریب ، علی ابن ابی طالب سے کروانے کا حکم دیا ہے۔ اللہ جل شانہ نے آسمان پر ملائکہ کی موجودگی میں ان کی شادی کر دی ہے اور زمین پر ان کی شادی کا مجھے حکم دیا ہے ، میں اس بارے میں آپ سب کو گواہ بناتا ہوں۔

حضرت فاطمہ سلام اللہ  علیہا کی صفات؛

اس عظیم الشان خاتون کی صفات بیان کرنے کے لئے ہمارے پاس الفاظ ہی نہیں ہیں ، کیونکہ آپ سلام اللہ علیہا کی شان و منزلت اس سے بہت بلند و بالا ہے کہ ان کا احاطہ ان چند سطور میں  کیا جا سکے ۔ آپ سیدہ ، صدیقہ ، طاہرہ ، مطہرہ ، زکیہ ، بتول ،اور  ام ابیہا ہیں،  فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اصھاب کساء میں سے ہیں  ، چودہ معصومین میں آپ کا شمار ہوتا ہے ، آپ سلام اللہ علیہا  اولین و آخرین کی تمام خواتین کی سرادر ہیں ، آپ سلام اللہ علیہا  حسنین علیہما السلام کی والدہ ہیں، آپ ہی وہ واحد خاتوں تھی کہ جنہیں رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم  نصاری نجران کے ساتھ مباہلے کے وقت اپنے ساتھ لے گئے تھے  ، اسی طرح آپ سلام اللہ علیہا کی اتنے صفات و خصائص ہیں کہ جن کاکسی ایسے مختصر تحریر میں  احاطہ کرنا کسی بھی زبان و قلم کے لئے ممکن نہیں۔

حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی مظلومیت:

جونہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت ہوئی  لوگ الٹے پاؤں پلٹ گئے ، اور سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوگئے تاکہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسم کا جانشین منتخب کر لیں، گویا انہوں نے غدیر خم میں علی کو رسول خدا کی جانب سے خلیفہ متعین کرنے کامنظر دیکھا ہی نہیں تھا۔ علی علیہ السلام نے نے سقیفہ کا بائکاٹ کیا ، لوگوں نے آپ کو بیعت پر مجبور کرنے کی کاشش کی جسے آپ علیہ السلام نے مسترد کر دیا ،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان لوگوں نے اس گھر پر حملہ کر دیا جس میں فاطمہ سلام اللہ علیہا تشریف فرما تھی ،اس حملے میں آپ سلام اللہ علیہا زخمی ہوئی اور آپ کا حمل (محسن)ساقط ہوا ۔ پھر اس کے بعد آپ پر ظلم و ستم ڈھائے گئے ،  انبیاء کی کوئی میراث نہیں ہوتی کے باطل دعوی کے ذریعے آپ کو اپنے بابا کی میراث(باغ فدک) سے محروم کیا گیا ، جبکہ فدک رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہی فاطمہ کو ہبہ کر کے دیا تھا  کیونکہ وہ رسول کی ملکیت تھی۔

فدک کا غصب کرنا ایک خطرناک واقعہ تھا کہ جو صریح قرآن سے مکمل متصادم تھا ، کیونکہ قرآن کے مطابق انبیاء بھی دیگر لوگوں کی طرح میراث چھوڑتے ہیں (وورث سليمانُ داوودَ) اور سلیمان داؤد کے وارث بنے (النمل-16)، (يرثني ويرث من آل يعقوب واجعله ربِّ رضيا) جو میرا وارث بنے اور آل یعقوب کا وارث بنے اور میرے پروردگار! اسے (اپنا) پسندیدہ بنا۔ (مريم-6

وفات صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا:

آپ سلام اللہ علیہا کی وفات کے حوالے سے مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سنہ 11 ہجری کو ہوئی ،البتہ کس مہینے کی کس تاریخ کو آپ کی وفات ہوئی اس سلسلے میں اختلاف ہے ، بعض کے نزدیک آپ اپنے والد گرامی کی رحلت کے بعد 24 دن زندہ رہی ،بعض کے نزدیک آٹھ ماہ تک ، لیکن مشہور یہی ہے کہ آپ رسول خدا کی رحلت کے بعد تین ماہ پانچ دن تک زندہ رہی ، پس جب ہم آپ کی تاریخ وفات کو رسول خدا کی تاریخ وفات کے ساتھ ملا کر دیکھتے ہیں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ کی رحلت 11 ہجری 3 جمادی الثانی کوہوئی۔

حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی تدفین؛

آپ سلام اللہ علیہا کو آپ کے شوہر امیر الؤمنین علیہ السلام نے آپ علیہا السلام کی وصیت کے مطابق رات کے وقت خفیہ طریقے سے دفن کیا  ۔ آج تک آپ کے قبر اطہر کی جگہ معلوم نہیں ہے ، آپ کی تشیع جنازہ میں چند خاص مؤمنین جیسے سلمان ، ابوذر ، عمار بن یاسر ، مقداد ، حذیفہ بن یمان ، عبد اللہ بن مسعود ، عباس بن عبد المطلب ، فضل بن عباس ، عقیل ، زبیر ،اور بریدہ کے علاوہ کسی کو شرکت نصیب نہ ہوئی ۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ رسول خدا کی اکلوتی بیٹی کی تشیع جنازہ میں صرف اتنے لوگوں کی شرکت آپ سلام اللہ علیہا کی شان کے مطابق نہیں تھا مگر آپ سلام اللہ علیہا کی جانب سے ایسی  وصیت کی کوئی خاص وجہ تھی ۔  اس وجہ کو صراحتا امیر المؤمنین نے بیان فرمایا کہ آپ کے دشمنوں میں سے کوئی بھی آپ کے جنازے میں شریک نہ ہوں ، کیونکہ ان سے زہراء سلام اللہ علیہا شدید ناراض تھی۔

زہراء سلام اللہ علیہا کے لئے یہی فخر کافی ہے کہ وہ اولین و آخرین کی عورتوں کی سردار ہیں، اورآپ آیہ ) إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا) اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔ (الأحزاب-33)، کے مصادیق میں سے ہے ، آپ وہ واحد خاتون ہے جو رسول خدا کے ساتھ نصاری نجران کے خلاف مباہلے کے لئے گئی ، آپ گیارہ معصوم اماموں کی ماں ہے ، پس آپ کی فضائل کو مناقب بے شمار ہیں۔

آپ علیہا السلام  وہ واحد خاتون ہے جو رسول خدا کے ساتھ نصاری نجران کے خلاف مباہلے کے لئے گئی ، آپ گیارہ معصوم اماموں کی ماں ہے ، پس آپ کی فضائل کو مناقب بے شمار ہیں۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018