17 شوال 1445 هـ   26 اپریل 2024 عيسوى 7:28 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مقالات  |  معجزہ اور جادو
2020-06-14   1122

معجزہ اور جادو

بعض لوگوں کے نزدیک معجزہ اور جادو کے مفہوم میں شباہت کی وجہ سے ان کے لئے یہ مشکل پیش آتی ہے کہ ان دونوں میں فرق کیسے کیا جائے ؟ اس لئے یہ ہمارا علمی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ ہم ان دونوں کے درمیان موجود مشترک اور مختلف نکات کو الگ الگ کر کے اس مشکل کوحل کریں ۔ تاکہ اس بارے میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے بھی ان دونوں مفاہیم کے درمیاں مشترکات کو سمجھنے اور دونوں میں موارد اختلاف کو الگ الگ کرنے کی صلاحیت حاصل ہو جائے ،جس کے نہ ہونے کی وجہ سے بعض اوقات انسان ادیان سماویہ کی حقانیت ، انبیاء کی نبوت ، رسولوں کی رسالت  وغیرہ میں شک کرنے لگتا ہے ، اور یہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ ادیان بھی خلاصتا انسانوں کی ایجاد کردہ ہیں ،یہ کسی رب یا اللہ کی جانب سے نہیں ہیں ۔ بناء بر این ضروری ہے کہ ہم اس مسئلے کو علمی مگر عام فہم انداز میں پیش کریں ،جس میں ہر درجے کے عقل و شعور کے لوگ ہمارا مخاطب ہو اس سے قطع نظر کہ وہ کس رنگ و نسل یا ثقافت سے تعلق رکھتے ہیں ۔

معجزہ کی تعریف : ہر وہ کام  کہ جس کو انجام دینے یا اس جیسا فعل کی بجا لانے سے عام انسان اپنی تکوینی قدرت کی محدودیت کے پیش نظرعاجز ہو، یہ  نطام طبیعت کےعام قوانین کہ جن کے تحت اللہ تعالی کا یہ نظام چل رہا ہے ،کی عام دفعات سے خارج امور ہوتے ہیں جن کے اپنے خاص علل و اسباب ہوتے ہیں ۔ بعض اوقات یہ کسی خاص وقت یا خاص مکان کے ساتھ بھی مختص ہوتے ہیں ۔ معجزہ انبیاء و مرسلین کی نبوت ورسالت کی تصدیق کے لئے انبیاء و مرسلین کے ساتھ مختص ہوتا ہے، البتہ اولیاء و صالحین کی لئے یہ چیز کرامات کی شکل میں عطا   ہوگئی ہے تاکہ دنیا  کے سامنے ان  کی شان و عظمت اور خدا وند متعال کے ساتھ ان کی معنوی قربت ظاہر ہو ۔ اور یہ معجزے اور کرامات خدا وند متعال کی تایئد سے ہی انجام پاتے ہیں ، اور یہ دائرہ معارضہ سے باہر ہوتے ہیں ،تاکہ یہ انسان کی محدود قابلیت کے سامنے ایک چیلنج کی صورت میں پیش کئے جا سکے ۔ پس یہ کسی قسم کی تعلیم و تعلم اور مشق و ریاضت سے حاصل نہیں کئے جاسکتے ، اور نہ ہی ان کو انجام دینے کے لئے صاحب ِ معجزہ  کے جسمانی ،عقلی یا نفسیاتی طاقت پر انحصار کیا جاتا ہے ۔کیونکہ ایک عادی انسان کے لئے، محدود قدرت کی حامل مخلوق ہونے کی بناپر ،کائنات کے قوانین اوراللہ تعالی کی ثابت سنتوں میں تغیر تبدل ممکن نہیں ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے اس کائنات کو ایجاد فرما کر اپنی قدرت کاملہ سے مستحکم سنن و قوانین کی مطابق اس کائنات کو چلاتا ہے ،اور وہ ہر شئی پر قدرت رکھتا ہے ۔ اور وہ اپنے ان قوانین و سنن میں کسی قسم کے تحول و تبدل کو قبول نہیں فرماتا  ( لَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّـهِ تَبْدِيلًا وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّـهِ تَحْوِيلًا) لہٰذا آپ اللہ کے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے اور نہ آپ اللہ کے دستور میں کوئی انحراف پائیں گے۔ (فاطر-43) اور جب تک انتہائی ضروری نہ ہو اللہ تعالی اپنے ان قوانین کو تبدیلی کی اجازت عطا نہیں فرماتا ۔

خدا کی صفات میں سے ایک حکیم ہونا ہے یعنی اس کا ہر فعل اس کی حکمت کے تابع ہے ،پس نہ کوئی کام اس کی حکمت سے خالی ہے اور نہ اس نے جو کچھ بنایا ان مین کوئی شئی عبث و فضول ہے ۔ لیکن کسی نبی کی نبوت یا رسول کی رسالت کو لوگوں پر ثابت کرنے کے لئے ، ضرورت کے اپنے کچھ قوانین ہیں جو طبیعت کے عام قوانین میں کسی خاص زمان یا مکان کی نسبت تبدیلی کا موجب بنتے ہیں ۔ بعض اوقات یہ کام خدا خود انجام دیتا ہے ،اور اپنی سنتوں میں سے کسی سنت میں تبدیلی لاتا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعے میں ہم دیکھتے ہیں کہ خدا نے خود ہی آگ کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنی جالانے والی طبیعت میں تبدیلی لاتے ہوئے ابراہیم کے لئے ٹھنڈی ہو جائےاور ابراہیم علیہ السلام کے لئے سلامتی میں تبدیل ہو جائے ۔

معجزہ کی ضرورت صرف ان لوگوں کے لئے ہوتی ہے کہ جن کے دلوں میں نبی یا رسول کی سچائی یا آسمانی دین کی سچائی کے بارے میں شکوک و شبہات ہوں ، یا پھر خدا کسی مناسب زمان یا مکان میں اپنے نبی یا بنی کے ساتھیوں کو بچانے کے لئے ضروری سمجھے ،جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام  کو آگ میں جب پھینکا گیا ،یا جو کچھ حضرت موسی کے ساتھ پیش آیا جب خدا نے ان کے لئے دریا کو دو حصوں میں شق کیا تاکہ موسی اور بنی اسرائیل وہان سے گزر جائے اور فرعون اور اس کی فوج سے نجات پائے جو موسی اور بنی اسرائیل کا پیچھا کر رہے تھے ۔اسی طرح بعض معرکوں میں ہمارے نبی صلی الہ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت کے لئے ملائکہ کا نازل ہو جانا جیسے بدر ،احد اور حنین ،(وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّـهُ بِبَدْرٍ وَأَنتُمْ أَذِلَّةٌ فاتقوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ) بتحقیق بدر میں اللہ نے تمہاری مدد کی جب تم کمزور تھے،پس اللہ سے ڈرو تاکہ شکر گزار بن جاؤ ۔ (إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَن يَكْفِيَكُمْ أَن يُمِدَّكُمْ رَبُّكُم بِثَلَاثَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُنزَلِينَ)  جب آپ مومنین سے کہ رہے تھے: کیا تمہارے لیے کافی نہیں ہے کہ تمہارا پروردگار تین ہزار فرشتے نازل فرما کر تمہاری مدد کرے ؟

(بَلَى إِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُم مِّن فَوْرِهِمْ هَـذا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُم بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ) ہاں اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو دشمن جب بھی تم پر اچانک حملہ کر دے تمہارا رب اسی وقت پانچ ہزار نشان زدہ فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا۔ (آل عمران ـ 123ـ 125)

یہ ضروری نہیں کہ ایمان لانے کے لئے ہر شخص کو معجزے کی ضرورت ہوتی ہو ،اصحاب میں سےجو لوگ نبی صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قریب سے جانتے تھے ،جنہوں نے رسول اللہ  کے ساتھ زندگی گزاری تھی اور آپ کی قبل از نبوت و بعد از نبوت زندگی سے واقفیت رکھتے تھے ، آپ کے بلند مقام اور عظیم اخلاق سے آشنا تھے ،انہوں نے آپ کی دعوت کو بغیر کسی معجزے کا مطالبہ کئے قبول کیا تھا ۔ کیونکہ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر یقین حاصل ہو چکا تھا اور وہ جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو پیغام لے آئے ہیں وہ خدا کی طرف سے ہے اور آپ ص کی رسالت پوری انسانیت کے لئے پیغامِ ہدایت ہے ۔ اس پیغام کے ذریعے نہ آپ کسی اجرت کے طالب تھے نہ جاہ و منصب کے ،لہذاآپ کی سچائی میں شک کی کوئی وجہ بھی نہیں تھی ۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی دعوت کے آغاز میں ہی اپنے ذوی القربی تک یہ پیغام پہنچانے کا حکم دیا کہ آپ کا پیغام پوری انسانیت کے لئے ہے ،جس کا ہدف انسانیت کو خدائے یکتا کی عبادت کی جانب بلانا ،مشرکانہ  عمل سے لوگوں کو نجات دلانا ،کہ جس میں لوگوں نے بتوں کو اپنا رب بنایا ہوا تھا اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ان کے زندگی کی تدبیر انہی بتوں کے ہاتھ میں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی دعوت کے بارے میں قرآن کرم نے ان الفاظ کے ساتھ اشارہ کیا (وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ)  اور اپنے قریب ترین رشتے داروں کو تنبیہ کیجیے (الشعراء -214 اس دعوت کے بعد آپ کے قریبی رشتہ داروں میں سے بعض نے بغیر کسی معجزے کا مطالبہ کئے آپ کی دعقت کو قبول کیا ۔

اپنی دعوت کی دلیل اور نبوت و رسالت کی تصدیق کے لئے انبیاء اور رسولوں کے معجزات کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خدا کے اذن سے چاند کے دوٹکڑے کرنا،جو وہ آپ کی رسالت و نبوت میں شک کرنے والوں کے سامنے آپ صلی اللہ علییہ وآلہ وسلم کی حقانیت کی دلیل تھی ، اسی طرح خدا کے اذن سے حضرت ابراہیم کے لئے آگ کا ٹھندا ہوکر سلامتی قرار پانا جب آپ علیہ السلام کو نمرود نے ،ان بتوں کو توڑنے کی سزا کے طور پر آگ میں پھینکا تھا کہ جن کے رب ہونے کا وہ لوگ عقیدہ رکھتے تھے ۔ (قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ) ہم نے کہا: اے آگ! ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیم کے لیے سلامتی بن جا (الأنبياء -69) ۔ حضرت موسی کی عصا کاخدا کی اذن سے ایک زندہ چلتے پھرتے سانپ میں تبدیل ہونا ،کہ جسے جادوگروں نے بھی دیکھا ،حالانکہ جادو  میں وہ سب ماہر تھے بلکہ وہ مصر کے بڑے بڑےجادو گر تھے جو آنکھوں کو فریب دے کر کیا جانے والا جادو اور اللہ تعالی کی جانب سے اظہار حق کے لئے دکھایا جانے والے معجزہ میں فرق کو بہت اچھی طرح جانتے تھے ۔ جب انہوں نے دیکھا کہ کس طرح اس عصا نے ان رسیوں کو نگل لیا جو کہ جادو کے ذریعہ آنکھوں کے دھوکہ کی وجہ سے عام دیکھنے والوں کی نظر میں سانپ دکھائی دے رہے تھے ۔لیکن خود جادو گروں نے جب یہ جان لیا کہ یہ اللہ کی طرف سے ایک عظیم معجزہ ہے،ان کے اپنے عمل کی طرح کوئی جادو نہیں ہے تو وہ فورا موسی علیہ السلام  کے پروردگار پر ایمان لے آئے ، جس کی وجہ سے فرعون بہت غضب ناک ہوا ، موسی کی نبوت کو کو باطل ثابت کرنے اور لوگوں پر یہ ثابت کرنے کے لئے کہ موسی جادو گر ہے ،فرعون نے جتنا مجمع اکھٹا کیا تھ ااس کے سامنا وہ خود رسوا ہو گیا ۔ لیکن اس عظیم معجزے کو تسلیم کرنے کی بجائے اس نے یہ دعوی کر دیا کہ موسی علیہ السلام ان تمام جادو گروں کا بڑا جادو گر ہے کہ جس نے باقیوں کو بھی جادو سکھایا ہے۔ تاکہ اس بے بنیاد بات کے ذریعے وہ اس خفت کو مٹا سکے جس کا اسے سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کے بعد فرعون نے ان جادو گروں کو جنہیں وہ خود موسی کے خلاف لے آیا تھا ،اس کی اجازت کے بغیر موسی کے رب پر ایمان کا اظہار کرنے کے جرم میں پھانسی دینے اور موت کے گھاٹ اتارنے کی دھمکی دیتا ہے  ،کیونکہ وہ یہ دعوی کرتا تھا کہ وہ خود سب سے بڑا رب ہے۔ (فَأَلْقَوْا حِبَالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ وَقَالُوا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ إِنَّا لَنَحْنُ الْغَالِبُونَ) انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈال دیں اور کہنے لگے: فرعون کے جاہ و جلال کی قسم بے شک ہم ہی غالب آئیں گے۔

 (44) فَأَلْقَى مُوسَى عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ پھر موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا تو اس نے دفعتاً ان کے سارے خود ساختہ دھندے کو نگل لیا۔ (45) فَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَاجِدِينَ (46) ۴۶۔ اس پر تمام جادوگر سجدے میں گر پڑے( (قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِينَ کہنے لگے: ہم عالمین کے پروردگار پر ایمان لے آئے (47) رَبِّ مُوسَى وَهَارُونَ ۴۸۔ موسیٰ اور ہارون کے رب پر

(48) قَالَ آمَنْتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ فَلَسَوْفَ تَعْلَمُونَ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلَافٍ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ) فرعون نے کہا: میری اجازت سے پہلے تم موسیٰ کو مان گئے؟ یقینا یہ (موسیٰ) تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے ابھی تمہیں (تمہارا انجام) معلوم ہو جائے گا، میں تمہارے ہاتھ اور تمہارے پاؤں مخالف سمتوں سے ضرور کٹوا دوں گا اور تم سب کو ضرور سولی پر لٹکا دوں گا  ( الشعراء ـ 44 ـ 49.)

جہاں تک اعجاز کا تعلق ہے تو یہ فعل عجز سے اسم مصدر ہے ، اس کا مطلب بشر کا خدا کے کلام یا فعل کی مثال لانے سے عاجز ہونا ہے ۔ انسان کا یہ عاجز ہونا کسی خاص زمان یا مکان سے مختص نہیں ہے ، اعجاز کی دو قسمیں ہیں،

اعجاز مطلق : خد سے صادر ہونے والا ہر قول و فعل اعجاز مطلق میں شمار ہوتا ہے جس کی تائید آیت مجیدہ (.لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ) اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور وہ خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے (الشورى - 11) سے ہوتی ہے  ۔ اس آیت میں خدا وند متعال نے اپنی ذات ، صفات اور افعال کے مثل کی نفی کی ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تمام جن و انس کو چیلنج کرتا ہے کہ اس کے کلام یا فعل کی مثال لاکر دکھائیں ۔ (قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا) کہدیجئے: اگر انسان اور جن سب مل کر اس قرآن کی مثل لانے کی کوشش کریں تو وہ اس کی مثل لا نہیں سکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں (الإسراء - 88)

یہ چیلنچ قیامت تک کے لئے جاری و ساری ہے ،اور بشر ایسا کرنے سے قاصر ہے ۔ قرآن مجید نے بہت سی آیات میں اس چیلنج کو کھلے انداز مین بیان کیا جن میں سے مثال کے طور پر ہم ایک کا ذکر کرتے ہیں۔ (أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّثْلِهِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللَّـهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ) کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو (محمد نے) از خود بنایا ہے؟ کہدیجئے: اگر تم (اپنے الزام میں) سچے ہو تو تم بھی اس طرح کی ایک سورت بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جسے تم بلا سکتے ہو بلا لاؤ۔ (يونس - 38)،

جبکہ اعجاز کی دوسری قسم اعجاز نسبی ہے ، اس کا مطلب بشر کا وہ عمل ہے جس کا انحصارکسی انسان کی جسمانی ، عقلی اور نفسیاتی قابلیت اور قدرت پر ہے ۔اور یہ انسان کی طاقت کے تکوینی حدود کے اندر محدود ہے ۔کیونکہ انسان کا فقر ذاتی ہے ۔(يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّـهِ وَاللَّـهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ) اے لوگو ! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو بے نیاز، لائق ستائش ہے (فاطر-15)،لہذا یہ خارق العادت امور بھی کسی خاص زمان و مکان کے ساتھ مختص ہوتی ہیں ،زمان و مکان کی حدوں میں محدود کسی انسان سے مربوط ہونے کی وجہ سے ان میں ہمیشہ رہنے کی قدرت نہیں ہوتی  ۔ اسی طرح ان کا مقصد بھی کسی نبوت یا رسالت کو ثابت کرنا نہیں ہوتا ۔ اور یہ جب کسی الہی سنت سے ٹکرائے تو اس میں ثابت رہنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، کیونکہ انسان جس قدر بھی مشق اور ریاضت کرے وہ چاند کے ٹکڑے نہیں کر سکتا ، وہ دریاکوشگافتہ نہیں کرسکتا ، وہ آگ سے جلانے کی خاصیت کو چھین نہیں سکتا  ۔ البتہ انسان کے پاس ایک محدود قدرت ہوتی ہے جو نسلوں کے گزرنے کے ساتھ طاہر ہوتی ہیں  حالانکہ یہی قدرت بھی در اصل خدا وند متعال کی قدرت کی مظہر ہوتی ہے ،کیونکہ خدا علی و عظیم کی دی ہوئی قدرت کے علاوہ انسان کی اپنی تو کوئی قدرت نہیں ہے ۔ انسان  اپنے وجود اور تدبیر میں خدا کی ذات سے قائم ہے لہذا وہ اس حد کو نہیں پھلانک سکتا جس کے لئے اس کو بنایا گیا ہے ، اس مطلب کو واضح کرنے کے لئے خدا وند متعال اپنی کتاب میں قصہ ہابیل و قابیل میں انسان کی اس کمزوری کو بیان فرماتا ہے کہ قابیل اپنے بائی ہابیل کو قتل کرنے کے بعد اس بات سے بھی عاجز ہے کہ اسے دفنا دے (فَبَعَثَ اللَّـهُ غُرَابًا يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ لِيُرِيَهُ كَيْفَ يُوَارِي سَوْءَةَ أَخِيهِ قالَ يَا وَيْلَتَى أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ مِثْلَ هَـذَا الْغُرَابِ فَأُوَارِيَ سَوْءَةَ أَخِي فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ) پھر اللہ نے ایک کوے کو بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اسے دکھا دے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے، کہنے لگا: افسوس مجھ پر کہ میں اس کوے کے برابر بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا، پس اس کے بعد اسے بڑی ندامت ہوئی (المائدة 31)

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018