11 شوال 1445 هـ   20 اپریل 2024 عيسوى 5:40 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | انسانی حقوق |  غیر مسلموں کے حقوق
2019-09-21   1328

غیر مسلموں کے حقوق

دین اسلام ایک عالمی دین ہے۔ یہ دین دنیا کے تمام لوگوں کو اپنے دائرے میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ دین کسی جغرافیائی حدود پر موقوف ہے نہ ہی دیگر مختلف ادیان کی طرح ہے جو صرف اپنے خاص رنگ و نسل و ذات اور قبیلے کے لوگوں کو اپنا سمجھتے ہیں۔ بلکہ ان ادیان میں اپنے قبائل اور گروہوں کے علاوہ دوسروں سے شادی کرنے تک سے منع کیاجاتا ہے۔صرف یہی نہیں، بلکہ اپنے بہت سارے شروط قیودِ اقتصادی، اجتماعی اور فکری میں دوسروں کی شمولیت کو بھی برداشت نہیں کرتے۔ جبکہ دین اسلام کے اندر دنیا کے لوگوں میں ان کی ذات پات کی وجہ سے امتیازی سلوک کاکوئی تصور نہیں۔

 یہی وجہ ہے کہ دین اسلام اپنے بلاد اسلامی میں بھی دیگر ادیان کے ماننے والوں کو امان دیتا ہے۔ اسلامی ممالک جتنا ان میں رہنے والے مسلمانوں کا وطن ہے اتنا ہی وہاں رہنے والے غیر مسلموں کا بھی ہے جو اسلامی سرزمین پر ”ذمی“ کہلاتے ہیں۔ ”اہل ذمہ“ ایک اصطلاح ہے۔ اس سے مراد وہ غیر مسلم افراد ہیں جنہیں مسلمان اپنے ملک اور حکومت کے ماتحت رہنے کی اجازت دیتےہیں۔ اس اصطلاح کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ لفظ مادہ" ذمہ" سے نکلا ہے۔ یعنی امن و امان کا عہد اور وعدہ۔ یعنی جب اہل ذمہ یا ذمیین (غیر مسلم) مسلمانوں کے ملک میں آتے ہیں تو وہ مسلمانوں کے ذمہ داری میں ہوتے ہیں۔ ان سے مادی اموال میں سے کچھ حصہ ”جزیہ“ کے طور پر لینے کے  بعد ان کے اموال عزت اور ان کی جانوں کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔

جزیہ ایک قسم کا اسلامی حکومت کو دیا جانے والا ٹیکس یا لگان کی مانند ہے جو اہل ذمہ حکومت اسلامی کو ادا کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح   مملکت میں رہنے والوں کےلئے امن و سلامتی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ دوسری طرف حکومت اسلامی میں رہنے والے کفار کو اہل ذمہ کہنا ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے تعبیر کی گئی ایک اصطلاح ہے۔ کیونکہ اس طرح ان کو عام مسلمانوں سے تمیز دی جاسکتی ہے۔ اور کچھ امور میں ان کو چھوٹ بھی ملتی ہے۔ جبکہ مسلمان شہریوں کو اسلامی حکومت میں کچھ ذمہ داریاں اضافی بھی نبھانی پڑتی ہیں۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اہل ذمہ کو حکومت اسلامی کےلئے جزیہ کے طور پر جو ٹیکس یا لگان ادا کرنا پڑتا ہے، یہ بھی اس پر کوئی الگ بوجھ نہیں۔ کیونکہ مسلمان شہری بھی مختلف عنوانات کے ساتھ حکومت کو ادائیگی کا پابند ہے۔ بلکہ اہل ذمہ کافر کے مقابلے میں مسلمان زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔ مثلاً کافر ذمی تجارت کرتا ہے تو اسے اپنی تجارت کا صرف دسواں حصہ حکومت کو ادا کرنا پڑتا ہے جبکہ مسلمان شہری کو کبھی زکواۃ کی شکل میں کبھی خمس، کبھی صدقات اور عطیات کی شکل میں کافر ذمی سے کئی گنا زیادہ مال حکومت اسلامی کو دینا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر کہا جائے کہ حکومت اسلامی میں رہنے والے کافر ذمی سے جزیہ لینا تعسف اور زیادتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حکومت اسلامی میں کافر ذمی مجبور نہیں۔ بلکہ حکومت کے ساتھ کافر زمی کا معاہدہ ہونے سے پہلے ہی اسلام اپنا نظام اسے بتا دیتا ہے۔ پس اگر کسی کافر کو یہ زیادتی لگتی ہے تو حکومت اسلامی کے زیر انتظام ہی نہ رہے۔ اسلام نے اسے مجبور تو نہیں کیا۔ اسلام نے اپنے سیاسی اور حکومتی نظام سے پہلے ہی آگاہ کیا ہوا ہے، لہٰذا کافر کو آزادی ہے کہ حکومت اسلامی کے زیر انتظام آئے یا اس سے باہر رہے۔ اگر حکومت اسلامی سے معاہدہ کرکے اس کے زیر انتظام آتا ہے تواسے اپنے معاہدے کی پابندی کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیئے۔

دوسری جانب حکومت اسلامی اپنے مسلمان شہریوں اور غیر مسلم شہریوں سے مختلف عناوین کے ساتھ مالی وجوہات لیتی ہے تو یہ خود ایک انسانی رفاہی عمل ہے۔ حکومت یہ وجوہات اس لئے لیتی ہے تاکہ مال کو معاشرے کے کچھ محدود لوگوں کے ہاتھ میں نہ رہے۔ بلکہ مال گردش میں رہے اورمملکت اسے اپنے تمام رعایا کی مصلحت میں استعمال کرے۔ یہ معاشرے کی نظامت کےلئے حکومت کی ایک ذمہ داری بھی ہے اور مملکت کی اجتماعی ضرورتوں کو پورا کرنے کا ذریعہ بھی۔ کیونکہ اسی مال سے ملک کا نظم و نسق اور اس کا دفاع مستحکم کیا جاتا ہے اور شہریوں کے حقوق اور واجبات کو ادا کرنے کےلئے اقتصادی امور کو بھی اسی کے ذریعے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کافر ذمی سے جزیے کے طور پر جو کچھ لیا جاتا ہے در حقیقت حکومت اسلامی اپنےشہریوں کے لئے جو خدمات فراہم کرتی ہے اس کے مقابلے میں لیا جانے والا معمولی معاوضہ ہے۔ یہی معاوضہ ایک مسلمان شہری سے بھی لیا جاتا ہے۔ بلکہ اس سے تو اور بھی خدمات لیتی ہے۔ جیسے کافر سے صرف جزیہ لیتی ہے اور اسے مملکت کےلئے عسکری خدمات انجام دینے سے معاف رکھتی ہے جبکہ مسلمان شہری کویہ خدمت بھی انجام دینی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت اسلامی بہت سے غیرمسلموں کو جزیہ بھی معاف کرتی ہے جیسے معذور، بچے، عورتیں، غلام، بوڑھے اور نادار ذمی کافروں سے یہی جزیہ بھی نہیں لیتی۔ یعنی جزیہ صرف انہی کافروں سے لیتی ہے جو استطاعت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جزیہ لیتے ہوئے بھی اسلام اپنے ماننے والوں کو اہل ذمہ سے نرم رویہ اور حسن سلوک روا رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ بلکہ جزیہ لینے میں بھی کم سے کم پر اکتفا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ چنانچہ امام علی علیہ السلام کے وصیت نامے سے یہ معلوم ہوتا ہے: إياك أن تضرب مسلماً أو يهودياً أو نصرانياً في درهم خراج، أو تبيع دابة عمل في درهم، فانا أمرنا أن نأخذ منه العفو “۔ مبادا! خراج کے درہم کے بارے میں کسی مسلمان، یہودی یا مسیحی کو نہ مارنا۔ اور اس کے کام کے کسی حیوان کو درہم حاصل کرنے کے لئےنہ بیچنا۔ کیونکہ ہمیں ان سے عفو و درگزر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اسلامی کے مسلمان کارندوں کو کسی غیر مسلم پر اس وجہ سے مارنے یا اس کا رزق چھیننے یا اس کی رزق کا وسیلہ بیچنے سے منع کیا گیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسلام نے حکومت اسلامی میں رہنے والےکفار کو دوسرے اقتصادی حقوق بھی ضمانت کے طور پر عطا کئے ہیں۔ جیسے ان کے اموال پر تجاوز کرنا حرام قرار دیا ہے اگر کوئی مسلمان ان کا مال لے لے یا اسے کوئی نقصان پہنچے تو اسلام اسے اس نقصان کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ یہاں تک کہ کافر کا مال اگر چہ اسلامی نکتہ نگاہ سے کوئی مالیت نہ بھی رکھتاہو یا اسلام کی نظر میں وہ مال حرام بھی ہو جیسے شراب اور سور وغیرہ تب  بھی اگر کوئی مسلمان اسے نقصان پہنچائے یا ضائع کرے تو اس کا وہ ضامن ہے۔

اسلام نے غیر مسلم اہل ذمہ کے لئے ان مادی حقوق کے علاوہ دیگر حقوق دیئے ہیں۔ چنانچہ رسول اکرم نے ہر مقام پر مسلمانوں کو تاکید کے ساتھ حکم دیا ہے کہ اسلامی مملکت میں رہنے والے غیرمسلموں کی رعایت کریں۔ مثلاً ایک مقام پر آپ نے ارشاد فرمایا: ” ألا من ظلم معاهدا أو انتقصه أو كلفه فوق طاقته أو أخذ منه شيئاً بغير طيب نفس،فأنا حجيجه يوم القيامة" “۔

آگاہ رہو جس نے بھی کسی ذمی پر ظلم کیا، یا اس کا کوئی حق کم کیا، یا اس کی طاق سے زیادہ اس پر بوجھ ڈالا، یا اس سے ناحق کوئی چیز لے لے تو قیامت کے دن میں اس ذمی کی طرف سے اس  کے  حق کا مدعی اور طلبگار ہوں گا۔

اسلامی ملکت میں غیر مسلموں کے ساتھ رسول اکرمؐ کے سلوک اور اس میں موجود فلسفے کی رعایت اور اس پر عملدرآمد، ہمیں امام علیؑ کی سیرت میں بھی نظر آتا  ہے چنانچہ امیر المؤمنینؑ نے اسلامی ریاست میں رہنے والے غیرمسلموں کے بارے میں ارشاد فرمایا: ”من كان له ذمتنا فدمه كدمنا وديته كديتنا"  جس کافر کا ہمارے ساتھ ذمہ ک معاہدہ ہے، اس کا خون ہمارے خون کی طرح ہے اور اس کا دیہ ہمارے دیے کی طرح ہے۔ اس بناء پر تاریخ کی اس روایت کا درست ہونا بعید نہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ امامؑ نے ایک بزرگ شخص کو دیکھا جو لوگوں کے درمیان اپنی حاجت پیش کر رہا تھا۔ امامؑ نے اس کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے کہا وہ ایک نصرانی ہے۔ امامؑ نے اسی وقت اس شخص کے لئے  مسلمانوں کے بیت المال میں سے اسے وظیفہ جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے انسانی حقوق کے  بارے میں اپنا اہم قول بیان فرمایا: ” استعملتموه حتى إذا كبر وعجز تركتموه، أجروا له من بيت المال راتبا "۔اس شخص کے بوڑھاپے اور ناتوانی تک تم اس سے کام لیتے رہے۔ جب یہ بوڑھا ہوا اور کام کرنے سے عاجز ہوا تو اسے یونہی چھوڑ دیا!، اسے بیت المال میں سے وظیفہ دے دو۔“

یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ ذمی کافر کے بعض اوقات نہ صرف جزیہ معاف ہوتا ہے بلکہ مسلمانوں کے زکاۃ، خمس اور دیگر عطیات کے بیت المال میں سے اسے وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔

اسی نکتے کی طرف ہمارے چوتھے امامؑ نے اپنی رسالۃ الحقوق میں بھی وصیت کرتے ہوئے فرمایا:  واما حق أهل الذمة فالحكم فيهم؛ ان تقبل منهم ما قبل الله، وتفي بما جعل الله لهم من ذمته وعهده، وتكلهم إلى الله فيما طلبوا من أنفسهم واجبروا عليه، وتحكم فيهم بما حكم الله به على نفسك فيما جرى بينك وبينهم من معاملة، وليكن بينك وبين ظلمهم من رعاية ذمة الله والوفاء بعهده وعهد رسوله حائل، فانه بلغنا انه قال: من ظلم معاهداً كنت خصمه  (ترجمہ:اہل ذمہ کا حق یہ ہے کہ ا ن پر کوئی بھی حکم لگاتے ہوئے جو اللہ کی طرف سے ہے اسی کو قبول کرو، جو حق اللہ نے ان کے لئے اپنے ذمے لیا ہے وہ ادا کرو، اگر تمہارے اور ان کے درمیان کوئی معاملہ ہو جائے تو ان پر وہی حکم لگاؤ جو اللہ نے تم پر لگایا ہے، تمہارے اور ان کے ظلم کے درمیان اللہ اوراس کے رسول ؐ کاعہد حائل رہے۔ کیونکہ رسول اکرمؐ کا فرمان ہے: جو شخص کسی معاہد (کافر ذمی) پر ظلم کرے، میں اس کے مقابل فریق ہوں گا۔)

جس طرح اسلام نے غیر مسلموں کو ان کے عقائد اور مذہبی شعائر کے ساتھ تحفظ دیا ہے ۔ خصوصاً اہل کتاب جیسے یہودی و نصاریٰ کو اسلامی ریاست میں تحفظ اور پناہ دیا ہے۔ اسلام نے اسلامی مملکت میں رہنے والوں کے درمیان امتیاز کا بس ایک ہی سبب قرار دیا ہے اور وہ ہے تقویٰ، چنانچہ ارشاد ہوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ "(سورہ الحجرات/13) تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والا، باخبر ہے۔

اسلام کسی کافر کو اپنی طرف بلاتا ہے تو بھی حکمت اور موعظہ حسنہ کے ذریعے پیغام حق دیتا ہے لیکن اسے کسی صورت مجبور نہیں کرتا ۔ جیسے ارشاد ہواادْعُ إلى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ "(سورہ النحل/125) (اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے پروردگار کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں، یقینا آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔

یہاں تک ہم اسلامی ریاست میں مسلمانوں کی ذمہ داری کی بات کررہے تھے۔ لیکن غیر اسلامی ممالک جیسے آج کے مغربی ممالک میں کیا مسلمان کو اپنی ذمہ داری سے چھوٹ ملتی ہے؟۔ نہیں بلکہ اسلام کہتا ہے کہ جو ذمہ داریاں اور فرائض ایک مسلمان پر اپنے وطن یعنی اسلامی ملک میں لازم ہیں، غیر اسلامی ممالک میں بھی اسے ان ذمہ داریوں کی پاسداری کرنی چاہیئے۔ اسلام نے مملکت اسلامی کے حدود سے باہر بھی مسلمانوں کو امانت کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے اور خیانت غیر شرعی طریقوں سے استفادہ کرنے سے منع کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے فقہاء غیر اسلامی ممالک میں بغیر کسی حق اور وجہ کے مسلمانوں کو ملنے والے امداد اور وظائف سے استفادہ کرنا حرام قرار دیتے ہیں۔ خاص کر کسی گمراہ کن مقصد میں مسلمانوں کو استعمال کرنے کےلئے دئے جانے والے وظائف اور امداد کو حرام کہا ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں یہی فقہاء غیر مسلم ممالک میں بھی جو چیزیں مسلمانوں کے لئے امانت کے طور پر استفادے کے لئے دی جاتی ہیں۔ ان میں مکمل امانت داری دکھانے کی تاکید کرتے ہیں۔ مثلاً فقہاء مسلمانوں کو پانی اور بجلی وغیرہ میں حد سے تجاوز کر کے استعمال کرنے سے منع کرتے ہیں۔ اسی طرح ذرائع ابلاغ اور دیگر مفاد عامہ کی چیزوں پر تجاوز کرنے سے منع کرتے ہیں۔ اسی طرح غیر مسلم ممالک میں رائج قوانین کا احترام کرنا اور ان کے نظام میں خلل ڈالنے والی چیزوں سے باز رہنے کی بھی تاکید کرتے ہیں۔

لہٰذا مسلمانوں کو چاہیئے کہ خواہ اسلامی ملک اور معاشرے میں ہوں یا غیر مسلم ممالک میں، عام انسانی حقوق کا خاص خیال رکھیں۔ یہ ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018