11 شوال 1445 هـ   20 اپریل 2024 عيسوى 11:50 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مقالات  |  امامت دین کی ضرورت ۔
2019-04-18   1740

امامت دین کی ضرورت ۔

جب بھی امامت کے موضوع پر بات ہوتی ہے تو اس پر کئی قسم کے سوالات اٹھتے ہیں۔ مثلا امامت کی حقیقت کیا ہے؟ کسی شخص کا امامت کے منصب پر فائز ہونے کی کیفیت کیا ہے؟اسی طرح یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ رسول اکرمؐ کے بعد کونسی ہستیاں ہیں جو اس منصب پر فائز ہیں؟ کیا امامت ختم نبوت کا تتمہ ہے؟ یانبوت کا امتداد طولی ہے یا امتداد عرضی ہے؟ وغیرہ۔ اگرتتمہ ہے تو  ختم نبوت کے لئے صرف امامت ہی تتمہ بننا کیوں ضروری ہے؟ کیا اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا جس سے ختم نبوت سمجھ آئے؟

ان سارے سوالوں کا جواب دینے سے پہلے ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشریت کے لئے اسلام ہی آخری پیغام ہے۔ یعنی اسلام کے بعد نہ کوئی دین آئے گا نہ ہی کسی رسالت کا سلسلہ ہوگا۔یہ ایک یقینی بات ہے کہ نبی اسلام حضرت محمد مصطفیٰؐ ہی اللہ کے آخری نبی ہیں۔ ان کے بعد اورکوئی نبی نہیں آئے گا۔اسلام کی آمد سے پہلے ایک وقت تھا کہ سابقہ ادیان اللہ کی طرف سے آخری نہیں تھے، ہر دین کے بعد ایک اور دین نے آنا تھا۔ان کی تعلیمات میں تبدیلی بھی ممکن تھی۔ لیکن دین اسلام جب مکمل ہوا ،اس کے بعد نہ کسی تبدیلی کا امکان ہے نہ ہی اس میں کسی تحریف کی گنجائش ہے۔

بعض اوقات کچھ لوگوں کے ذہنوں میں اچانک ایک سوال آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعدد ادیان بھیجنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ شروع سے لے کر آخر تک ہر زمانے میں ایک ہی دین پر اکتفاء کیوں نہیں کیا؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اس وقت انسان تدریجی طور پر اپنے ترقی و تکامل  کا سفر طے کر رہا تھا، لہٰذا ضرورت اسی بات کی تھی کہ انسان کی ضرورت اور صلاحیت کے مطابق دین کی باتیں بتائی جائیں۔ جب   انسان اپنے تکامل کا سفر طے کرتےہوئے  موجودہ دین سے بعد میں آنے والے دین کا مستحق بنا تو اسے نیا دین دیا گیا۔ مثلاً ایک طویل عرصہ انسان کو دین یہودیت کی پیروی کا حکم دیا۔ لیکن جب وہ ترقی و تکامل کے مناز طے کرتے ہوئے دین مسیحیت کا قابل بنا تو دین یہودیت اس سے اٹھالیا گیا۔ اسی طرح آسمان سے آنے والے ہر پیغام اپنے سے پہلےوالے پیغام کے تتمے کے طور پر آیا ۔ ہر نیا آنے والا نبیؑ اپنے سے پہلے والے نبی ؑکی تعلیمات کو تمام کرنے کے لئے آیا۔ان کے معاشرے کو مزید کمال کی طرف لے جانے کے لئے آیا۔ لیکن اس مقالے میں ہمارا موضوع امامت کا مفہوم ہے۔ اس میں ہم کوشش کریں گے کہ رسول اکرمؐ کے بعد اللہ تعالیٰ کی ان برگزیدہ ہستیوں کی ذمہ داریوں پر بات کریں جو امامت کے منصب پر فائزہیں۔امامت کا یہ سلسلہ رسول اکرمؐ کے بعد امام علیؑ سے شروع ہوتا ہے اور امام مہدی منتظر ؑ پر ختم ہوتا ہے۔یہاں ہم نے امامت سے مراد امام علیؑ سے لے کر امام مہدیؑ کی امامت لیا ہے  تاکہ امامت کے مفہوم میں اشتباہ نہ ہو۔کیونکہ بعض انبیاء ؑ اپنے زمانے میں نبوت کا منصب رکھنے کے علاوہ امامت پر بھی فائز تھے۔ جیسے رسول اکرمؐ اور حضرت ابراہیم ؑ  اپنے زمانے میں نبی بھی تھے، رسول بھی تھے اور امام بھی۔ اسی طرح  تمام انبیاء کے بعد ان کے اوصیاء تھے جو ان نبیوں کے دین  اور ان کی تبلیغی مہم کو جاری رکھنے کے ضامن تھے۔

لہذا ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ امامت اسلامی عقیدے میں خود ایک بنیادی اصل ہے۔ کیونکہ ساری امتیں اپنے نبیوں کے بعد کسی ایسے شخص یا افراد کی طرف محتاج ہیں جو اس نبی کے دین کو بچائیں اور اس میں ترمیم و اضافہ ہونے سے محفوظ رکھیں۔ خصوصا ہمارے نبی اکرمؐ کا دین جو کسی زمان و مکان تک محدود نہیں ہے۔ اس کے نظریات اور تعلیمات قیامت تک آنے والے   لوگوں کے لئے حرف آخر کی حیثیت رکھتے ہیں۔دین مقدس اسلام  پرسابقہ ادیان کا اختتام ہوتا ہے اور رسول گرامی اسلام خاتم الانبیاء ہیں۔ انؐ کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہے۔ لہٰذا رسول اکرمؐ اور ان کے لائے ہوئے دین کو بچانے اور قیامت تک اس کی حفاظت کرنے کے لئے سلسلہ امامت کا ہونا بہت ضروری ہے۔

البتہ ختم نبوت  کوصرف امامت پر ہی منحصر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ دین مقدس اسلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری دین ہونے اور اس کی تعلیمات آفاقی ہونے میں کوئی دوسری رائے نہیں۔ یہ ایک تسلیم شدہ مسئلہ ہے۔ لیکن اس بات کا احتمال ہے کہ اس دین میں کچھ لوگوں کی طرف سے کوئی تحریف ہوئی ہے یا کسی قسم کی کمی بیشی ہوئی ہے۔ یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔خیر اور شر کی جنگ میں ہمیشہ جہاں خیر کے لئے جگہ ہے وہاں شر کے آنے کے بھی کچھ وسائل و اسباب ہیں۔ دین کو ان سے بچانا اور مضبوط قلعے کی شکل میں اس کی حفا ظت کرنا دین کے محافظ کی ذمہ داری ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام یا محافظ دین کی ذمہ داری دین کے کوئی نئے احکامات لوگوں تک پہنچانا نہیں بلکہ جو احکامات پہلے سے موجود ہیں انہی کی حفاظت کرنا اور لوگوں تک پہنچانا ہے۔اسی طرح اس دین کے اصولوں کی حفاظت کرنا اور جو چیز اس دین کے اتباع کرنے والے نہ سمجھ سکیں ان کو سمجھانا امام کی ذمہ داری ہے۔ لہٰذا اس امامت کی بھی اپنی ایک اہمیت ہے۔ اس اہم منصب پر انسان اپنی طرف سے کسی کو منتخب کر کے نہیں بٹھا سکتے، جس طرح رسول اکرمؐ کی شہادت کے بعد بعض لوگوں نے خلافت کے نام پر کچھ ایسا ہی کیا تھا۔ کیونکہ اس منصب کے اہل بننے کے لئے بہت ساری چیزوں کی ضرورت ہے۔سب سے پہلے اس کے لئے ضروری ہے کہ امامت کےمفہوم کو سمجھے اور رسالت کے راہ و رش کی سمجھ رکھتا ہو۔ امامت کے لئے یہ  بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسمانی تائید بھی ہو اور ذاتی قابلیت بھی جو اس مفہوم کو عملی جامہ پہنا سکے۔چونکہ اس دین کو قیامت تک محفوظ رکھنا ہے۔لہٰذا امامت ہی ایک وسیلہ ہے جو اس اہم ذمہ داری کی حامل ہے۔

اللہ تعالیٰ کے ارادے سےقرآن کریم کی حفاظت کر کے دین مقدس اسلام کو ایک  حد تک محفوظ کرلیا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: "إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ "(الحجر:9)"ہم نے ہی ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔رسول اکرمؐ کی حیات میں ہی آپؐ کی طرف سے اس کتاب کی تدوین کی گئی تھی اور صف اول کے مسلمان ائمہ اطہار او رصحابہ کرام نے اسے اپنے دلوں میں محفوظ کر لیا تھا۔ اس طرح یہ کتاب ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگئی۔اس کے بعد یہ کتاب اپنے شریک کی موجودگی کی وجہ سے ہر قسم کی تحریف و تزویر  اور غلط بیانی  سے بھی محفوظ رہی۔ کیونکہ حدیث رسول اکرمؐ کے مطابق یہ ثقل اکبر ہے اسے  اہل بیت علیہم السلام کے جیسا قرار دیا ہے۔چنانچہ فرمایا: " إني تارك فيكم الثقلين، كتاب الله وعترتي أهل بيتي فإنهما لن يفترقا حتى يردا علي الحوض "میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ، اللہ کی کتاب اور میری عترت اہل بیت، یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس پہنچ جائیں"۔اس حدیث میں قرآن اور اہل بیت کی شراکت کو شراکت ابدی کہا گیا ہے۔ان کی اس شراکت سے کوئی زمانہ خالی نہیں۔ قیامت تک آنے والے زمانوں میں ائمہ اطہار علیہم السلام اور قرآن کریم ایک ہی سمت پر ہیں اور دین مقدس اسلام کی حفاظت اور اسے قیامت تک جاری و ساری رکھنے کی ضمانت لئے ہوئے ہیں۔ انسانی زندگی میں کچھ چیزیں ثابت ہیں یعنی وہ ہمیشہ سے موجود ہیں، ان میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوتی۔ لیکن اسی کے ساتھ انسانی زندگی میں کچھ متغیرات بھی ہیں۔ جو آئے روز بدل رہی ہیں۔ نئے نئے مسائل اور تقاضے منظر عام پر آرہے ہیں۔ یہ تغیرات اور تبدیلیاں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ کوئی تو ہو جو انسان کی ضروریات کو ختم کئے بغیر ان تبدیلیوں اور انسان کی زندگی کی مصلحتوں کے درمیان توافق پیدا کرے۔ آئے روز بدلتی زندگی کے تقاضوں کو دین سے ہم آہنگ بنائے۔ جب تک کوئی آسمانی مدد اور ہدایت شامل حال نہ ہو ، یہ سب کسی کے لئے ممکن نہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصوب ائمہ ہدیٰ کے علاوہ کسی کے لئے یہ کام ممکن نہیں۔ 

خلاصہ: اب تک کی گفتگو کا ماحصل یہ ہوا کہ امامت ایک بہت ضروری چیز ہے۔اس کے کندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری ہے۔  جو دین کی حفاظت کرنے سے شروع ہوتی ہےاور اس کے اصلی چہرے کو محفوظ رکھنے اور بندوں کویہ باور کرانے کی ذمہ دار ہےکہ یہی دین دیگر تمام ادیان سے انسانی زندگی کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ ائمہ اطہار علیہم السلام  ہی اس ذمہ داری کو لئے ہوئے ہیں۔یہی ذوات مطہرہ ہیں جو انسانی زندگی میں آنے والے تمام نشیب و فراز اور تغیر و تبدیلی کو دین سے ہم آہنگ بنا سکتے ہیں۔آخری امام حضرت مہدی منتظر عجل اللہ فرجہ کے ذریعے یہ سب ممکن ہوگا۔

 

عبد الحسن سلمان الشمري

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018