

کائنات کی تخلیق: اسلامی نصوص اور حکما کے اقوال کی روشنی میں
تحریر : باسم الحلی
اسٹیفن ہاکنگ، جو نظری طبیعیاتی اور کونیاتی علوم کے ماہر ہیں، وہ اپنی کتاب " Brief History of Time" میں لکھتے ہیں:کہ جب ہم کائنات کی تخلیق کی بابت مکمل نظریہ دریافت کر لیں، تو یہ صرف چند سائنسدانوں کے لیے ہی نہیں، بلکہ سب کے لیے قابلِ فہم ہوگا۔ تب ہم سب، فلاسفر، سائنسدان اور عام انسان، اس سوال پر مبنی گفتگو میں حصہ لے سکیں گے کہ ہم یہاں کیوں ہیں اور کائنات کیوں موجود ہے؟"
جوں جوں ہم کائنات کی عظمت اور وسعت پر غور کرتے ہیں، چاہے وہ خلا میں تیرتے ہوئے سیارے ہوں یا ذرہ کی باریک ترین تفصیلات، انسان کے دل میں ایک فطری سوال ابھرتا ہے کہ یہ کائنات آخر کیوں تخلیق کی گئی ہے؟ ہم اس وسیع کائنات میں کیوں موجود ہیں؟یہ گہرا سوال ہمیشہ سے ہی فلاسفہ اور سائنسدانوں کو، چاہے وہ مؤمن ہوں یا ملحد، سوچنے پر مجبور کرتا رہا ہے۔ جیسا کہ رچرڈ ڈاکنز، اپنی کتاب"The God Delusion" میں لکھتے ہیں: کہ "ہم جو کائنات دیکھتے ہیں، اس میں بالکل وہی خصوصیات ہیں جو ہم توقع کریں گے اگر اس کے پیچھے کوئی مقصدِ تخلیق یا غایت نہ ہو، یعنی نہ کوئی خیر، نہ کوئی شر، صرف اندھی اور بے رحم بے حسی۔"
چانچہ اس سوال کا جواب اللہ تعالیٰ کے وجود پر عقیدے کی بنیاد پر مختلف ہوگا۔ہم اس مضمون میں اللہ کے وجود یا عدم وجود پر بحث نہیں کر رہے، بلکہ اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں کہ یہاں سوال ان بنیادی وجودی سوالات میں سے ایک ہے جس کا جواب دیے بغیر کسی انسان کے لیے کائنات کے بارے میں کوئی خاص نظریہ رکھنا ممکن نہیں ہے۔لہٰذا ہماری گفتگو صرف اس نظریے تک محدود رہے گی جو ایک ایسے مؤمن کا زاویہ نظر ہے جو اس عظیم اور پیچیدہ کائنات کے لیے ایک خالقِ حکیم کے وجود پر ایمان رکھتا ہے۔ اور حکیم نہ فضول کام کرتا ہے اور نہ کھیل تماشا کرتا ہے)أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا) ( المؤمنون: 115(
معرفت الہی کے سلسلے میں جو مختلف نظریات پیش کیے گئے ہیں، ان کی بابت علماءاسلام کی دو اہم آراء سامنے آتی ہیں:
علمائے کلام کی رائے:یہ رائے قرآنی نصوص پر مبنی ہے جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ایمان کی تکمیل عملِ صالح کے ذریعے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے(وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ (27) أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ) (سورۃ ص: 27-28(
اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کو بے مقصد پیدا نہیں کیا، یہ کفار کا گمان ہے، ایسے کافروں کے لیے آتش جہنم کی تباہی ہے۔۔ کیا ہم ایمان لانے اور اعمال صالح بجا لانے والوں کو زمین میں فساد پھیلانے والوں کی طرح قرار دیں یا اہل تقویٰ کو بدکاروں کی طرح قرار دیں؟
ایمان اور عملِ صالح وہ دو پر ہیں جن کے ذریعے بندہ کمال اور قربِ الٰہی کی بلندیوں تک پہنچتا ہے۔ اور اس کا ہدف یہ ہے کہ بندہ ایمان کے پہلو سے اللہ تعالیٰ کی معرفت کے کمال تک پہنچے، جیسا کہ اس آیتِ مبارکہ میں اشارہ کیا گیا ہے:(اللهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ الله عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا) (سورۃ الطلاق: 12(
وہی اللہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور انہی کی طرح زمین بھی، اس کا حکم ان کے درمیان اترتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ کہ اللہ نے بلحاظ علم ہر چیز پر احاطہ کیا ہوا ہے۔
یعنی عمل کے پہلو سے غایت یہ ہے کہ بندہ خالص عبودیت تک پہنچے، جیسا کہ فرمایا گیا (وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ)(سورۃ الذاریات: 56(
اور میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں۔
کتاب الکافی میں یہ وضاحت موجود ہے کہ (غایت) معرفت، عبادت، اور نعمت کا حصول ہے۔ اس حوالے سے کلینی نے الحارث الاعور کے ذریعے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے:
(ابتدأ ما أراد ابتداءه، وأنشأ ما أراد إنشاءه على ما أراد، من الثقلين الجن والإنس؛ ليعرفوا بذلك ربوبيته، وتمكّن فيهم طاعته.، من يطع الله ورسوله فقد فاز فوزاً عظيماً، ونالَ ثواباً جزيلاً"(الکافی، تدوین: علی اکبر غفاری، جلد 1، صفحہ 141، باب الروح (
ترجمہ:"اللہ تعالیٰ نے جو چاہا اسے ابتداءً شروع کیا، اور جن و انس میں سے جسے چاہا اسے اپنی مرضی کے مطابق خلق کیا؛ تاکہ وہ اس کے ربوبیت کو پہچان سکیں اور ان میں اس کی اطاعت مضبوط ہو جائے... جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا، وہ عظیم کامیابی حاصل کرے گا اور بڑا ثواب پائے گا۔
حضرت علی علیہ السلام کے اس قول: "ليعرفوا بذلك ربوبيته، وتمكّن فيهم طاعته" میں دونوں امور یعنی معرفت اور عبادت کی صریح وضاحت ہے۔ اس کی تائید کے لیے شیخ صدوق نے علل الشرائع میں ایک اور روایت نقل کی ہے، جسے انہوں نے سلمہ بن عطاء کے ذریعے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کیا ہے:
(خرج الحسين بن عليّ عليهما السلام، على أصحابه فقال: أيّها النّاس، إنّ الله جل ذكره ما خلق العباد إلّا ليعرفوه، فإذا عبدوه أستغنوا بعبادته، عن عبادة من سواه. (علل الشرائع: جلد 1، صفحہ 9، باب 9: علّة خلق العالم)
ترجمہ:"امام حسین علیہ السلام اپنے اصحاب کے سامنے تشریف لائے اور فرمایا: اے لوگو! بے شک اللہ تعالی نے بندوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ اسے پہچانیں۔ پس جب وہ اس کی عبادت کریں گے تو اس کی عبادت کے ذریعے دوسروں کی عبادت سے بے نیاز ہو جائیں گے"
یہ روایت بھی واضح طور پر معرفت اور عبادت کو تخلیق کا مقصد قرار دیتی ہے۔ معرفت بندے کو اس کے رب کے قریب کرتی ہے، اور عبادت اسے غیر اللہ کی اطاعت سے آزاد کرتی ہے۔
یہ نظریہ اپنی مضبوطی اور استحکام کے باوجود ایک اہم اشکال سے دوچار ہے۔ اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ معرفت اور عبادت اللہ تعالیٰ کی طرف سے تخلیق کی غایت ہے، تو بھی یہ سوال برقرار رہتا ہے کہ کیا یہ معرفت اور عبادت تخلیق کے بنیادی مقاصد ہیں یا ان کے تحت کوئی اور اعلیٰ مقصد موجود ہے؟
کیونکہ سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کیوں چاہتا ہے کہ مخلوق سب سے پہلے اسے پہچانے اور پھر اس کی عبادت کرے؟ وہ ایسا کیوں کرتا ہے، جبکہ وہ ہر چیز سے بے نیاز ہے اور مطلق غنا کا حامل ہے؟
یہ اشکال اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ معرفت اور عبادت، اگرچہ اہم اور مقصدِ تخلیق کے نمایاں اجزاء ہیں، مگر وہ بذاتِ خود تخلیق کی غایتِ اصلیہ نہیں ہو سکتیں۔ اللہ کی بے نیازی اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ تخلیق کا کوئی ایسا اعلیٰ و ارفع مقصد ہونا چاہیے جو اس کی شانِ ربوبیت اور حکمتِ مطلقہ سے ہم آہنگ ہو۔
یہاں سے فلسفیوں کے پیش کردہ دوسرے نظریے کی وضاحت سامنے آتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ:اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنی ذات کے کمال سے محبت کرتا ہے، اور یہ بات بدیہی ہے، کیونکہ اس کی ذات عین جمال، کمال، اور جلال ہے۔
اور چونکہ وہ اپنی ذات سے محبت کرتا ہے، اس لیے بدیہی طور پر وہ اپنی ذات کے کمال کو مجسم کرنے والے اپنے افعال سے بھی محبت کرتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا کیا۔ کیونکہ اس کے افعال اس کی ذات کے کمال کا ترجمان ہیں۔ یہ افعال:اس کے کمال ذات کا عکس ہیں۔اس کے جمال کی شعاع ہیں۔اس کے جلال کا چراغ ہیں۔اس کے خالص خیر کا نور ہیں۔اس کی لامحدود قدرت کا اظہار ہیں, اور اس کی محض حکمت کا مظہر ہیں۔
یہ نظریہ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ اللہ کی تخلیق، اس کی ذات کے کمال کے اظہار کی ایک صورت ہے، جو اس کے جمال و جلال کے مظاہر میں جلوہ گر ہوتی ہے
یہ نظریہ اس مثال سے مزید واضح ہوتا ہے کہ جیسے ایک مرد اپنے بیٹوں پر خوش ہوتا ہے، کیونکہ وہ اس کی مردانہ ذات کے کمال، اس کی قدرت کے حسن، اور اس کی پدرانہ خیرخواہی کے جلال کے مظہر ہوتے ہیں۔
اسی طرح ایک ماں اپنے بچوں پر اس لئے خوش ہوتی ہے، کیونکہ وہ اس کے نسوانی جمال، ممتا کے خلوص، اور محبت کے کمال کا اظہار کرتے ہیں۔
یہ مثال واضح کرتی ہے کہ تخلیق کا عمل اور اس پر مسرت، خالق کے کمالات اور صفات کے اظہار کا ایک فطری اور لازمی نتیجہ ہے، جس میں محبت اور کمال کا حسین امتزاج جھلکتا ہے۔
یہ نکتہ سمجھنے کے لیے ایک سادہ مثال کافی ہے:فرض کریں ایک پیاسا جانور، مثلاً ایک کتا، بھوک یا پیاس سے ہلاک ہونے کے قریب ہے۔ اگر انسان، چاہے وہ مومن ہو یا کافر، اس جانور کے قریب سے گزریں، تو فطری طور پر وہ اسے پانی پلانے اور کھانا دینے کی کوشش کریں گے۔ حالانکہ:اس عمل کا انہیں کوئی مادی فائدہ نہیں ہوتا۔اگر وہ اس جانور کی مدد نہ کریں، تو ان کی ذات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟
اسی طرح، اگر کوئی انسان ڈوب رہا ہو، تو زیادہ تر لوگ فطری طور پر اسے بچانے کی کوشش کریں گے۔ حالانکہ:اگر وہ اسے نہ بچائیں، تو ان کی اپنی ذات کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور اگر وہ اسے بچا لیں، تو انہیں کوئی مادی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔
پھر سوال یہ ہے کہ انہوں نے اسے کیوں بچایا؟
یہ اعمال ایک گہری انسانی فطرت کی عکاسی کرتے ہیں، جو محبت، رحمت، اور خیر کے فطری جذبے سے پیدا ہوتی ہے، بغیر کسی مادی یا ظاہری فائدے کی توقع کے۔ یہ مثالیں اللہ کی تخلیق کے فلسفے کو سمجھنے میں معاون ہیں، جہاں اس کی حکمت اور کمال کی روشنی میں، کائنات کا وجود فطری طور پر اس کے جمال اور رحمت کا اظہار ہے، بغیر کسی ضرورت یا کمی کے۔
کہا جاتا ہے کہ حکما نے یہ سمجھایا کہ انسان جب کسی کو بچاتا ہے تو وہ اپنے اندر کے کمال، خیر، اور رحمت کے اظہار کی خوشی کے طور پر اسے بچاتا ہے۔ اس میں اس کی ذات کا جمال اور کمال دکھائی دیتا ہے۔
ہر انسان کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اچھائی سے محبت کرتا ہے اور اسے اپنے عمل میں ظاہر کرنے کی خواہش رکھتا ہے، کیونکہ یہی وہ سب سے عظیم جمال، کمال، اور جلال ہے جو انسان محسوس کر سکتا ہے۔ حکما اس کیفیت کو "ابتهاج" (خوشی) یا "سعادت کا ادراک" یا "کمال اور جمال کا ادراک" کہتے ہیں، جو انسان کے اندر کے جمال اور کمال کے شعور سے پیدا ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے کائنات کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ اپنی ذات سے محبت اور خوشی محسوس کرے، کیونکہ وہ ان مخلوقات میں اپنے کمال، خیر، اور جمال کو باہر کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس کی ذات عین خیر اور قدرت ہے، اور وہ اپنی حکمت کے مطابق اس خیر کو مخلوقات تک پہنچاتا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی شخص کسی پریشان حال کی مدد کرتا ہے اور اس میں خوشی محسوس کرتا ہے، باوجود اس کے کہ اس کی ذات کو اس امداد کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔