دین اور سیاست کے درمیان تعلق:سکیولرزم باہمی زندگی گزارنے کے لیے ایک راہِ حل: تجزیہ و تنقید
شیخ معتصم السید احمد :
دین اور سیاست کے درمیان تعلق پر گفتگو کرتے ہوئے، یہ نقطہ قابل غور ہے کہ "سیکولرزم کو ادیان کے درمیان باہمی بقاء کا واحد فریم ورک قرار دینا" ایک متوازن نقطۂ نظر کا متقاضی ہے، جس میں ثقافتی، تاریخی، اور مذہبی پہلوؤں کو خاص طور پر اسلامی سیاق و سبق کے تناظر میں مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ یہ تصور (سکیولرزم)، جسے عموماً ایک عالمی ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اسے اسلامی معاشروں میں کئی عملی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جہاں دین زندگی کے تمام پہلوؤں کو احاطہ کرتا ہے۔ اس مضمون میں، ہم اسلام میں دین اور سیاست کے باہمی تعلق کے امکانات کا جائزہ لیں گے اور یہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ ان دونوں کے درمیان مناسب تعامل معاشروں کے توازن اور انہیں مستحکم رکھنے کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔
اسلامی معاشرے میں عمومی زندگی کی تشکیل میں دین کی حیثیت
اسلامی معاشروں میں دین محض ذاتی عبادات یا شعائر کی ادائیگی تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ایک مکمل ضابطہ ہے۔ دین روحانی پہلو کو شامل کرتا ہے، جو انسان کو اخلاقی بلندی اور اپنے خالق سے مضبوط تعلق کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور یہ سماجی سطح پر یہ یکجہتی، تعاون، اور اجتماعی ذمہ داریاں جیسی اقدار کو فروغ دیتا ہے، جبکہ اقتصادی میدان میں دین ایسے اصول وضع کرتا ہے جو مالی معاملات میں انصاف کو یقینی بناتے ہیں اور انسان کے ہاتھوں دوسرے انسان کے استحصال کو روکنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ قانونی پہلو سے دیکھا جائے تو دین ایسے اصول اور قوانین کو متعین کرتا ہے جو افراد کے مابین تعلقات کو منظم کرتے ہیں، انصاف کے قیام اور ظلم کے خاتمے کو یقینی بناتے ہیں۔
اسلامی معاشروں میں دین کے مختلف پہلوؤں کا امتزاج ایک مستحکم اورمربوط شناخت فراہم کرتا ہے جو شریعت اسلامی کی اقدار پر مبنی ہے۔ یہ اقدار افراد اور معاشرتی تشکیل کے لیے ایک اخلاقی سمت متعین کرتی ہیں۔ یہ نہ صرف انفرادی سطح پر اچھائی اور اصلاح کے معیارات متعین کرتی ہیں بلکہ پورے معاشرے کو ایک مشترکہ جامع نظامِ اقدار فراہم کرتی ہیں، جو معاشرتی استحکام کو فروغ دیتا ہے اور معاشرے کو انحرافات اور ٹوٹ پھوٹ سے بچاتا ہے۔ اس طرح یہ اقدار، اخلاقی ہم آہنگی اور سماجی یکجہتی کو یقینی بناتی ہیں، جو کسی بھی مستحکم اور مضبوط معاشرے کے لیے بنیادی ضرورت ہوتی ہیں۔
اس کے برعکس، سیکولرزم مذہب کو ریاست سے علیحدہ کرنے کی حمایت کرتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ قوانین کی تشکیل یا معاشرتی نظم و نسق کے معاملات میں مذہب کو ایک بنیادی حوالہ یا حل کے طور پر تسلیم نہ کیا جائے۔ یہ اصول اگرچہ بعض مخصوص ثقافتی یا تاریخی سیاق و سباق میں کارگر ثابت ہو سکتے ہیں، لیکن یہ طرزِ عمل ، اور طرز تفکراسلامی معاشروں میں سنگین مسائل پیدا کر سکتا ہے۔
اسلامی معاشروں میں دین محض ایک روحانی یا ذاتی معاملہ نہیں بلکہ ثقافتی شناخت اور سماجی اقدار کا ایک لازمی حصہ ہے۔ اس پس منظر میں دین اور ریاست کی علیحدگی اخلاقی خلا پیدا کر سکتی ہے، جو معاشرتی اقدار کے تشکیل کو کمزور کرنے کا باعث بنتی ہے۔ اس کے نتیجے میں، افراد کی رہنمائی اور معاشرتی اتحاد کو یقینی بنانے والا کوئی جامع متبادل نظام موجود نہیں رہتا، اور نتیجہ میں معاشرہ انتشار اور بے یقینی کی کیفیت کا شکار ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ سیکولرزم کو معاشروں کی باہمی بقاء کے لیے ایک ذریعے کے طور پرسمجھنا اور اسے سطحی طور پرلینا اور سمجھنا بھی مسائل کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ ایسا فہم ممکنہ طورپر حقیقی باہمی بقائے کو فروغ دینے کی بجائے مذہبی اور ثقافتی تقسیم کو مزید گہرا کر سکتا ہے ۔ باہمی بقاء کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری ہے کہ مذہب کے کردار کو ختم یا محدود کرنے کے بجائے مذہبی اقدار اور سیاسی عملیاتی ڈھانچوں کے درمیان ایک توازن قائم کیا جائے۔ اس توازن کا مقصد یہ نہیں کہ مذہب ریاست پر غالب ہو جائے بلکہ ایک ایسا ماڈل تشکیل دینا ہے جو ایک طرف سماجی اقدار کی حفاظت کرے اور دوسری طرف انفرادی حقوق اور آزادیوں کا احترام کرے۔ یہ عمل معاشرتی انصاف کو فروغ دینے اوردینی تعددیت (pluralism) کے احترام کو یقینی بنانے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔
تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ وہ معاشرے جو استحکام اور ترقی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، ان کی کامیابی کی بنیادی وجہ اس معاشرہ میں موجود اور رائج جامع نظام تھا جو ثقافتی اور مذہبی اقدار اور خصوصیات کا احترام کرتا تھا اور اخلاقی اقدار کو انصاف اور ترقی کے حصول کے لیے استعمال کرتا تھا۔ اس کے برعکس، اگر معاشرتی انتظام وانصرام سے دین و مذہب کو الگ کردیا جائے تو یہ عمل تمام اعلیٰ اقدار اور اخلاق پر مبتنی مذاھب و ادیان کے لیے بالعموم، خاص طور پر اسلامی معاشروں میں معاشرتی اضطراب اور بے سکونی کا باعث بن سکتا ہے۔ کیونکہ ان معاشروں میں یہی اقدار مذہبی اقدار سماجی ہم آہنگی اور استحکام کی بنیادی ضمانت فراہم کرتی ہیں۔
سیاست: اخلاقی اقدار کے فروغ کا ذریعہ، نہ کہ غلبے کا ہتھیار
یہ دعویٰ کہ اسلام پسند گروہ صرف سیکولرزم کو مسترد کرتا ہے تاکہ اقتدار پر قابض ہو سکے، یہ دعویٰ در حقیقت دین اور سیاست کے تعلقات کو ایک غیر منصفانہ اور سطحی انداز میں پیش کرتا ہے اور حقیقت پر مبنی نہیں ہے بلکہ خود ساختہ ہے ۔ اسلامی نظریے میں سیاست کا مقصد طاقت کے حصول کے بجائے انصاف کو یقینی بنانا اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جو اخلاقی فضائل، مثلاً صداقت اور اخلاص، پر مبنی ہو۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو یہ شریعت اسلامی ہی ہے کہ جس نے معاشرتی انصاف کو فروغ دینے اور ہر طبقے کے حقوق کی حفاظت کا فریم ورک مہیا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، خواہ وہ غریب ہوں یا ضرورت مند۔ مثال کے طور پر، "بیعت" کا اسلامی تصور ایک سماجی معاہدے کو ظاہر کرتا ہے جس میں حکمران کو معاشرتی انصاف کے اصولوں پر عمل کرنے کا پابند کیا جاتا ہے اور اسے کسی بھی انحراف پر اس کا محاسبہ کیا جاتا ہے۔ یہ تعلق غلبے کی علامت نہیں بلکہ انفرادی حقوق کی حفاظت اور اجتماعی بھلائی کو یقینی بنانے کے لیے ایک ضمانت ہے۔ سیکولرزم ان معاشروں میں کامیاب ہو سکتی ہے جہاں مذہب قومی شناخت کا بنیادی حصہ نہیں بلکہ ایک علیحدہ عنصر ہو۔ تاہم، اسلامی معاشروں میں، جہاں مذہب ثقافتی اور سماجی شناخت کا جوہر اور اہم ترین ذریعہ ہے، سیکولرزم کا نفاذ اخلاقی اور سماجی انتشار کا سبب بن سکتا ہے۔
بعض عرب ممالک میں تجربات سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ جب سیکولر نظام کو زبردستی نافذ کیا گیا تو اس کے نتیجے میں معاشرتی تصادم اور داخلی تنازعات پیدا ہوئے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ نظام معاشرتی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو سکا۔ لہٰذا، مذہب کو مکمل طور پر معاشرتی دائرے سے خارج کرنے کی کوشش معاشرتی ہم آہنگی کو کمزور کر سکتی ہے۔ اس کے برعکس، اسلامی معاشرے میں، دین اور سیاست کے درمیان متوازن اور محتاط تعلق ان دونوں میں استحکام کو فروغ دے سکتا ہے ۔
اسلام میں مذہبی آزادی اور اخلاقی اصلاح :
اسلام ایک ایسا دین ہے جو عقیدہ کی آزادیِ کو تسلیم کرتا ہے اور ہر فرد کو بغیر کسی جبر یا زبردستی کے اپنے عقیدے کا انتخاب کرنے کا حق فراہم کرتا ہے،۔ یہ اصول قرآن مجید کی آیت ) لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ((البقرہ: 256)۔ترجمہ: دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں۔ میں واضح طور پر بیان ہوا ہے، جس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایمان صرف اسی وقت حقیقی ہو سکتا ہے جب وہ یقینِ باطنی اوراپنی رضامندی کے ساتھ ہو، نہ کہ کسی دباؤ کے تحت۔ اسی تصور کو مزید تقویت دینے اور مستحکم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ ۖ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ) (الکہف: 29)، ترجمہ: اور کہدیجئے: حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔ یعنی انسان کو اپنے ایمان اور کفر کے بارے میں فیصلہ کرنے کی مکمل آزادی دی گئی ہے، البتہ اپنے انتخاب کی ذمہ داری بھی خود اس پر عائد ہوتی ہے۔
عقیدہ کی آزادی کے احترام کے ساتھ ساتھ، اسلام ایک جامع اصلاحی نظام بھی پیش کرتا ہے جس کا مقصد معاشرے میں بھلائی اور انصاف کو فروغ دینا ہے۔ یہ اصلاحی مشن محض انفرادی دائرے تک محدود نہیں، بلکہ سماجی، اقتصادی، اور سیاسی پہلوؤں تک پھیلا ہوا ہے، جو اسلامی نظام حیات کی مکمل جامعیت اور قابل عمل ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔
اخلاقی اصلاح: اصولوں سے عملی نفاذ تک :
اسلام میں اخلاقی اصلاح صرف ایک نظریاتی دعوت کی حد تک نہیں، بلکہ ایک عملی نظام ہے جو انفرادی اور اجتماعی تعلقات کو منظم کرتا ہے۔ یہ نظام امانت، صداقت، احسان، ضرورت مندوں کی مدد، اور ظلم و فساد کے خاتمے جیسے اخلاقی اصولوں کو مضبوط کرتا ہے۔ اسلام ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی دعوت دیتا ہے جہاں انصاف کے اصولوں کے تحت دولت کی منصفانہ تقسیم ہو، حقوق کا احترام ہو، اور کمزوروں کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ اسی لیے، کسی بھی اسلامی سیاسی یا سماجی منصوبے کے مرکز میں اخلاقی اصلاح کا عمل ہوتا ہے۔
اسلامی طرزِ حکمرانی: اصولِ عدل اور شوریٰ :
اسلامی طرزِ حکمرانی نہ تو جابرانہ ہے اور نہ ہی مطلق العنانیت، بلکہ یہ ایسے بنیادی اصولوں پر مبنی ہے جو حکمران کو عوام کا خادم اور اللہ اور معاشرے کے سامنے جوابدہ بناتے ہیں۔ ان اصولوں میں:
شوریٰ: قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ) وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ( (الشوریٰ: 38) ترجمہ: اور اپنے معاملات باہمی مشاورت سے انجام دیتے ہیں۔ یعنی امت کے اہم معاملات میں مشاورت کا طریقہ اختیار کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ شوریٰ عوام کو اپنے معاملات میں شریک کرنے اور انفرادی استبداد کو روکنے کا ذریعہ ہے۔
عدل: اسلام میں عدل محض ایک آپشن نہیں، بلکہ ایک شرعی فریضہ اور کسی بھی نظامِ حکومت کی بنیاد ہے۔ جیسا کہ اللہ فرماتا ہے: )إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ( (النحل: 90) ترجمہ: یقینا اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔ عدل کو ہر شعبے میں ایک اخلاقی اور قانونی معیار کے طور پر اپنانے کی تاکید کی گئی ہے۔
مساوات: اسلام انسانوں کے درمیان مساوات پر زور دیتا ہے، چاہے ان کا تعلق کسی بھی نسل یا طبقے سے ہو۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: )النَّاسُ سَواسِيَةٌ كَأَسْنانِ المِشْطِ(، یعنی تمام انسان برابر ہیں، جیسے کنگھی کے دندان برابر ہوتے ہیں۔ یہ اصول اختیار کے ناجائز استعمال اور امتیازی سلوک کے خاتمے کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔
جب اسلام پسند سیاست میں مذہب کی موجودگی پر زور دیتے ہیں تو ان کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ دینی اقدار ایک اخلاقی ضمیر کا کام کرتی ہیں جو جبر اور بدعنوانی کو روکتی ہیں اور انسانی حقوق کے احترام کو یقینی بناتی ہیں۔ مثال کے طور پر، اسلامی شریعت ایک ایسا قانونی فریم ورک مہیا کرتی ہے جو کمزوروں کے حقوق کی حفاظت، طاقت کے ناجائز استعمال کو روکنے، اور وسائل کو منصفانہ طریقے سے تقسیم کرنے کی تاکید کرتی ہے۔
اسلام کا متوازن نظام :
اسلام ایک منفرد توازن فراہم کرتا ہے جہاں فرد کو اپنی عقیدے کا انتخاب کرنے کی آزادی دی جاتی ہے، اور ساتھ ہی معاشرے میں اخلاقی اور سماجی اصلاح کی دعوت دی جاتی ہے۔ اس توازن کی بنیاد پر اسلام ایک ایسا ماڈل پیش کرتا ہے جو متنوع ثقافتوں اور اقدار کو تسلیم کرتا ہے اور بھلائی کو فروغ دیتا ہے۔ آزادیِ عقیدہ کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام اصلاحی کردار سے دستبردار ہو جائے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جبر و بالادستی جیسے ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے کے بجائ اصلاحی عمل انسانوں میں شعور پیدا کرنے، انہیں مہذب طریقے سے قائل کرنے، اور اخلاقی بیداری پر مبنی ہو۔
اسلامی سیاق و سباق میں دین اور سیاست کے درمیان تفاعل معاشرتی ہم آہنگی کے لیے خطرہ نہیں، بلکہ یہ ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ معاشروں کو ان اصولوں پر منظم کیا جائے جو اقدار کا احترام کریں اور انفرادی حقوق کا تحفظ کریں۔ یہ ہم آہنگ تعلق نہ صرف انصاف اور ترقی کی ضمانت ہے بلکہ انسانی وقار اور سماجی استحکام کی بنیاد بھی فراہم کرتا ہے۔