

مذاہب کی تاریخ (2): یہودیت... آشوری حملے
انبیا کرام علیہم السلام نے بنی اسرائیل میں عقائدی انحراف کے پھیلاؤ کو روکنے اور سماجی تبدیلی لانے کی بھرپور کوششیں کیں، لیکن بنی اسرائیل نے ان تمام کوششوں کو ناکام بنادیا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر دیگر اقوام کو مسلط کردیا۔
یہاں ہمارے پاس ایسی کوئی تاریخی دستاویزات موجود نہیں ہیں جو شمالی ریاست (اسرائیل) پر آشوریوں کے حملے کی وجہ کی وضاحت کر سکیں، سوائے کتاب مقدس کے، جس میں یہ ذکر ہے کہ اس حملے کی وجہ یہ تھی کہ اسرائیلی بادشاہ ہوشع نے آشور کو خراج دینا بند کردیا اور مصریوں سے رابطہ قائم کیا، جو آشوریوں کے دشمن سمجھے جاتے تھے۔ شلمنصر پنجم کے دور میں آشوریوں نے اسرائیل کی طرف پیش قدمی کی، اور 722 ق.م. میں سرجون دوم نے سامرہ، اسرائیل کے دارالحکومت، پر قبضہ کر لیا اور جنوبی ریاست (یہودا) کا محاصرہ کر لیا۔
یہودا کا بادشاہ "حزقیا" بہت ہی سمجھدارتھا، اس نے آشوریوں کے ساتھ ایک سود مند معاہدہ کیا کہ جس کے تحت یہودا ان کے تابع ہوگا اور زیادہ خراج ادا کرے گا، جس کے نتیجے میں آشوری فوج نے اس کا محاصرہ ختم کردیا۔ مگر یہودا کی آشور کی تابعداری کی روش نے انہیں مذہبی انحطاط کی طرف دھکیل دیا اور انہوں نے کنعانی اور آشوری عبادات کا مخلوط مذہب اپنا لیا، خاص طور پر بادشاہ منسی کے دور میں، جو بادشاہ "حزقیا" کے بعد تخت نشین ہوا۔ "منسی" نے سورج اور ستاروں کے دیوتاؤں، بابل اور نینویٰ کے دیوتاؤں کے لئے مذبح تعمیر کیے، اور ، ملکہ آسمان کے اعزاز میں لکڑی کا عشتار نصب کیا۔ اس نے کنعانی دیوتاؤں کو بھی فراموش نہ کیا، بعل کے لئے معبد بنائے، حتی کہ اپنے ایک بیٹے کو بچوں کے دیوتا "مولک" کی خدمت میں قربان کر دیا۔
تقریباً ڈیڑھ سو سال بعد، آشوری سلطنت کی طاقت کمزور ہونے لگی، اور سیتھیائیوں (جو ایرانی نسل کے خانہ بدوش قبائل تھے) نے شام اور پورے فلسطینی ساحل کو مصر کی سمت سے فتح کر لیا۔ اس دوران یہودا خوف اور دہشت میں مبتلا رہا، مگر مادیوں کی وجہ سے سیتھیائی فوجیں شمال کی طرف واپس چلی گئیں، جس کے بعد بابلیوں کے ہاتھوں نینویٰ کا سقوط ہوا۔
مصر اور بابل کے درمیان مشرق وسطی کے علاقوں پر قبضے کے لئے جدوجہد شروع ہوئی۔ مصریوں نے یہودا کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی، اور آخرکار اس میں کامیاب ہوگئے۔ مگر انہیں بابلیوں (اہل بابل) کے ہاتھوں "کَرکَمیْش" کی جنگ میں شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا، اور یہودا دوبارہ بابل کی سلطنت کے ماتحت آگیا۔
اس دوران مصر نے اپنی سازشیں جاری رکھیں اور یہودا کے حکمرانوں کو میٹھے وعدے دیےاور اس طرح انہوں نے بادشاہ یہویاقیم کو بابل کو خراج نہ دینے پر قائل کرلیا۔ جب اس نے بغاوت کی، تو نبوخذنصر کی فوج نے 597 ق.م. میں شہر کا محاصرہ کر لیا۔ تین مہینے کے محاصرے کے بعد، یہودا کے نئے بادشاہ "یہویاقین" نے شہر کو مکمل تباہی سے بچانے کے لئے ہتھیار ڈال دیے۔ نبوخذنصر نے ہیکل کو لوٹ لیا اور بادشاہ کو بنی اسرائیل کے دس ہزار افراد کے ساتھ قید کر لیا۔ انہیں دریائے خابور کے کنارے بسانے کا حکم دیا گیا، اور "صدقیا" کو یہودا کا نیا بادشاہ مقرر کیا گیا۔
نو سال بعد "صدقیا" نے بابل کے خلاف بغاوت کی، جس پر نبوخذنصر نے اس سرکش ریاست کو سزا دینے کے لیے ایک فوج روانہ کی۔ تقریباً ڈیڑھ سال کے محاصرے کے بعد، اور باوجود اس کے کہ مصری فوج مدد کے لئے آئی، بابلی فوج نے انہیں شکست دی اور 586 ق.م. میں وہ یروشلم میں داخل ہوگئی۔ اس بار بابلیوں نے شہر کو مکمل طور پر لوٹ لیا اور تباہ کر دیا، اور اس قبضے کے بعد تابوتِ عہد، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تختیوں کا محافظ تھا، کا کوئی سراغ نہ ملا۔
یروشلم اور اس کے آس پاس کے باشندوں کو مکمل طور پر قید کر لیا گیا، سوائے چند غریبوں اور مسکینوں کے۔ کچھ لوگ مصر کی طرف فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ اور بنی اسرائیل تین گروہوں میں بٹ گئے: پہلا گروہ بابل لے جایا گیا، دوسرا یروشلم میں رہا، اور تیسرا نیل اور ڈیلٹا کے کنارے بکھری ہوئی بستیوں میں آباد ہوا۔تاہم، بابلی قید آشوری قید کی طرح تباہ کن نہ تھی۔ چنانچہ جب یہودی بابل منتقل ہوئے،تو نبوخذنصر نے انہیں نسبتاَ آزادی دی، جس کی وجہ سے وہ اپنی ثقافت اور عبادات کو بغیر کسی رکاوٹ کے محفوظ رکھنے میں کامیاب رہے۔ اور ان کی کاشتکارانہ زندگی فلسطین کی نسبت بابل میں کہیں زیادہ خوشحال ہوگئی، کیونکہ وہ اُس وقت کے دو عظیم ترین شہروں، نیپور اور بابل، کے درمیان آباد ہوئے۔ یہاں تک کہ ان کی ریاست کے ساتھ دشمنی ختم ہوگئی، اور اس طرح وہ زراعت کے پیشے سے آزاد ہوکر تجارت کرنے لگے، اور سرکاری ملازمتوں اور فوج میں بھی شامل ہوگئے۔
لیکن یہ حالت زیادہ دیر تک نہ رہی، کیونکہ اس کے صرف 52 سال بعد، 538 ق.م. میں فارس کے بادشاہ کورش نے بابل کو فتح کرلیا اور اسے اپنی اس نئی سلطنت کا دارالحکومت بنایا، جو خلیج عرب سے لے کر شمال میں بحیرہ اسود تک، اور مشرق میں دریائے سندھ سے لے کر مغرب میں یونانی شہروں تک پھیلی ہوئی تھی۔ کورش نے یہودیوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور انہیں یروشلم واپس جانے کی اجازت دی، اور تعمیر نو اور آبادکاری کے لئے مالی امداد فراہم کی۔ اس نے ان پر زربابل کو بادشاہ اور یہوشع کو ٰ کاہنِ اعلی مقرر کیا۔ اگرچہ بہت سے یہودیوں نے واپس جانے سے انکار کیا، تاہم بنی اسرائیل کے ہزاروں افراد واپس جانے پر راضی ہوگئے۔
کہنوتی ریاست کی بنیاد:
تعمیر اور آبادکاری کا عمل تقریباً ڈیڑھ سو سال تک مشکل اور سست روی کا شکار رہا، یہاں تک کہ فارس کے بادشاہ "اردشیر اول یا دوم" نے بنی اسرائیل کے دو افراد، "نحمیا" اور کاہن "عزرا"، کو بھیجا۔ ان دونوں نے آخر کار روحانی احیا اور ریاست کی تعمیر نو کی بنیاد پر کہنوتی ریاست قائم کی۔ "نحمیا" بادشاہ کا ساقی اور پسندیدہ تھا، جبکہ "عزرا" ایک کاہن تھا۔ وہ سفارش نامے اور عملے کی فوج کے ساتھ آئے تھے۔ اس طرح ایک ایسی کہنوتی ریاست کا قیام عمل میں آیا، جہاں کاہنوں نے اقتدار سنبھالا، اور ان میں سب سے اہم شخصیت ٰ کاہنِ اعلی تھی، جسے "صادق" کی نسل سے ہونا ضروری تھا، جسے حضرت داؤد علیہ السلام نے مقرر کیا تھا، اور کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت ہارون یا حضرت موسیٰ علیہما السلام کی نسل سے تھا۔
اس ٰ کاہنِ اعلی کے تحت مقرر کردہ افراد مذہبی تقریبات میں رسومات کی قیادت کرتے تھے، موسیقی خدمات اور ٰ کاہن اعلی کی املاک کی نگرانی کرتے تھے۔ یہ اقتدار معلمین شریعت کے تقرر کا بھی ذمہ دار تھا، جو بعد میں حاخاموں کی جماعت کہلائی۔
اسفار کی دوبارہ تدوین:
قدیم عبرانی زبان جس میں کتاب مقدس کے اسفار لکھے گئے تھے، اور پورے شام اور فلسطین میں آرامی زبان کے پھیلاؤ نے بنی اسرائیل کے لیے مترجمین اور مفسرین کی ضرورت کو بڑھا دیا، جس نے دینی معلمین (حاخاموں) کی ضرورت کو شدید بنا دیا۔ بابل اور یروشلم دونوں شہروں میں، حاخاموں نے انبیاء سمجھے جانے والے افراد (مثلاً ملاکی، عوبادیا، حزقیال، حجی، زکریا، اشعیا دوم) کی تحریروں کی نقل و اشاعت میں حصہ لیا اور پرانے انبیاء کی تحریروں کی دوبارہ تدوین کی، جس کے نتیجے میں تین دستاویزات(J.E.D) تخلیق ہوئیں۔ پھر ان تین دستاویزات کو ایک جامع دستاویز (P) میں ضم کیا گیا، جسے "ناموس کہنوتی" کا نام دیا گیا۔ اس دستاویز نے توحید کے موضوع پر مبنی سفر پیدائش کا پہلا باب لکھنے کے لئے بنیاد فراہم کی، اس کے علاوہ اس میں متعدد قانونی شقیں شامل کی گئیں جو پانچ معروف اسفار )توریت یا H دستاویز(میں ضم کر دی گئیں۔
اسی طرح، یشوع، قضاة، صموئيل اور ملوك کے اسفار کا بھی جائزہ لیا گیا اور ان میں نیا مواد شامل کیا گیا۔ مزید تفصیلات کے لیے کتاب "قرآن، انجیل، توریت اور علم" کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
یونانی حملہ اور مکابی بغاوت:
مصر کو فتح کرتے ہوئےے راستے میں، سکندر اعظم نے 322 ق.م. میں فلسطین پر قبضہ کر لیا، جہاں اس نے فارسی افواج کو ایشیائے کوچک اور شام سے نکال دیا۔ سکندر جہاں بھی گیا اس نے وہاں یونانی ثقافت کو پھیلانے پر زور دیا، مگر اس نے کسی پر زور زبردستی نہیں کی۔ اس نے نئے شہروں کی تعمیر، یونانی طرز کے تھیٹروں اور لائبریریوں کے قیام، اور لوگوں کو ان میں بسنے کے لئے ترغیب دی۔ اس نے بغیر کسی دباؤ کے مقامی حکومتوں کو منتخب کرنے کی اجازت دی اورلوگوں کو مذہبی آزادی دئے رکھی۔ اس کے دور حکومت میں بڑی اقتصادی بحالی کا وعدہ کیا گیا، جس کی "یہودا" کو اپنی معاشی جمود کے بعد ضرورت تھی۔ اس وجہ سے یہودی اشرافیہ نے یونانی الفاظ کا استعمال شروع کر دیا اور اپنے گھروں کو یونانی طرز پر تعمیر کرنا اور سجانا شروع کیا۔
یہودیوں نے یونانی تہذیب کی ظاہری چیزیں اپنا لیں لیکن اپنے عقائد سے دستبردار نہیں ہوئے۔ یہ اثرات کاہنوں اور مذہبی رہنماؤں تک بھی پہنچے، جو یونانی کھلاڑیوں کو کھیلتے ہوئے دیکھنے کےلئےمیدانوں میں جاتے تھے۔ تاہم، ایک مخالف رجحان بھی تھا؛ سادہ لوگ غیر ملکی طور طریقوں کو اپنانے میں محتاط رہے، جبکہ شریعت کے معلمین اور حاخاموں نے یہودی طرز زندگی کی شدید وفاداری کی وجہ سے اس کی مخالفت کی۔
سکندر کی موت کے بعد اس کی سلطنت تقسیم ہوگئی۔ فلسطین کے معاملے میں، اسے سلوقیوں (شام) اور بطالمہ (مصر) کے درمیان سو سال تک تنازعہ رہا، حتی کہ دوسری صدی قبل مسیح کے آغاز میں سلوقیوں نے کنٹرول حاصل کر لیا۔ اس وقت سلوقی بادشاہ انطیوخس اپیفانس تھا، جس نے یہودیوں کی یونانی ثقافت کی طرف سست روی کو دیکھ کر سختی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے یہودیوں کو زیوس کی عبادت کرنے پر مجبور کیا،حتی کہ سبت (ہفتے) کے دن کی پابندی پر موت کی سزا مقرر کی، انہیں کتاب مقدس کے نسخے رکھنے سے منع کیا، اور ختنے سے روکا۔ خنزیر کی قربانی بھی دی گئی، جو یہودی مذہب کے قطعی خلاف تھی ۔
یہ ظلم و ستم یہودی عوام کے غصے اور بغاوت کا باعث بنا۔ یہ بغاوت اس وقت شروع ہوئی جب ایک حکومتی افسر نے بوڑھے کاہن متاثیاس (متی) کو زیوس کے لیے قربانی دینے کا حکم دیا، جس پر اس نے افسر کو قتل کر دیا۔ متاثیاس نے اپنے پانچ بیٹوں اور ایک بڑی تعداد میں پیروکاروں کے ساتھ ایک کامیاب بغاوت کی قیادت کی۔ اس کے بیٹے یہودا مکابیوس نے سلوقیوں کی چار فوجوں کو شکست دی اور پانچویں فوج کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا، اور 165 ق.م. میں یروشلم کو دوبارہ حاصل کر لیا، اور فلسطینی یہودیوں کو بچا لیا۔
یہودا 161 ق.م. میں قتل ہو گیا، اور قیادت اس کے بھائی یوناتان اور پھر اس کے چھوٹے بھائی سمعان کو منتقل ہوئی، جو ٰ کاہن اعلی مقرر ہوا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا یوحنا ہیرکانوس نے سلطنت کو وسعت دی اور سامرہ، ادوم، اور اردن کے پار پھیلے علاقے بیریا کو مملکت میں شامل کیا، جس سے اس کی مملکت حضرت داؤد علیہ السلام کی مملکت کے رقبے کے قریب ترہو گئی۔ یہ آزادی کی مدت 63 ق.م. تک برقرار رہی، اور اگر یہودی فرقوں کے درمیان تنازعہ نہ پھوٹتا تو یہ زیادہ طویل ہو سکتی تھی۔
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسی عرصے میں "سبعینی ترجمہ" کے نام سے مشہور قدیم عہد نامہ کا ترجمہ ہوا۔ مقدس کتابوں کو قدیم عبرانی زبان سے آرامی زبان میں منتقل کرنے کی ضرورت تھی، جو شام اور فلسطین کے لوگوں میں عام ہو چکی تھی۔ اس نے شریعت کے معلمین (حاخاموں) کی ضرورت پیدا کی، جو عبرانی نصوص کا ترجمہ اور تفسیر کر سکیں۔ یونانی ثقافت کے یہودی عوام میں پھیلاؤ کے بعد، قدیم عہد نامہ کے اسفار کو یونانی زبان میں ترجمہ کیا گیا، جسے سبعینی ترجمہ کہا جاتا ہے۔ اس ترجمہ کا آغاز تیسری صدی قبل مسیح میں ہوا اور دوسری صدی قبل مسیح میں مکمل ہوا، اور یہ ستر مترجمین کی ایک ٹیم نے کیا تھا۔
یہودیوں پر یونانی ثقافت کا اثر نسبتاً کم تھا، کیونکہ یونانی ثقافت فلسفیانہ اور سیکولر تھی، جبکہ زرادشتي ثقافت زیادہ تر دینی اور یہودی عقائد کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ تھی۔ زرادشتي ثقافت کی مذہبی ہم آہنگی کی وجہ سے یہودیوں پر اس کا اثر زیادہ محسوس ہوا۔
یہودی فرقوں کا اختلاف:
جیساکہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ ٰ کاہن اعلی کے لئے شرط یہ تھی کہ وہ "صدوقی" ہو، یعنی کاہن صدوق کی نسل سے ہو۔ یہ شرط کئی نسلوں تک برقرار رہی یہاں تک کہ یہ خاندان اشرافیہ میں شامل ہوگیا اور یونانی ثقافت سے متاثر ہوا۔ صدوقیوں نے غیر ملکی ثقافتوں کے ساتھ انفتاح کی ضرورت پر یقین رکھا اور وہ ان رومیوں کے ساتھ معاہدوں کے حامی تھے جو حال ہی میں علاقے میں آئے تھے۔
دوسری جانب ان کے مقابلے میں، "فریسی" تھے، جو کٹر مذہبی جماعتیں تھیں اور ان میں زیادہ ترکا تعلق حاخام سے تھے۔ ابتدا میں ان کی سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور ان کی توجہ یہودی مذہب کی حفاظت پر مرکوز تھی۔ انہوں نے "یہودا مکابی" کی بغاوت میں اس کی حمایت کی تھی، جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا۔ تاہم، وہ صدوقیوں سے شدید اختلاف رکھتے تھے۔ فریسی معاہدوں کو باطل سمجھتے تھے اور غیر ملکی ثقافتوں، خصوصاً یونانی ثقافت، سے سخت نفرت کرتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ صرف یہودی شریعت پر عمل کرنا چاہئے اور اس کو ہر دور کے مطابق ڈھالنا چاہئے۔ انہوں نے شریعت کے ذرائع کو وسیع کیا اور مکتوبات اور اسفار کے ساتھ ساتھ زبانی روایات کو بھی شامل کیا، جو یہودی علماء اور حکما سے منقول تھیں۔
مکابی بادشاہ "یوحنا ہیرکانوس" صدوقیوں کی طرف مائل ہوا، جس پر فریسیوں نے بغاوت کی۔ ہیرکانوس نے ان پر سختی سے حملہ کیا اور ان کا قتل عام کیا، جس سے ایک خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔ یہ صورتحال رومیوں کی مداخلت کا سبب بنی۔ بلآخر جنرل پومپی کو شام سے طلب کیا گیا، جس نے 63 قبل مسیح میں یہودی ریاست کو فتح کر کے اسے رومی صوبہ بنا دیا۔
الشتات الکبیر (یہودیوں کی بڑی جلا وطنی)
پورے فلسطین پر جب ظلم و بربریت اور خونریزی کے ذریعے قبضہ ہوگیا، تب رومن کو یہ محسوس ہوا کہ حل صرف اسی میں ہے کہ وہ یہودیوں کے دینی امور میں دخل نہ دیں، انہوں نے قیصر کے تقدس کو برقرار رکھنے کی خاطر اپنے رومن رسوم ورواج کو لاگو نہیں کیا اور نہ ہی کوئی مجسمہ قائم بنایا۔ مگر بگڑتی صورت حال اور متعدد جنگوں کی وجہ سے یہودی علاقوں میں افراتفری بڑھ گئی، اور ان کے رومن فوج کے ساتھ تنازعات شدت اختیار کیا۔ اس طرح 66 سالوں میں رومن حکمرانی کے خلاف ایک یہودی بغاوت کی سرگرمی کو جنم دیا۔
رومن کا صبر ختم ہوگیا اوروہ بار بار یہودی بغاوت کو برداشت نہ کر سکے، جس کے بعد سن70 میلادی میں رومن فوج نے شدت کے ساتھ اس بغاوت کو کچل دیا اور ہزاروں یہودیوں کا قتل عام کرتے ہوے یروشلیم میں داخل ہوگئیں، جس کی وجہ سے یہودی مختلف علاقوں کی طرف جانے پر مجبورہوگئے۔ کچھ لوگ بابل کی طرف چلے گئے، کچھ لوگوں نے عرب کے صحرائی علاقوں کی جانب سفر کیا، جو رومی سلطنت کے اثر سے دور تھے، اور تیسرا گروہ بحیرہ روم کے مشرقی ساحل کی طرف چلا گیا، جبکہ چوتھا گروہ ایک نہ ایک دن یروشلم واپس آنے کی امید کے ساتھ وہاں کے پہاڑی علاقوں میں جابسا۔ یہ واقعات تاریخ میں "الشتات الکبیر للیہود" کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
ساٹھ سال بعد، رومی شہنشاہ "ہیڈریانوس" نے اورشلیم کے کھنڈرات پر ایک شہر تعمیر کرنے کا ارادہ کیا، جس میں "جوپیٹر" دیوتا کا مندر بھی شامل تھا۔ یہودیوں نے پھر سے اس منصوبے کے خلاف لڑائی اور بغاوت کا آغاز کیا، جسے کچلنے اور ختم کرنے کے لیے رومیوں نے ایک فوجی دستہ بھیجا۔ یہ 136 عیسوی کی بات ہے۔ انہوں نے اورشلیم کو مکمل طور پر تباہ کر دیا، شہر کو مٹی میں ملا دیا، اور جو لوگ وہاں رہ گئے تھے انہیں غلام بنا کر فروخت کر دیا۔ بعد میں، "ہیڈریانوس" نے اس جگہ پر اپنا شہر بنایا اور اسے "ایلیا کاپیٹولینا" کا نام دیا۔ انہوں نے یہودیوں کے اس شہر میں داخل ہونے پر موت کی سزا مقرر کی۔ کئی صدیوں بعد، جب یہ شہر مسلمانوں کے قبضے میں آیا، تو انہوں نے یہودیوں کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ پس یہودی وہاں جا کر ہیکل کے مغربی دیوار کے باقی حصے کے سامنے، جو آج کل "دیوارِ گریہ" کہلاتی ہے، وہاں اپنے عقیدے کے مطابق روتے تھے۔
قرون وسطیٰ میں یہودیت :
قرون وسطیٰ کے آغاز میں یہودی عیسائیت اور اسلام دونوں سے متاثر ہوئے۔ کیونکہ جہاں عیسائیوں نے یہودیوں کے ساتھ جارحانہ رویہ اپنایا، وہاں مسلمان ان کے ساتھ بہت ہی روادار اور مہربان تھے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان کبھی بھی اچھے تعلقات نہیں رہے۔ پہلی صدی عیسوی سے ہی یہودی ربیوں کا رسمی موقف یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مسیحا تسلیم نہ کیا جائے۔ اس کے باوجود، عیسائی ہمیشہ یہودیوں کو قائل کرنے کی امید رکھتے تھے، لیکن یہ کوششیں اکثر ناکام رہیں۔
جب پولس نے عیسائیت کو یورپ میں متعارف کروایا ، تو بہت سے یونانیوں نے اسے قبول کیا، اوران کے فلسفے کے ساتھ اس کا اختلاط ہوا اس سے یہودیوں کے ساتھ فاصلہ بڑھ گیا۔ یہ فرق اس وقت اور بڑھ گیا جب رومی شہنشاہ قسطنطین نے 312ء میں عیسائیت قبول کر لی اور اسے ریاست کا سرکاری مذہب بنا دیا۔ عیسائی اسقف یہودیوں کی ضد سے تنگ آگئے، یہاں تک کہ ان کے درمیان تشدد پھوٹ پڑا۔
دوسری طرف، مسلمانوں نے یہودیوں کے ساتھ بہتر سلوک کیا۔ فلسطین، شام، بابل، اور بغداد میں ان کے ساتھ بہت ہی اچھا برتاو اور رواداری کا مظاہرہ کیا۔ یہودیوں نے مسلمانوں کو اپنے لیے عیسائیوں اور زرتشتیوں سے نجات دہندہ کے طور پر دیکھا۔ مسلمانوں کے ساتھ ان کی ثقافتی، نسلی، اور مذہبی مشترکات بھی بہت تھیں۔ اس لیے بابل میں یہودی مدارس دوبارہ فروغ پانے لگے، اور "امیر المنفی" یہودی اسلامی دربار میں ایک مضبوط شخصیت بن گیا۔ ان کے تاجر اسلامی دنیا میں خوشحال ہو گئے۔ یہ خوشحالی اس وقت تک جاری رہی جب تک ترکوں نے مسلمانوں پر حکمرانی حاصل نہ کی، اوراس طرح یہودیوں پر دوبارہ ظلم و ستم شروع ہوا۔ اس کے نتیجے میں، دسویں اور گیارہویں صدی میں بہت سے یہودی علما اپنے خاندانوں کے ساتھ اسپین ہجرت کر گئے۔ وہاں، انہوں نے اپنے ہسپانوی یہودی بھائیوں کے ساتھ مل کر مغرب میں یہودی مذہبی فلسفے کے سنہری دور کی تخلیق کی، اور یہ سب مسلمانوں کی حکمرانی میں ہوا۔
صلیبی جنگیں:
اس وقت تک یہودی فرانس، انگلینڈ اور رائن کے علاقوں میں پھیل چکے تھے، جہاں وہ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں آباد تھے۔ انہوں نے اپنے مذہبی رسومات کو عوام کی نظروں سے دور، الگ تھلگ رہ کر انجام دیا، جس کی وجہ سے ان پر شک و شبہات کیے جانے لگے۔ بہت سے لوگوں نے یہودیوں کو ان معاشروں کے خلاف سازش کرنے والا خفیہ گروہ سمجھا، جن میں وہ رہتے تھے، اور ان پر بدنیتی کے مقاصد حاصل کرنے کا الزام لگایا گیا۔
گیارہویں صدی کے آخر میں صلیبی جنگوں کے آغاز نے "کافر یہودیوں" کے خلاف جذبات کو بھڑکا دیا، جس کے نتیجے میں ان کے خلاف قتل عام شروع ہوئی جو جرمنی سے شروع ہو کر باقی یورپ تک پھیل گیا۔ اس کے بعد کئی یورپی ممالک میں یہودیوں کو بے دخل کرنے کے قوانین جاری کیے گئے۔ جرمنوں نے یہودیوں کو ایک شہر سے دوسرے شہر تک نکالنا شروع کیا، اور 1290ء میں انہیں انگلینڈ سے جلاوطن کر دیا گیا۔ دو صدیوں کے دوران جلاوطنی اور واپسی کے بعد، انہیں فرانس میں آباد ہونے سے روک دیا گیا۔ اسپین میں یہودیوں پر ظلم و ستم مسلمانوں کے انخلا کے ساتھ ہی ہوئے ، اور 1492ء میں جو یہودی عیسائیت قبول کرنے سے انکار کرتے تھے انہیں اسپین سے نکال دیا گیا۔
یہودیوں کے پاس مشرق کی طرف ترکی، شام، اور فلسطین میں پناہ لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ ان یہودیوں کو "سفاردیم" کہا جاتا ہے۔ شمالی یہودی بڑی تعداد میں پولینڈ اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں چلے گئے، اور تجارت اور صنعت کے فنون وہاں لے کر گئے۔ انہیں "اشکنازیم" کہا جاتا ہے، اور آج کل یہ لوگ 70% سے زیادہ یہودیوں کی تعداد بتاتے ہیں۔
جو یہودی اٹلی اور آسٹریا اور جرمنی کے کچھ شہروں میں رہ گئے تھے، وہ الگ تھلگ محلوں میں رہتے تھے جنہیں "غیتو" کہا جاتا تھا۔ یہ محلے عام طور پر شہر کے سب سے کم درجے کے علاقے میں واقع ہوتے تھے۔ ان کی مشکلات میں اضافہ کرتے ہوئے، تیرہویں صدی میں چرچ نے ایک قانون جاری کیا جس کے تحت یہودیوں کو یہودی شناختی نشان کے بغیر سڑکوں پر دکھائی دینے سے منع کیا گیا، ورنہ ان کےلئے قتل کی سزا تجویز کی گئی۔ یہ نشان ایک رنگین کپڑے کا ٹکڑا ہوتا تھا جو لباس پر سیا جاتا تھا، اور بعد میں یہ نشان شرم کی علامت بن گیا۔
یہودی غیتو پر اونچی دیواریں تعمیر کی گئیں اور رات کو ان پر تالا لگا دیا جاتا تھا۔ اگر کوئی یہودی دیوار کے باہر پایا جاتا تو اسے عام طور پر موت یا مالی جرمانے کی سزا دی جاتی تھی۔
یہودیت جدید دور میں
سولہویں اور سترہویں صدی میں یورپ میں یہودیوں پر ظلم و ستم اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ پولینڈ میں یہودیوں کو قوزاقوں کے ہاتھوں شدید قتل و غارت کا سامنا کرنا پڑا۔ قوزاق روسی قبائل تھے جنہوں نے اپنے جاگیردار حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی اور ہزاروں یہودیوں کو قتل کر دیا۔ اس کے باوجود، یہودی اپنی وراثت اور مذہب سے وفادار رہے۔
اٹھارہویں صدی کے آغاز میں، جب عقلیت اور شک کی تحریکیں ابھریں، تو عیسائی تحریکیں معاشرتی منظر نامے سے پیچھے ہٹ گئیں۔ اس سے مذہبی اور طبقاتی رکاوٹیں کمزور ہو گئیں اور نئے ثقافتی مراکز میں زیادہ رواداری پیدا ہوئی۔ اس دوران، یہودی شخصیات نے "غیتو" سے یہودیوں کی آزادی اور معاشرے میں ان کے انضمام کی ضرورت پر زور دیا۔ ان شخصیات میں سے ایک نمایاں نام یہودی فلسفی اور ادبی نقاد "موسے مینڈلسون"کا تھا، اگرچہ وہ اس خواب کو حقیقت بنتے نہ دیکھ سکا۔
آخر کار، امریکہ اور یورپ میں ابھرتی ہوئی جمہوریت نے یہودیوں کو مکمل شہری آزادی دی۔ امریکی انقلاب نے آئینی بنیاد فراہم کی، جس میں یہ کہا گیا کہ تمام لوگ آزاد اور برابر پیدا ہوتے ہیں۔ فرانسیسی انقلاب کے بعد فرانس کے یہودیوں کو مکمل شہریت کا حق ملا، اور نپولین جہاں بھی پہنچا وہاں "غیتو" کو ختم کر دیا اور یہودیوں کو آزاد کیا۔ 1848 کی بغاوتوں اور اس کے بعد کے واقعات نے وسطی اور مغربی یورپ کے بیشتر ممالک میں یہودیوں کو قانون کے سامنے مکمل مساوات دی، اور یونیورسٹیوں نے ان کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔ اور اس طرح یہودی ڈاکٹر، سیاستدان، مصنف، استاد، اور سائنسدان یورپی زندگی میں داخل ہوئے اورانہوں نے ان جمہوری تبدیلیوں سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔
ان تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لیے یہودی مذہب میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کرنا ضروری تھا۔ یہودی جدید دنیا کی سرگرمیوں میں شامل ہو گئے اور اپنی تنہائی سے باہر نکل آئے۔ اصلاحی تحریک نے جرمنی کے معبد سے آغاز کیا۔ کچھ حاخاموں نے، جو جدیدیت کی روح سے متاثر تھے، اپنی مذہبی جماعتوں کو ان تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے پر قائل کیا۔
انہوں نے معبد میں عبادات کو آسان اور جدید بنایا، دعاؤں کو مختصر اور عام زبانوں میں ترجمہ کیا، مسیحا کے آنے اور یہودی ریاست کے قیام کے حوالوں کو حذف کیا، قربانی کی رسومات کو منسوخ کیا اور مذہبی ترانوں کے لیے کورال کا استعمال شروع کیا۔
یہ اصلاحی تحریکیں نہ صرف اصلاح پسندوں تک محدود رہیں بلکہ 1843ء میں کچھ قدامت پسند یہودیوں نے بھی اصلاحی تحریک کی حمایت میں اپنے اصولوں کا اعلان کیا۔
1848ء کے بعد کی صورتحال:
1848ء کے بعد، یورپ میں یہودی قدامت پسندوں نے اصلاحی تحریک کو محدود کر دیا، جس کے نتیجے میں اس تحریک کے حامیوں کو امریکہ ہجرت کرنا پڑی۔ ان کے انکار کی بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ تحریک یہودی طرزِ زندگی میں اہم تبدیلیاں لانا چاہتی تھی۔ تاہم، قدامت پسندوں کو عقیدے کی سطح پر اصلاحی تحریک سے زیادہ اختلاف نہیں تھا کیونکہ یہودی عملی پہلوؤں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔
صہیونیت اور اسرائیل کا قیام:
انیسویں صدی اپنے پونے حصے میں تھی کہ ، ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی غلط تشریحات کے نتیجے میں "سامیت دشمنی" کی تحریکیں ابھریں، جس میں روس میں یہودیوں کے خلاف منصوبہ بند قتل و غارت گری، جرمنی میں یہودیوں کو دی گئی اذیت رسانی، اور فرانس میں مشہور "ڈریفوس کیس" شامل ہیں۔ ان حالات نے یہودیوں کو قائل کیا کہ ان کی دائمی سلامتی کا واحد حل فلسطین میں اپنے قومی وطن کی دوبارہ بنیاد رکھنا ہے۔ 1896ء میں "تھیوڈور ہرتزل" کی کتاب "یہودی ریاست" نے یہودیوں میں قومی وطن کے تصور کو واضح کیا۔
اس کتاب کے بعد، "صہیونیت" نامی ایک نئی یہودی تحریک نے تیزی سے دنیا کی توجہ حاصل کی اور اسے یہودی قدامت پسندوں کی وسیع حمایت ملی۔ جنگِ عظیم دوم کے بعد، اصلاحی یہودیوں نے بھی، جنہوں نے شروع میں اسے رجعت پسند اور ناقابل عمل سمجھ کر مخالفت کی تھی، اس کی حمایت کی۔ برطانوی وزیر خارجہ "بالفور" کے وعدے نے اس معاملے کو راتوں رات تبدیل کر دیا، اور ہزاروں یہودی برطانوی انتداب کی حفاظت میں فلسطین کی طرف ہجرت کرنے لگے۔
ہٹلر کی طرف سے یہودیوں پر ظلم و ستم نے فلسطین میں ان کے قومی وطن کے قیام کے لیے کافی جواز فراہم کیا۔ 1947ء میں اس کا اعلان کیا گیا، جس کے بعد یہودیوں نے مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ کیا، قتل و غارت گری کی اور حرمت کو پامال کیا چنانچہ اور یہ سب برطانیہ کی حمایت میں ہوا۔
شیخ مقداد الربیعی: استاد و محقق حوزہ علمیہ