10 شوال 1445 هـ   19 اپریل 2024 عيسوى 9:34 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2022-08-31   752

محمد نبی اکرمﷺ کا نام جو آپ کی صفات کے مطابق ہے

عربوں کی یہ عادت ہے کہ وہ بچوں کے اچھے اچھے نام رکھتے ہیں جس میں ان کے مستقبل کے متعلق ایک جھلک بھی ہوتی ہے کہ یہ بچے ایسے ہوں گےیا ہونے چاہیں۔اس حوالے سے بہت سے نام ہیں جن کو بچے کی پیدائش کے وقت پسند کے مطابق انتخاب کر لیا جاتا ہے۔عربوں میں مقولہ مشہور ہے کہ ہر شخص اپنے نام میں سے کچھ حصہ پاتا ہے یعنی اس کا نام اس کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ عرب اپنے  بچوں کے لیے کچھ نئے نام بھی رکھتے تھے جس میں  انہیں کسی مافوق الفطرت چیز سے نسبت دے دی جاتی تھی یا بچے کا نام ایسا رکھا جاتا جو عربوں کا اجتماعی عقیدہ ہوتا تھا اس طرح اس نام کا اثر ان کی زندگیوں پرہوتا تھا۔یہ نام  سے اچھا فال لیتے تھے کہ یہ ہمارے لیے اور اپنے لیے خیر کا باعث ہو گا۔

جو حقیقت میں اللہ کی عبادت کرتے ہیں وہ بندگان خدا جب نام رکھتے ہیں تو ان ناموں سے ان کے ایمان کا اظہار ہوتا ہے۔وہ ان کے ذریعے خدا کے قریب ہوتے ہیں ان عقائد کی پاسداری کرتے ہیں۔زمانہ جاہلیت کے ناموں میں یہ بات ملتی ہے کہ وہ ان بتوں کے قربت کے لیے رکھے جاتے تھے جن کی وہ عبادت کرتے تھے۔اس وقت لوگ  بچے کا نام ان بتوں کے مطابق رکھ کر یا ان کےلیے قربانی دے کر ان بتوں کا تقرب حاصل کرتے تھے۔ان کے نا م عبدالعزی اور عبدمناۃ اور ابو مرہ  مرہ شیطان کو کہتے تھے۔اس کے مقابل اہل توحید کے نام عبداللہ  کی طرح کے ہوتے تھے جیسا کہ نبی رحمتﷺ کے والد گرامی حق کا نام عبداللہ تھا۔

اس کفر و شرک کی گندگی سے مملو معاشرے میں  دنیا کے سب سے بڑے موحد  کی حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ علیھما السلام کے ہاں ولادت ہوتی ہے جس کا نام احمد رکھتا جاتا ہے۔

تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں نبی اکرمﷺ کے بہت سے نام اور کنیتیں مذکور ہیں مگر ان سب میں جو نبی رحمتﷺ کے لیے معروف ہوئے اور آج تک باقی ہیں وہ محمد اور احمد کے نام ہیں۔

جہاں تک آپ کے احمد نام کا تعلق ہے تو یہ وہ نام ہے جو آپﷺ کو آپ کی ولادت سے پہلے دیا گیا اور اس کا تذکرہ آپ ﷺ سے پہلے کی آسمانی کتب جیسا کہ انجیل میں ہے۔قرآن مجید اسی کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:

((وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ))(سورة الصف ـ 6)

اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا: اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اور اپنے سے پہلے کی (کتاب) توریت کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے رسول کی بشارت دینے والا ہوں جن کا نام احمد ہو گا، پس جب وہ ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے تو کہنے لگے: یہ تو کھلا جادو ہے۔

احمد وہ نام ہے جو آپﷺ کی والدہ ماجدہ نے آپﷺ کو آپ  کے دادا کے نام رکھنے پہلے رکھا تھا۔آپ کا نام احمد اللہ  کی عطا کردہ ان فضیلتوں کی وجہ سے ہے جوآپﷺ کو دی گئیں۔آپ ﷺ کا دوسرا نام محمد ﷺ ہے آپ ﷺ کو یہ نام آپﷺ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے آپ کی ولادت کے ساتویں روز عطا فرمایا۔محمد یعنی جس کی بہت زیادہ تعریف کی جائے یعنی جس کی صٖفات حسنہ کا بہت زیادہ تذکرہ ہو۔حضرت عبدالمطلب ع کا اس نام سے مقصود یہ تھا کہ  ان کا پوتا آسمان و زمین میں  قابل تعریف قرار پائے۔بعض کے نزدیک آپ کو محمد کا نام اس لیے دیا گیا کیونکہ آپ پر اللہ ،فرشتے ،تمام انبیاء ،رسول اور تمام امتیں آپ  کی تعریف کرتے ہیں اور آپﷺ پر درود بھیجتی ہیں۔

عربوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ  آپﷺ سے پہلے دنیا میں کسی کا نام محمد نہیں رکھا گیا یہ نام آپ پہلی بار آپﷺ کے لیے رکھا گیا اسی لیے یہ آپ ﷺ کی ان خصوصیات میں سے ہے جو آپ کے ساتھ خاص ہیں۔یہ بات قابل توجہ رہے کہ یہ نام اللہ کے الہام اور اس کی رہنمائی کے بغیر رکھنا ممکن نہیں ہے۔جب حضرت عبدالمطلب ع جیسا مواحد یہ نام رکھ رہا ہے تو اس کے پیچھے  کوئی دلیل اور اعلی مقصد ہونا چاہیے کیونکہ ہم جانتے ہیں  کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ جیسا نام رکھا جائے بندہ بھی ویسا ہی ہو۔جو وصف نام میں ہے بندہ بھی اسی وصف سے متصف ہو،جو لفظ  اس سے مقصود کے مطابق ہو۔اس طرح  لوگوں کے ذہنوں میں موجود خدشات کو کم کیا گیا اور ان کی غلط فہیاں دور کر کے انہیں ختم نبوت ﷺ کے لیے آمادہ کیا گیا۔

قرآن مجید میں اللہ تعالی نے آپ ﷺ کا نام محمدﷺ چار مقامات پر ذکر کیا ہے:

((وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىَ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللّهُ الشَّاكِرِينَ))(سورة آل عمران ـ 144)

اور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تو بس رسول ہی ہیں، ان سے پہلے اور بھی رسول گزر چکے ہیں، بھلا اگر یہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا، اور اللہ عنقریب شکر گزاروں کو جزا دے گا۔

اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :

 ((مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا))(سورة الأحزاب ـ 40)

محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ہاں وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیّین ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔

اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :

 ((وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ))(سورة محمد ـ 2)

اور جو لوگ ایمان لائے اور صالح اعمال بجا لائے اور جو کچھ محمدؐ پر نازل کیا گیا ہے اس پر بھی ایمان لائے اور ان کے رب کی طرف سے حق بھی یہی ہے، اللہ نے ان کے گناہ ان سے دور کر دئیے اور ان کے حال کی اصلاح فرمائی۔

اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :

 ((مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا))(سورة الفتح ـ 29)

محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت گیر اور آپس میں مہربان ہیں، آپ انہیں رکوع، سجود میں دیکھتے ہیں، وہ اللہ کی طرف سے فضل اور خوشنودی کے طلبگار ہیں سجدوں کے اثرات سے ان کے چہروں پر نشان پڑے ہوئے ہیں، ان کے یہی اوصاف توریت میں بھی ہیں اور انجیل میں بھی ان کے یہی اوصاف ہیں، جیسے ایک کھیتی جس نے (زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹی ہو گئی پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی اور کسانوں کو خوش کرنے لگی تاکہ اس طرح کفار کا جی جلائے، ان میں سے جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالح بجا لائے ان سے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔

اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :

 ((وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ))(سورة الصف ـ 6)

اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا: اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اور اپنے سے پہلے کی (کتاب) توریت کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے رسول کی بشارت دینے والا ہوں جن کا نام احمد ہو گا، پس جب وہ ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے تو کہنے لگے: یہ تو کھلا جادو ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018