9 شوال 1445 هـ   18 اپریل 2024 عيسوى 10:26 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2021-09-08   2206

لالچ ہر نافرمانی کی چابی اور ہر گناہ کی بنیاد

"لالچ" عام طور پر مایوسی کی ضد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے یہ دراصل کسی چیز کو پالینے اور اس پر قبضہ کرنے کی خواہش کے معنی میں آتا ہے اگرچہ اس پر قبضہ کرنا غیر شرعی طریقہ سے ہی کیوں نہ ہو۔ لالچ وہ نفسیاتی حالت ہے جو انسان کواپنی ان خواہشات کی تکمیل پر آمادہ کرتی ہے کہ جس کو حاصل کر سکتا ہو یا پھراسے حاصل کر سکنے کی امید ہو اس کی طرف قدم بڑھائے یہ چیز مادی اور روحانی ہر طرح کی ہو سکتی ہے اور اس کی دوقسمیں ہیں:

پسندیدہ لالچ :یہ وہ کام ہےجس کی طرف انسان متوجہ ہوتا کہ وہ اسے کرے یا وہ چیز اسے حاصل ہو یہ نیک کام یا مقصد ہوتا ہے۔جیسے علم کی طلب کرنا،نیک کام کرنے کی خواہش کرنا جیسے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے اور صدقہ کا ارادہ کرنا،اسی طرح گناہوں کے بخشوانے اور اسی طرح کے دیگر اچھےکاموں کا ارادہ کرنا۔یہ وہ لالچ ہے جس کی طرف قرآن نے رہنمائی کی ہے چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

(وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَن يُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِينَ)(سورة المائدة ـ 84)

اور ہم اللہ پر اور اس حق پر کیوں نہ ایمان لائیں جو ہمارے پاس آیا ہے؟ اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں نیک بندوں کی صف میں شامل کر لے گا۔

((إِنَّا نَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطَايَانَا أَن كُنَّا أَوَّلَ الْمُؤْمِنِينَ))(سورة الشعراء ـ 51)

ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہماری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا کیونکہ ہم سب سے پہلے ایمان لائے ہیں۔

بالکل یہی بات صحیفہ سجادیہ میں امام سجاد ؑ کی دعا میں بھی آئی ہے آپ فرماتے ہیں:

"إذا رأيت مولاي ذنوبي فَزِعتُ، وإذا رأيت عفوك طَمِعتُ".

جب میں اپنے گناہوں کی طرف دیکھتا ہوں تو گھبرا جاتا ہوں اور جب اللہ کی بخشش کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے امید پیدا ہوتی ہے۔

ناپسندیدہ لالچ :وہ لالچ جس کا متعلق یعنی جس کی طلب کی جا رہی ہے ایسا کام ہو جو شر پر مبنی اور حرام کی طرف لے جائے دراصل یہی لالچ ہمارا مقصود ِبحث ہے۔یعنی ہماری بحث کا موضوع بھی یہی لالچ ہے جو قابل نفرت عمل ہے۔ایسا لالچ ایک سنگین اخلاقی بیماری ہے جو انسان کے دل و روح کو بگاڑ دیتی ہے۔جس میں لالچ آجاتا ہے وہ طرح طرح کے خطرات میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس کے نتیچے میں کئی قسم کی بدنامیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔اس لالچ کے فرد اور معاشرے پر خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

یہ لالچ اخلاقی برائیوں میں سے ایک برائی ہے،یوں سمجھئے کہ لالچ اصل ہے اور اس کی کئی شاخیں ہیں یعنی  یہ جڑ ہے اور اس کے زمرے میں کئی  ایسے چھوٹے بڑے گناہ آجاتے ہیں۔جن کے نتیجے میں خون خرابے ہوتے ہیں،عزت داروں کی توہین ہوتی ہے، یہ گناہ مومنین کی غیبت کا باعث بنتا ہے،چھوٹ بولنے کی وجہ قرار پاتا ہے اسی طرح کئی اور گناہ بھی اس لالچ کی وجہ سے کیے جاتے ہیں۔لالچ ایک خطرناک چیز ہے اس کی تصدیق شریعت کی تعلیمات سے بھی ہوتی ہے۔اس حوالے سے روایات کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے جو اس بڑے خطرے کو تفصیل سے بیان کرتا ہے۔ یہ روایات لالچ کے روح پر غلبہ پانے کے حوالے سے خبردار کرتی ہیں۔روایات یہ بتاتی ہیں کہ لالچ کے نتیجہ میں زندگی خراب ہو جاتی ہے اور اس کا نتیجہ ہمیشہ برا اور الٹ نکلتا ہے۔روایات میں لالچ سے خبردار کیا گیا کہ اسے خود پر غلبہ نہ دیں ،کیونکہ اس کے نتیجے میں انسان کی آخرت تک خراب ہو جاتی ہے نبی اکرم سے حدیث ہے آپ نے فرمایا:لالچ سے بچو،کیونکہ یہ غربت کے ساتھ ہی ہے،اس سے بچو، اس سے نہ بچنے کا کوئی عذر نہیں ہے۔اسی طرح آپ نے فرمایا:الصفا الزلال وہ جگہ ہے جہاں لالچی علما کے قدم نہیں ٹھہرتے۔

ہم اقوال عصمت کا اختتام امیر المومنین ؑ کے اس قول سے کریں گے کہ آپ ؑ نے مسلسل لالچ کی مذمت کی، چنانچہ آپؑ کے فرامین میں سے ہے:

إيّاك أن توجِفَ بك مطايا الطمع، فتوردك مناهل الهلكة

لالچ  کے بوجھ سے بچو یہ تمہیں تباہی کی طرف لےجاتا ہے۔

"من أراد أن يعيش حرّاً أيام حياته فلا يُسكن الطمع قلبهُ"

جو چاہتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ایام آزادی سے گزارے وہ دل میں لالچ کو جگہ نہ دے۔

"جمالُ الشرّ الطمع" برائی کا حسن لالچ ہے۔

امام جعفر صادقؑ نے بھی لالچ کی مذمت کی ہے آپؑ نے فرمایا:اگر تم چاہتے ہو تمہاری آنکھیں پر سکون رہیں ،دنیا و آخرت کی بھلائی تمہیں حاصل رہے تو خود کو اس سے بے نیاز کر لو جو کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔خود کو مرنے والوں میں شمار کرو،خود اپنے بارے میں یہ بات نہ کرو کہ تم کسی سے بہتر ہو،اپنی زبان کو ایسا خزانہ بناو جیسے تم پیسے کو ذخیرہ کرتے ہو(یعنی صرف ضرورت کے وقت مناسب الفاظ کے لیے استعمال کرو)

لالچ کی کئی ایک علامات اور وجوہات ایسی ہیں کہ جب کسی میں یہ صفت آتی ہے تو یہ خود بخود بھی آجاتی ہیں،ان کو امیر المومنین حضرت علیؑ نے بیان فرمایا ہے:لالچ کے چار حصے ہیں:فرح (خوشی)، مرح (خوشی)،(لجاجہ ) ہٹ دھرمی، تکاثرکثرت،فرح (خوشی) یہ اللہ کے ہاں مکروہ ہے،مرح (خوشی) باطل ہے،لجاجہ (ہٹ دھرمی) وہ بلا ہے جس کے ذریعے انسان گناہوں کی طرف جاتا ہے،تکاثر(کثرت) لہو و لعب وہ مصروفیت ہے جس کے بدلے میں یہ ملتی ہےوہ اس سے بہتر ہے۔یہاں چار کلمے استعمال ہوئے ہیں ان میں سے ہر ایک کی وضاحت ضروری ہے:

الفرح:ایسی خوشی جس میں لالچی خوشی سے مغلوب ہو جاتا ہے اور اپنی مطلوبہ چیز کوتو حاصل کر لیتا ہےمگر اس خوشی کے لالچی شخص پر خلاف عقل اثرات ہوتے ہیں۔یہ بات تو ہمیں معلوم ہے کہ انسان جس خوشی کا حقدار نہ ہو وہ قابل مذمت ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: (إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِن قَوْمِ موسى فبغى عَلَيْهِمْ ۖ وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لَا تَفْرَحْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ)(سورة القصص ـ 76)

ے شک قارون کا تعلق موسیٰ کی قوم سے تھا پھر وہ ان سے سرکش ہو گیا اور ہم نے قارون کو اس قدر خزانے دیے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کے لیے بھی بارگراں تھیں، جب اس کی قوم نے اس سے کہا: اترانا مت یقینا اللہ اترانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

اسی طرح اللہ تعالی ایک دوسری آیت میں ارشاد فرماتا ہے:( لِّكَيْلَا تَأْسَوْا على مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ ) (سورة الحديد ـ 76)

تاکہ جو چیز تم لوگوں کے ہاتھ سے چلی جائے اس پر تم رنجیدہ نہ ہو اور جو چیز تم لوگوں کو عطا ہو اس پر اترایا نہ کرو، اللہ کسی خودپسند، فخر جتانے والے کو پسند نہیں کرتا۔

المرح : لالچی  لطف و سرور کے اثرات کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ وہ اپنی خواہش کو پانے میں اپنے لالچ کے مطابق کامیاب ہو ۔قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا)(سورة الإسراء ـ 37) اور زمین پر اکڑ کر نہ چلو۔

مرح سب سے برا اور بدترین،اس طرح کہ جب کوئی نعمت ملے تو اس وقت بڑی نافرمانی کی جائے،اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

((ثُمَّ قِيلَ لَهُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ تُشْرِكُونَ (73) مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا بَل لَّمْ نَكُن نَّدْعُو مِن قَبْلُ شَيْئًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكَافِرِينَ (74) ذَٰلِكُم بِمَا كُنتُمْ تَفْرَحُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنتُمْ تَمْرَحُونَ (75) ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۖ فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ(76))(سورة غافر ـ 73 ـ 76)

۷۳۔ پھر ان سے پوچھا جائے گا: کہاں ہیں وہ جنہیں تم شریک ٹھہراتے تھے، ۷۴۔ اللہ کو چھوڑ کر ؟ وہ کہیں گے: وہ تو ہم سے ناپید ہو گئے بلکہ ہم تو پہلے کسی چیز کو پکارتے ہی نہیں تھے، اسی طرح کفار کو اللہ گمراہ کر دیتا ہے۔ ۷۵۔ یہ (انجام) اس لیے ہوا کہ تم زمین میں حق کے برخلاف (باطل پر) خوش ہوتے تھے اور اس کا بدلہ ہے کہ تم اترایا کرتے تھے۔ ۷۶۔ جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ جس میں تم ہمیشہ رہو گے، تکبر کرنے والوں کا کتنا برا ٹھکانا ہے۔

تکاثر:   یہ دنیا کے مال میں کثرت سے رغبت کو کہتے ہیں اور اسی سے جمع کرنے کی حرص اختیار کی جاتی ہے۔یہ حرص انسان کو اس مال کو خرچ کرنے سے روک دیتی ہے اور وہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں خرچ نہیں کرتا یہ لالچ سے پیدا ہونے والی آخری بری عادت ہے جو نا پسندیدہ ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں انسان لہو و لعب میں مبتلا ہوتا ہے،وقت کا ضیاع کرتا ہے اور غیر شرعی کام بھی انجام دیتا ہے قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:(أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ) (سورة التكاثر ـ 1 ـ 2)

۱۔ ایک دوسرے پر فخر نے تمہیں غافل کر دیا ہے، ۲۔ یہاں تک کہ تم قبروں کے پاس تک جا پہنچے ہو۔

لجاجہ:  مطلوبہ چیز کو حاصل کرنے کے لیے مختلف راستے اختیار کرنا اگرچہ اس میں ذلت و اہانت بھی کیوں نہ ہو۔ایسے میں جو لالچی ہوتا ہے وہ ذلیل ہو جاتا ہے اسی لیے امیر المومنین ؑ نے فرمایا :جو شخص خود کو لالچ سے محفوظ نہیں رکھتا وہ خود کو دنیا و آخر ت میں ذلیل کر لیتا ہے۔

لالچ کے بہت سے اسباب ہیں ان میں سے اہم جہالت ہے لوگ اسلامی معارف، فقہ، عقائد اور اخلاق اسلامی سے آگاہی نہیں رکھتے۔امیرالمومنینؑ کا فرمان ہے:جاہل لالچ سے بھڑکتے ہیں،امیدوں سے بہک جاتے ہیں اور دھوکے کے اسیر ہوتے ہیں۔ امیر المومنین ؑ کا ایک اور فرمان ہے: لالچ،شرارت اور کنجوسی جہالت کا نتیجہ ہیں۔انسان تربیت کا اہتمام نہ کرے،تزکیہ اور تہذیب النفس بھی نہ کرے،خود کو صبر سے بھی متصف نہ کرے، اللہ کی اطاعت کا پیرو نہ بنے اور اس کی نافرمانی کو ترک نہ کرے تو لالچ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔جب انسان شرعی احکامات پر عمل نہیں کرتا، لین دین اور تعلقات میں ان پر عمل نہیں کرتا تو لالچ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ایسے انسان بہت سی اخلاقی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں جن میں سے ایک لالچ ہے ۔

امیر المومنینؑ فرماتے ہیں:یہ روح کی برائی کی علامت ہے جو اسے نظر انداز کرے گا وہ گناہ میں مبتلا ہو جائے گا۔دوسری طرف بری تربیت اور ایسے ماحول میں پرورش جو برائی کا حامل ہو یہ وہ عوامل ہیں جو افراد اور معاشرے کے اخلاق کو تباہ کر دیتے ہیں اور لالچ ان میں سے ایک ہے،اس موضوع پر بہت زیادہ روایات آئی ہیں نبی اکرم  نے فرمایا: ہر اس شخص کی ہم نشینی سے ہشیار رہو جو اچھائی کو کمزور جانے،برائی کو قوی سمجھے،روحانی  طور پر خبیث ہو ،اگر وہ خوفزدہ ہے تو دھوکہ دے جائے گا اور جب سکون میں ہو گا تو سفاک ہو گا۔

دنیا کی محبت لالچ کی طرف لے جاتی ہے۔ پس جس شخص میں دنیا کی محبت آجائے وہ ہلاک ہو جاتا ہے اور یہ انسان کو گناہ کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔نبی اکرم نے فرمایا:دنیا کی محبت ہر گناہ کی بنیاد ہے اور تمام گناہوں سے مقدم  گناہ ہے۔بالکل اسی طرح کا فرمان نبی اکرم کے نواسے امام جعفر صادق ؑ سے مروی ہے آپ ؑ نے فرمایا :ہر گناہ کی بنیاد دنیا کی محبت ہے۔

کسی بھی لالچی ذہن کی تربیت مختلف طریقوں سے کی جا سکتی ہے ان میں چند یہ ہیں۔سب سے پہلے تو جہالت کو دور کیا جائے اور انسان کو شریعت اسلامی کا علم دیا جائے اسے اخلاق،فقہ عقائد اور اصول دین کی تعلیم دی جائے اور اس سے جہالت کی ذلت کو دور کیا جائے۔تعلیم کسی بھی مسلمان شخص کو کامیاب کرنے کی بنیاد ہے۔تعلیم کے ذریعے ہی انسان ہر طرح کی نافرمانیوں اور برائیوں سے بچتا ہے۔اس حوالے سے آیات و روایات بہت زیادہ ہیں امیر المومنینؑ فرماتے ہیں:علم تمام آفات سے حجاب ہے۔

اگرچہ یہ آسان کام نہیں ہے کیونکہ انسان کی تہذیب نفس کرنا مسلسل کوشش اور جدو جہد کا متقاضی ہے اللہ کی اطاعت پر صبر کیا جاتا ہے اور اس کی نافرمانی کو ترک کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے اللہ سے مدد و رہنمائی طلب کی جاتی ہے کہ وہ سیدھا راستہ دکھائے۔انسان نفس کو قناعت کی کچھ اس طرح تربیت دیتا ہے،کہ کھانے،پہننے اور گھر میں خود کو فقط اور فقط ضروریات تک محدود رکھا جائے اور اس حوالے سے لالچ نہ کیا جائے۔انسان جب قناعت کو اختیار کرتا ہے تو اسے وہ صلاحیت ملتی ہے جواسے کمال کے درجات تک پہنچا دیتی ہے اور اس کی گردن سے لالچ کے پٹے کو اتار دیتی ہے۔حضرت علیؑ فرماتے ہیں: اے خدا کے نبی آدم کے فرزندوں اگر دنیا سے تمہیں اُتنا ہی ملے جو تمہارے لیے کافی ہو، تو جو کم ملا ہے یہی کافی ہے۔اور اگر تم وہ چاہو جو تمہاری کفایت سے زیادہ ہو تو اگر تمام دنیا کا مال تمہارے حوالے کر دیا جائے تو وہ بھی تمہارے لیے کافی نہیں ہوگا۔

پس انسان تقوی اور پرہیزگاری کے ذریعے لالچ کا مقابلہ کرے،اور جب انسان یہ دیکھے کہ اب لالچ ہو رہا ہے تو  بالخصوص اس وقت میں لالچ کے مادی و معنوی حملے سے بچنے کے لیے تقوی سے مدد لے۔امیر المومنینؑ نے فرمایا:لالچ پر تقوی سے فتح پاو۔

آخر میں انسان لالچ پر قابو پانے کے لیے اللہ کی مدد طلب کرےانسان الاستعاذہ پڑھے،اس شر سے بچنے کی دعا کرے اور تمام رذائل سے بچنے کی دعا کرے۔نبی اکرم نے فرمایا:تین جگہ اللہ کی پناہ مانگو،پناہ مانگو ایسے لالچ سے جولالچ کرنے کی جگہ نہ ہو۔ ایسے لالچ سے جو طبیعت تک میں سرایت کرجائے یعنی ذلت و خواری کا سبب بنے اور پناہ مانگو ایسے لالچ سے جو ایسی جگہ رجوع کرنے پر مجبور کرے جہاں پر لالچ نہیں ہونا چاہیے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018