10 شوال 1445 هـ   19 اپریل 2024 عيسوى 11:17 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | افکارو نظریات |  انسانی تاریخ کا سفر ۔۔۔ ایک جائزہ
2021-07-03   374

انسانی تاریخ کا سفر ۔۔۔ ایک جائزہ

ہمیشہ انسانی تاریخ کے سفر،اس کے اسلوب اور اس کے نشیب و فراز مختلف تفسیروں اور مخلوط نظریات کا کھلونا بنا ہوا ہے؛ بعض کا خیال ہے کہ بشری تاریخ کا سفر کارل مارکس کے نظریہ اشتراکیت کی بنیاد پر طبقاتی جنگ و جدال کا نتیجہ ہے۔ جبکہ کچھ  کا ماننا ہے کہ یہ مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کی جنگ اور مقابلہ بازی کی آماجگاہ ہے جیسا کہ صموئیل ہمنگٹن نے اس نظریہ کی بنیاد رکھی ہے۔ ڈارون اور اس کے پیروکار جو اس کے نظریہ پر ایمان رکھتے ہیں ان کی رائے یہ ہے کہ یہ قوی کی بقاء اور اس کی اس مقصد کیلئے جنگ کا نتیجہ ہے ۔

مگر قرآن کریم اس انسانی حرکت کو ایک الگ زاویہ سے بیان کرتا ہے کہ یہ خير و شرّ اور نیکی و بدی کی جنگ اور معرکہ کا انعکاس ہے ۔ پس قرآن کریم کا نظریہ ہے کہ یہ سفر سابقہ انسانی رائے، نظریات اور تفسیروں  کے ضمن میں  قابل تحلیل و تجزیہ نہيں ہے کیونکہ وہ اسے خير و شر اور نیکی و بدی کے معیارات سے  پرکھتا  ہے ۔

قرآنی آیات کی جستجو کرنے والا اس حقیقت کاملہ کو پا لنے کے بعد اور اس کیلئے کسی قسم کا شک و شب کی گنجائش نہیں رہتی کہ حق و باطل کا معرکہ یہ مخلوق کا طریقہ کار ہے اور خدا نے اپنی مخلوق کو اس انتخاب کیلئے گنجائش دی ہے۔ نتیجہ میں زندگی کا ایسا تصور کرنا جس میں خیر مطلق ہو یعنی ہر طرف نیکی ہی نیکی ہو یا شرّ مطلق ہو یعنی دنیا میں فقط برائي کا راج ہو یہ ایک قسم کا سفسطہ اور خیال محض ہے اس حقیقت کو قرآنی آیات ثابت کرتی ہیں اور اسے محکم حقیقت کے عنوان سے تاکید کے ساتھ بیان کرتی ہیں، جیسے خداوند کریم کا فرمان ہے:اسی طرح خداوند کریم حق و باطل کی مثال دیتا ہے؛ (سورہ رعد 17)

نیز خداوند کریم کا فرمان ہے:کفر اختیار کرنے والے باطل کے ذریعہ جھگڑا کرتے ہيں تاکہ اس کے ساتھ حق کو نابود کرسکیں؛ (سورہ کہف 56)

نیز رب العزت کا فرمان ہے:اس کی وجہ یہ ہے کہ کفار باطل کی پیروی کرتے ہيں اور مومنین اپنے پروردگار کی طرف سے ملنے والے حق کی پیروی کرتے ہيں؛(سورہ محمد 3)

اس کے علاوہ بہت سی  قرآنی آیات انسانی تاریخ کے سفر کی حقیقت کو بیان کرتی ہیں، اسے حق و باطل کا معرکہ اور خير و شر کی جنگ کے طور پر اجاگر کرتی ہیں۔ اس مقام پر قرآن کریم کو فرقان کا نام دینے کی دلیل بھی واضح ہوجاتی ہے اس میں حق و باطل اور خیر و شر کے درمیان امتیاز کرنے کے اصول اور معیارات موجود ہیں یہ خالق حق  طرف سے مخلوق کے درمیان فرقان اور فیصلہ کرنے والا ہے، آسمان و زمین کا اسلوب،انسانی قوانین اور الہی قوانین کے درمیان فیصلہ کرتا ہے، یہ الہی سنت اور طریقہ کار ہے جو ہر مخلوق پر جاری ہے اور ہر دور میں اور ہر جگہ موجود ہے اس میں آزمائش اور امتحان کی سنت بھی شامل ہے جس کی وجہ سے خداوند کریم نے اپنے بندوں کو پیدا کیا ہے اس نے موت و حیات کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کا عمل بہترین ہے اور وہ زبردست غالب آنے والا اور بخشنے والا ہے ۔

نتیجتا ً جس انسان نے حق کا ساتھ دیا، اس کا دفاع کیا، اور نیک عمل انجام دیا  تو اس نے ہدایت پالیا اور جو شخص باطل کا ساتھ دیتے ہوئے اس کا دفاع کرے اور باطل کی حمایت کرے تو یقیناً  اس نے برا عمل کیا اور راہ حق سے بھٹک گیا ۔

جب ہم نے ثابت کر دیا کہ انسانی حیات کی سنت حق و باطل کے معرکہ کی بنیاد پر قائم ہےتو اس نظیہ کا لازمہ یہ ہے آخر کار حق کی نصرت اور فتح یقینی ہوتی ہےور نہ حکمت الہی زیر سوال چلی جائے گی کہ اصل مخلوق فتنہ اور انتشار کا شکار ہوکر ختم ہوجائے اور کمال تک نہ پہنچ پائے تو اسے تو کوئي عام انسان بھی قبول نہيں کرتا اس کا خالق حکیم و مقتدر سے کیسے قیاس کیا جاسکتا ہے ؟! جیساکہ درواقع باطل اور شر کی کوئی فتح نہیں ہوتی اگر ظاہری طور پر کہیں فتح کی ظاہری صورت نظر آئے بھی تو وہ وقتی اور عارضی ہوتی ہے اس کو ثبات اور دوام نہيں ہوتا ؛اس حقیقت کی طرف  بہت سی آیات قرآنی اشارہ کر رہی ہیں۔

جیساکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :

(فوقع الحق وبطل ما كانوا يعملون)

" پس حق ثابت ہوگیا اور ان کے برے اعمال باطل اور نابود ہوگئے" ، (اعراف 118)

(ليحق الحق ويبطل الباطل ولو كره المجرمون)

"تاکہ حق ثابت ہوجائے اور باطل نابود ہوجائے، اگرچہ مجرمین اس کو ناپسند کریں " (انفال 8)

(وقل جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا)

"کہہ دیجئے حق آگیا اور باطل مٹ گیا کہ باطل مٹنے والا ہے "؛ (اسراء 8)

اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام اور ان کے وقت کا ظالم و جابر بادشاہ  فرعون کی داستان میں یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے اور قرآن نے  واضح کیا ہے کہ یہ معرکہ حق و باطل کا معرکہ تھا اور وہ کفر اور ایمان کی جنگ تھی اور اس مقابلے میں بعض اوقات فرعون کی وقتی فتح کا یہ معنی نہيں تھا کہ وہ حق پر تھا اور اس سے یہ بھی مراد نہيں تھی کہ انجام کار وہ فتح پائے گا کیونکہ آخری فتح تو نیکی کی ہوتی ہے اس لیے آخر کار حضرت موسی  فتح یاب ہوئے ۔

(وأورثنا القوم الذين كانوا يستضعفون مشارق الأرض ومغاربها التي باركنا فيها وتمت كلمة ربك الحسنى على بني إسرائيل بما صبروا ودمرنا ما كان يصنع فرعون وقومه وما كانوا يعرشون)

ہم نے ان لوگوں کو زمین کے مشرق اور مغرب کا وارث بنایا جنہيں کمزور سمجھاجاتا تھا جن علاقوں میں ہم نے برکت دی تھی ۔ اور خداوند کریم کا نیک فیصلہ بنی اسرائیل کے صبر و تحمل کی بدولت کامل ہوگیا اور ہم نے فرعون اور اس کی قوم کے کاموں اور ان کے محلات کو نیست و نابود کردیا ،(اعراف 137)

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018