9 شوال 1445 هـ   18 اپریل 2024 عيسوى 3:10 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | افکارو نظریات |  ملا صدرا کا فلسفہ ،بطور نمونہ اصالت وجود اور حرکت جوہری
2021-06-02   3091

ملا صدرا کا فلسفہ ،بطور نمونہ اصالت وجود اور حرکت جوہری

درحقیقت یہ ممکن ہی نہيں ہے کہ کوئی شخص فلسفہ کے میدان میں اپنے دل کو حقیقت کی بحث کیلئے کھولے بغیر داخل ہو چہ جائيکہ وہ اس میدان میں مصروف عمل ہو سکے اگرچہ کبھی کبھار بعض افراد کو حالات کی وجہ سے فلسفہ کے میدان میں داخل ہونا پڑتا ہے جبکہ ان کا دل و دماغ حقیقتِ عشق کی چنگاری سے روشن نہيں ہوتاپس اسی لیے ایسے افراد کا فلسفہ کے میدان میں سفر طولانی نہيں ہوتا؛چنانچہ وہ جلد تھکاوٹ اور نا امیدی کا شکار ہوجاتے ہيں اور فلسفہ کے میدان سے نکل جاتے ہيں اور اگر ایسا نہ ہو تو آپ ان کو دیکھیں گے کہ وہ ایسے جامد ہوجاتے ہيں جیسے وہم و گمان کرنے والوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ دعوی تو علم و معرفت کا کرتے ہيں مگردر حقیقت وہ جمود فکر کا شکار ہوتے ہيں۔

اس طرح ہمیں یقین ہے کہ فلسفہ کے میدان سے اس بلندترین مرتبہ تک پہنچنے کیلئے جس تک عقل  بشری کا پہنچنا ممکن ہے استفادہ کرنا ممکن نہيں مگر جب اس میدان میں آنے والا اپنے ارد گرد کے لگاؤ اور انس کے حجابات اور پردوں کو اتار دےکہ یہی اس راہ کی بڑی رکاوٹیں ہيں  جوتحقیق کرنے والوں کو حقیقت کی جستجو کے ابتدائی مراحل میں پیش آتی ہیں ۔

نیز ہمارے لیے اس مقام پر یہ دعوی کرنا ممکن ہے اور ہمیں اس کا اطمینان ہے کہ حقیقت کی حقیقی صورت تک پہنچنا ممکن نہيں ہے مگر ایسا وہ شخص کرسکتا ہے جو اپنے آپ کو پہچان سکتا ہو؛ یہ اس لیے کہ ایسے شخص میں  نفس کی طرف سے پیش آنے والی لغزشوں کو عبور کرنے کی قدرت ہوگی اور وہ حقیقت کا مشاہدہ کرسکے گا، پس کتنی ہی نفسانی لغزشیں ہيں جن کو آج ہم علم و معرفت کے باب میں دیکھتے ہیں اور کتنے وہ لوگ ہيں جن کے فلاسفہ کو فلاسفہ کا لقب دیا جاتا ہے حالانکہ وہ حقیقت میں میدان فلسفہ کے گرد چکر لگانے والے گروہوں میں شامل ہیں جن کا نتیجہ اور ثمر دعوی ہے اور جن کی دلیل و برہان افتراء پردازی ہے ۔

اس بناء پر آج ہم اسلامی فلسفہ کے تین مکاتب میں سے ایک کی طرف متوجہ ہوئے ہيں اور وہ حکمت متعالیہ کا مکتب ہے جو دوسرے مکاتب سے ان بعض نظریات میں ممتاز ہے جن کو ابتدائي نظر میں قبول کرنا مشکل ہے کہ اس کے مبانی اور اصول دقیق ہيں اور ان کا تصور کرنا مشکل اور صبر آزما کام ہے ۔

اورجب اس میں گہرا غور و فکر کیا جائے اور اس کے مبانی اور اصولوں کی تلاش کی کوشش کی جائے تو انہیں اس کا احترام کئے بغیر چارہ نہیں ہوتا، پس اگر ہم ان فلسفی مکاتب پر غور کرنا چاہیں جو اسلامی ممالک میں سابقہ صدیوں میں پائےجاتے تھے تو ہم ان کو تین فلسفی مکاتب کی صورت میں پائيں گے:

1۔مکتب مشائي ارسطو: جس کو فلسفہ اسلامی کے میدان میں بڑا واضح اور مضبوط وجود ملا اور اس کے بڑے علماء میں سے معلم ثانی فارابی اور شیخ رئیس ابن سینا ہيں ۔

2-مکتب اشراقی: جس کا اسلامی فلسفہ کے میدان میں وسیع کردار نہيں لکھا گيا اور اس کے بڑے علماء میں اس کے موسس شیخ اشراق سہروردی ہیں ۔

3-مکتب حکمت متعالیہ: جس کے بارے میں ہم یہاں بحث کرنا چاہتے ہيں اور جسے آج تک اسلامی دنیا میں مناسب مقام نہيں مل سکا، حالانکہ یہ کئي منفرد نظریات کی بدولت دوسرے مکاتب سے امتیاز رکھتا ہے اور وہ اس طرح کہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سابقہ دو مکاتب سے جدا ہے اور اس کے بڑے علماء میں اس کے مؤسس ملا صدرا اور اس کے آخری پیش رو علامہ محمد حسین طباطبائي ہيں۔

پس اگر ہم ملا صدرا کے پیش کردہ فلسفی اور حکمت کے معارف کی طرف رجوع کریں اور وہ پر مغز الفاظ کہيں جو ملا صدرا نے اپنی کتاب الحکمۃ المتعالیتہ فی الاسفارالعقلیتہ الاربعۃ میں پیش کئے ہیں تو اس کے نو اجزاء ہيں اس کتاب میں انہوں نے اپنی فلسفیانہ آراء اور نظریات کو جمع کردیا ہے اس طرح ہم پائيں گے کہ وہ اس عمومی فلسفی روش سے نہیں نکلے جس پر سابقہ دوسرے فلسفی مکاتب کے ماننے والے قائم تھے مگر ان کا اس عمومی روش اور اسلوب سے نہ نکلنا اس چيز کی نفی نہيں کرتا کہ ان کے خاص اور ممتاز نظریات نہيں تھے تاہم اس حقیقت کا کبھی کوئي انکار نہيں کرسکتا کہ ملا صدرا نے سابقہ اکثر فلاسفہ کی ان دو اصولوں میں مخالفت کی ہے :

1-اصالت وجود

2-حرکت جوہری

ان دونوں اصولوں کی بناء پر ان کے مکتب اور دوسرے فلسفی مکاتب میں کئي فلسفی مسائل میں اختلاف سامنے آیا ہے، جبکہ محدودیت کی وجہ سے ہم ملاصدرا کے عمومی فلسفی مکتب پر بحث نہیں کرسکتے بلکہ یہاں ہماری بحث ان دو اہم اصولوں پر ہوگی جن کے ذریعہ ان کا مکتب حکمت متعالیہ ممتاز ہوتا ہے اور وہ اصالت وجود ہے جس کو ہم مختصر شکل میں بیان کریں گے اور وسیع بحث کو دوسرے اصول یعنی حرکت جوہری کیلئےموزوں  قرار دیں گے کیونکہ اس کے نمایاں ہونے کو ہم اہمیت دیتے ہيں لہذا اسکے نتائج اور ثمرات کو بھی واضح کریں گے ۔

اصالت وجود

میلادی کیلنڈر کی سابقہ تاریخ کے زمانے سے انسان نے درک کیا ہوا ہے کہ جب اس نے خارج میں موجود اشیاء میں غور و فکر کیا کہ کسی چيز کا وجود اس کی حقیقت سے ایک سے زائد امر کا حامل ہے اسی لیے اگر ہم فلسفہ کی طرف رجوع کریں تو دیکھیں گے کہ وہ کسی چيز کی حقیقت کو لفظ ماہیت اور کسی چيز کے وجود کو لفظ وجود سے تعبیر کرتے ہيں ۔

جیسا کہ ہمارے سامنے سیب کا وجود حقیقت میں سیب کی اس ماہیت اور حقیقت سے مکمل طور پر مختلف ہے جو اس ماہیت میں سیب کی حقیقت کو واضح کرتی ہے جب فلاسفہ نے اس پر غور و فکر کیا تو اسے پایا کہ وہ کئی امور سے تشکیل پاتی ہے حتی کہ اگر وہ یکدم (دفعۃً)بدل جائے تو ہمارے سامنے سیب کی حقیقت باقی رہتی ہے پس ان امور کو اصطلاح میں عوارض کہتے ہيں اور مشہور فلاسفہ کے نظریہ کی بنیاد پر وہ کل نو عدد ہيں؛ جیسے سیب کا رنگ جو کیفیت عرض کے مقولہ کی طرف پلٹتا ہے اس طرح سیب کی تشکیل میں ایسے امور بھی ہیں کہ اگر ان میں یکدم تبدیلی ہو تو اسکے ساتھ سیب کی حقیقت بدل جائے گی اور ان امورکو اصطلاح میں جوہر کہتے ہيں ۔

اس بناء پر خارج میں موجود اشیاء پر جب فلاسفہ غور و فکر کرتے ہيں تو پاتے ہیں کہ وہ وجود اور ماہیت سے تشکیل پاتی ہيں اور ماہیت اعراض اور جواہر سے تشکیل پاتی ہے اور جوہر اس چيز کی وہ حقیقت ہے جس کےبدلنے سے ہمارے سامنے موجود کسی دوسری چيز میں بدل جاتی ہے جبکہ اعراض اگر جائيں تو اس چيز کی حقیقت ثابت اور باقی رہتی ہے ۔

جب فلاسفہ نے خارج میں ان اشیاء میں غور و فکر کیا تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے کچھ تکوینی آثار ہيں جو ان سے ظاہر ہوتے ہيں اور ان سے صادر ہوتے ہيں پس آگ جو ہمارے سامنے موجود ہے اسکا ایک اثر ہے جو اس کی تکوین کا تقاضا ہے اور وہ اس کا جلانا ہے اسی طرح سورج جو خارج میں موجود ہے اس کا ایک تکوینی اثر ہے اور وہ اس کا روشنی دینا ہے۔ پس یہیں سے فلاسفہ ایک اہم سوال کی طرف متوجہ ہوئے  اور وہ یہ ہے کہ تکوینی آثار جو خارج میں اشیاء سے صادر ہوتے ہيں کیا وہ اشیاہ کی ماہیت سے صادر ہوتے ہيں یا ان کے وجود سے منصہ شہود میں آتے ہيں ؟

جواب میں اکثر فلاسفہ نے یہ نظریہ دیا کہ یہ آثار اس چيز کی ماہیت سے صادر ہوتے ہيں نہ  کہ اس کے وجود کا کرشمہ ہيں  اور نتیجہ میں انہوں نے کہا کہ اصالت تو ماہیت کو حاصل ہے جبکہ وجود ایک اعتباری اور فرضی چيز ہے جبکہ ملا صدرا نے اس مقام پر ان سے اختلاف کیا ہے اور یہ نظریہ دیا ہے کہ تکوینی آثار خارج میں اس چيز کے وجود کو حاصل ہوتے ہيں نہ یہ ہے کہ وہ ماہیت سے وقوع پذیر ہوتے ہيں نتیجہ میں ملا صدرا نے فرمایا کہ اصالت تو وجود کو حاصل ہے اور ماہیت محض ایک اعتباری اور فرضی چيز ہے ۔

اس بناء پر ملا صدرا نے مشہور اسلامی اور یونانی  فلسفی مکاتب کے برعکس ماہیت کی بجائے وجود کی اصالت کا نظریہ  اپنایا چنانچہ ملا صدرا کا ماننا ہے کہ جس عنصر پر خارج میں آثار ظاہر ہوتےہیں وہ وجود ہے ،ماہیت نہیں ہے ۔یہاں اس بات کو اذہان کیلئے مزید واضح کرنے کیلئے ہم کہتے ہيں :

جب ہم خارج میں موجود کسی چيز کو دیکھتے ہيں جیسے آگ  جو چولہے میں ہمارے سامنے موجود ہو تو ہم ابتداء میں ملاحظہ کرتے ہيں کہ ہم اپنے حواس کے ذریعہ اس کو محسوس کرسکتے ہيں نتیجہ میں ہم یہ کر سکتے ہيں کہ اس کی حقیقت خارجی کا تصور تشکیل دیں جو دوسرے مرحلہ میں اس سوال کا جواب دینا ممکن بنائےگا کہ ہمارے سامنے موجود چيز کی حقیقت کیا ہے ؟ اور اس کی حقیقت کے بارے میں اٹھنے والے سوال کے جواب میں ہمارے لیے ضروری ہے کہ اس چيز کی حقیقت کو تشکیل دینے والے عناصر کا ذکر کریں؛ چاہے وہ عناصر ذاتی ہوں یا عرضی ہوں۔

پس کسی بھی چيز کی حقیقت کو تشکیل دینے والے عناصر فلاسفہ کی اصطلاح میں ماہیت کہلاتے ہيں جیسا کہ ہم نے اس کی وضاحت کردی ہے تو اس چيز کی ماہیت وہ ہے جو اس چيز کی حقیقت کے جواب میں ذکر کی جاتی ہے اور ہمارے نزدیک اسکی مثال چولہے میں  وہ آگ ہے تو ہم ملاحظہ کرتے ہيں کہ جو آگ ہمارے سامنے ہے اسے  ہم مختلف حواس سے محسوس کرتے ہيں اور اس کے نتیجہ میں ہمارے لیے ممکن ہے کہ اس کی صفت بیان کریں یا اس کی طرف کوئي حکم منسوب کریں تو وہ آگ عقلی تحلیل اور تجزیہ میں دو چيزوں سے تشکیل پاتی ہے :

1-ہمارے سامنے موجود آگ کی حقیقت جو مجموعہ عناصر سے تشکیل پاتی ہے وہ کچھ ذاتی ہيں جو اس سے جدا نہيں ہوسکتے اور اگر وہ اس سے جدا ہوں تو اس کی حقیقت ختم ہوجائے گي اور وہ بدل جائے گی اور بعض عناصر عرضی ہیں جن کا اس سے جدا ہونا ممکن ہے اور اس کی حقیقت بھی ختم نہيں ہوگی اس حقیقت کا خلاصہ وہی ہے جس کا نام  ہم نے بیان کیا کہ اسے ماہیت کہتے ہيں ۔

2-دوسرا ہمارے سامنے موجود آگ کا وجود ہے اور وہ آگ کی ماہیت سے حقیقت میں مختلف ہے اور اس کے بغیر ماہیت کا وجود خارجی حاصل ہونا ممکن نہيں ہے بلکہ وہ عدم کی صورت میں رہے گی اسی طرح ہم ملاحظہ کرتے ہيں کہ خارجی آگ کی حقیقت کیلئے ممکن نہيں ہے کہ کبھی وجود سے جدا ہو کیونکہ اگر وجود اور آگ کی حقیقت میں جدائي ہوجائے تو آگ کی حقیقت معدوم ہوجائے گی کیونکہ  نقیضین(ایک چيز کا وجود و عدم) بیک وقت اٹھ نہيں سکتی ہيں اور وہ خارج میں موجود آگ کی حقیقت کے خلاف ہے تو وہ آگ وجود رکھتی ہے اور ہمارے سامنے پائي جاتی ہے ۔

اس بناء پر ہم جس چيز کا بھی خارج میں وجود فرض کریں تو وہ دو عناصر سے تشکیل پاتا ہے :ماہیت اور وجود ، اس کو اسلامی اور یونانی فلاسفہ کے مشہور مکاتب تسلیم کرتے ہيں البتہ حکمت متعالیہ اور باقی فلسفی مکاتب میں اختلاف اس عنصر کی تشکیل اور تعیین میں ہے جس سے تکوینی آثار حاصل ہوتے ہيں ۔

آگ والی مثال پر تطبیق اس طرح ہے کہ اختلاف اس میں ہے کہ کیا جلانا جو آگ کا تکوینی اثر ہے وہ خارج میں آگ کے وجود سے حاصل ہوتا ہے یا وہ آگ کی اس ماہیت اور حقیقت سے حاصل ہوتا ہے جو وجود کے ضمن میں خارج میں پائي جاتی ہے تو جس نے وجود کی اصالت کا نظریہ اختیار کیا وہ آثار تکوینی کو وجود کا نتیجہ قرار دیتا ہے اور باقی فلسفی مکاتب  دوسرے نظریہ کے قائل ہيں اور وہ ماہیت کی اصالت کے قائل ہیں اورکہتے ہيں کہ آثار در حقیقت اس چيز کی ماہیت سے حاصل ہوتے ہيں اور  اس کے وجود سے صادر نہيں ہوتے۔

اس بناء پر ملا صدرا جنہوں نے پہلا نظریہ  اختیار کیا ان کا ماننا ہے کہ موجود جتنے بھی تکوینی آثار فرض کرناممکن ہيں وہ سب موجودات کے وجود سے منصہ شہود میں آتے ہيں نہ  کہ اس کی ماہیت کا کرشمہ ہيں لہذا جلانا آگ کے وجود کی برکت ہے اور یہ  اس کی ماہیت سے حاصل نہيں ہوتا اور دم گھٹنا دھوئيں کے وجود سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ دھوئيں کی ماہیت سے صادر ہوتا ہےچنانچہ انہوں نے اس کیلئے دلیلیں اور اصول بیان کئے ہيں جو ان کی کتاب الحکمۃ المتعالیتہ فی الاسفارالعقلیتہ الاربعۃ  میں پائے جاتے ہيں پس جو شخص ان کو جاننا چاہتا ہے وہ اس کتاب کی طرف رجوع کرے جبکہ باقی اسلامی فلسفی مکاتب کے قائلین دوسرے نظریہ کا انتخاب کرتے ہيں اور ان کا ماننا ہے کہ جلانا یا دم گھٹنا آگ اور دھوئيں کی ماہیت سے حاصل ہوتے ہيں نہ کہ ان کے وجود سے صادر ہوتے ہيں ہم اسی حد تک اس بحث کو محدود کرتے ہيں کیونکہ یہاں اس کی اتنی ہی ضرورت ہے اور باقی بحث کو دوسرے نظریہ حرکت جوہری کیلئےرو بہ عمل لاتے  ہيں ہماری رائے میں اس کو بیان کرنا اور اس کی وضاحت دینا اس پہلے نظریہ کی نسبت زيادہ موزوں ہے۔

نظریہ حرکت جوہری

ابتداء میں ہم اشارہ کردیں کہ بعض اذہان میں شبہہ ہوتا ہے کہ جب وہ حرکت جوہری کے مفہوم کو اس کے مصادیق پر تطبیق کرنے کی کوشش کرتے ہيں تو وہ تصور کرتے ہيں کہ ذرات اور ایٹم کے اجزاء کی مرکز کے گرد حرکات یا ستاروں اور سیاروں کی اپنے مدار میں حرکات ہی حرکت جوہری کےمصادیق ہیں جس کا نظریہ ملا صدرا نے دیا ۔

پس ذرات اور ایٹم کی حرکات جو الیکٹران کی مرکز کے گرد حرکت ہے یا اجرام سماوی کی ان کے مرکز یا محور کے گرد حرکت ہےاس سے وہ  حرکت جوہری مراد نہيں ہے جو کہ تمام مادی اجسام میں پائي جاتی ہے اور جس کو ہم بیان کرنا چاہتے ہيں اور صحیح ہے کہ ایٹم یا ستاروں میں بھی حرکت پائي جاتی ہے لیکن یہ وہ حرکت نہيں جو جوہر میں ہوتی ہے کہ وہ حرکت مکان اور اعراض میں ہوتی ہے لہذا وہ حرکت مکانی ہے اگرچہ اس میں کوئي حرج نہيں کہ ایک مادی وجود میں ایک ہی وقت میں کئی حرکات پائی جائيں جیسا کہ کرّہ زمین کی اپنے محور کے گرد حرکت ہے یعنی سورج کے گرد حرکت ہے اور کائنات کے محور کے گرد مرکز کے ضمن میں حرکت ہے۔ نیز اس لحاظ سے کہ یہ مادی جوہر ہے تو اس میں حرکت جوہری بھی پائي جاتی ہے نیز اس کے اعراض میں بھی حرکات واقع ہوتی ہیں پس  متحرک کا ایک ہونا دلالت نہيں کرتا کہ حرکت کا متعدد ہونا ممکن نہيں ہے اور اس کے نتیجہ میں وحدت متحرک کا نظریہ فرض یا لازم قرارنہیں  کہ حرکت کو بھی ایک مانا  جائے بلکہ ممکن ہے کہ متحرک ایک ہو اور حرکات متعدد ہوں جیسا کہ ہم نے کرّہ زمین کے بارے میں بیان کیا ہے۔

حرکت جوہری کے نظریہ کا تاریخی تسلسل

جیسا کہ فلسفہ کے میدان میں مشہور ہے اور جو کچھ ہم نے فلسفی کتب اور رسائل سے استفادہ کیا ہےخواہ وہ یونانی فلسفہ ہو یا اسکندری یا اسلامی نیز اسی طرح مغربی مکتب، ان سب کی بناء پر ہم یہ کہہ سکتے ہيں کہ ملا صدرا جوہر میں حرکت کے نظریہ میں سابقہ دور میں حرکت جوہری کے قائلین سے بڑی حد تک ممتاز ہيں کہ اس نظریہ کی نسبت خود ان کی طرف دینا سزاوار ہے اور اس بناء پر انہيں امتیاز کا حامل قرار دینا ممکن ہے کہ جب ہم ان کے اس نظریہ حرکت جوہری کی ترقی یافتہ نظریاتی بنیادوں کا مطالعہ کرتے ہيں جس سے ہم ان کے فلسفی نظریہ کی صفت بیان کرسکتے ہيں اور اس سے ہم پر واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنے نظریہ سے کس حد تک تمسک کرتے ہيں اور اس طرح اس نظریہ میں اپنی علمی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہيں اور ان کا یہ نظریہ آشکار کرتا ہے کہ ان کیلئے اس دور میں حرکت جوہری کا معاملہ کتنا واضح اور شفاف تھا کہ جب  اسلامی فلسفہ اسے وہم و خیال شمار کرتا تھا  بلکہ اس کے قائل افراد کو حکمت و فلسفہ سے بعید اور دور شمار کیا جاتا تھا اور ان کے اس نظریہ پر استقامت  کو بہتر طور پر شیخ رئیس ابن سینا کی عبارت بیان کرتی ہےجیسا  کہ وہ اپنی کتاب الشفاء میں فرماتے ہيں:

(بعض[ لوگوں] نے اپنے نظریہ میں تکبر سے کام لیا ہے اوروہ یہ کہتے ہيں کہ کچھ حصہ ثابت ہے اور کچھ حصہ سیال اور متحرک ہوتا ہے) ۔(1)

پس شیخ رئیس ابن سینا جو ملا صدرا سے کئي صدیاں پہلے کے ہیں وہ یہ خیال کرتے ہيں کہ جوہر میں حرکت کے واقع ہونے کا نظریہ فلسفہ کے میدان میں ایک قسم کا متکبّرانہ رویہ ہے ۔

لیکن ملا صدرا کے اس میں شجاعت دکھانے کے باوجودان کی جداگانہ فکر کا یہ معنی نہيں ہے کہ قدماء میں سے کوئي ایک بھی اس کاقائل نہیں تھا بلکہ خود شیخ رئيس ابن سینا اور ان کی سابقہ عبارت سے ہم پرواضح ہوتا ہے کہ اس نظریہ کے قائلین موجود تھے جیسا کہ  خود ملا صدرا بھی بیان فرماتے ہيں کہ ان سے پہلے جوہر کی ذات میں حرکت کا نظریہ موجود تھا بلکہ اس کے شواہد اور قرائن وہ خود بھی بیان فرماتے ہيں (2)۔

ہاں ، فلاسفہ کی کتب میں بحث اور غور و خوض کرنے سے ممکن ہے کہ ہم ان افراد کو پالیں جو اس نظریہ میں ملا صدرا کے ساتھ شریک تھے اور وہ فلسفی طبیب ابو بکر محمد بن زکریا رازی(3) ہیں کہ ان کا ماننا تھا کہ جسم کی ذات میں حرکت پائي جاتی ہے یعنی حرکت جسم کی ذاتی ہے جس کو ملا صدرا نے جوہر میں حرکت واقع ہونے سے تعبیر کیا ہے ۔

ابو بکر رازی نے ایک رسالہ تحریر کیا  تھا جس کا نام جسم میں حرکت ذاتی ہونا  قرار دیا  تھا اور انہوں نے اس کا عنوان رکھا تھا :  (مقالۃ فی ان للجسم تحریکا من ذاتہ و انّ الحرکۃ مبدءطبیعی)؛(4)لیکن دیگر کئي کتب کی طرح یہ رسالہ بھی ہم تک نہيں پہنچا ۔

اسی طرح جب ہم ملا صدرا سے پہلے جوہر میں حرکت واقع ہونے کے اشارۃ یا صراحت کے ساتھ قائلین کی طرف رجوع کرتے ہيں تو ہم پاتے ہيں کہ زینون اکبر وہ ہے جو کہتا ہے :

(موجودات باقی ہيں اور وہ زوال پذیر اور متحرک ہيں ، ان کی بقاء تو ان کی صورتوں کا جدید ہونا ہے اور ان کا زوال پہلی صورت سے دوسری صورتوں میں بدلنا ہے)۔(5)

 اس کا معنی ہے کہ جسمانی موجودات کو جب ہم ملاحظہ کرتے ہيں کہ ان کی صورتیں ادلتی بدلتی رہتی ہيں توہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہيں کہ وہ باقی ہيں اور جب پہلی صورت زائل ہو اور جدید صورتوں کے وارد ہونے کو دیکھیں تو ان سے یہ نتیجہ نکالنےمیں کوئي حرج نہيں ہے کہ وہ زائل اور نابود ہونے والی ہيں ۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ اگرچہ خود ملا صدرا نے اس مقام پر اس لیے نقل کیا کہ اس سے وہ  اس نظریہ کی تاریخ پر گواہ پیش کریں کہ وہ اس نظریہ کے حامل سب سے پہلے فرد نہيں ہیں کہ انہيں اس بحث میں نئي اختراع کا حامل  قرار دیا جائے مگر زنون کی طرف منسوب اس نظریہ سے یہ سمجھنا ممکن نہیں ہے کہ وہ جوہر میں حرکت واقع ہونے کے قائل ہیں بلکہ اس سے قریب تر نتیجہ  یہی اخذ ہوتا ہے کہ زنون اس معاملہ میں توقف اختیار کرتے ہیں  اور زوال و بقاء میں سے کسی ایک پہلوکو ترجیح نہيں دیتے تاکہ موجود جوہری کیلئے فعلی واقعیت یہی ہو ۔

نیز ہم ہراقلیطس کو یہ کہتے ہوئے پاتے ہيں کہ  حقیقت تغیر اور تبدل ہے اور کوئی بھی چيز ایسی نہيں ہے مگر یہ کہ وہ دائمی تغیر اور تبدل میں ہے اس طرح ان کی طرف  یہ مشہور قول منسوب ہے  کہ وہ فرماتے ہيں کہ جو چيز دریا میں داخل ہوتی ہے وہ ذات ہے اور اسے دوسرے پانی بہا لے جاتے ہيں تو انسان کیلئے طاقت نہيں کہ وہ ایک نہر میں دو بار داخل ہو ۔اس عبارت سے بطور اشارہ یا صراحت  یہ سمجھا جاتا ہے  کہ موجودات کی حقیقت حرکت اور تغیر ہے نہ کہ سکون اور ثبات لیکن یہ محض اشارہ یا صراحت ہے؛اس کی فلسفی بنیادیں بیان نہيں ہوئي  ہیں تاکہ اس کے نظریہ یا کامل رائے ہونے پر بحث ہوسکے ۔

اسی طرح جو رائے افلاطون کی طرف منسوب ہے اس سے بھی اس چيز کو سمجھنا ممکن ہے کہ جب وہ سمجھتے ہيں کہ موجودات مثل کی صورتیں ہيں اور مثل ثابت ہوتے ہيں وہ متغیر اور تبدیل نہيں ہوتے جبکہ موجودات ،خارجی عالم میں متغیر اور متحرک ہيں ۔

پس افلاطون کا خیال ہے کہ جو چيز ہمارے سامنے ہے جسے ہم دیکھتے ہيں اور حقیقت میں اس کو چھوتے ہيں وہ ایک صورت ہے جو اس کے دوسرے عالم میں موجود حقیقت کی تصویر ہے جس کو مثل کا نام دیتے ہيں پس اس بناء پر جن موجودات کوہم اپنے سامنے محسوس کرتے ہیں وہ تصاویر ہيں یا عالم مثل کا سایہ اور انعکاس ہیں اور عالم مثل حقیقت ہے جبکہ ہمارا یہ عالم تو حقیقت نہيں ہے بلکہ مثل کی حقیقت کا محض انعکاس ہے اس کا معنی یہ ہے کہ افلاطون کے نزدیک  ہمارے اس محسوس اور خارجی عالم کے دو قسم کے وجود ہيں:

صورتوں کا انعکاسی وجود

مثالی حقیقی وجود؛ نتیجہ یہ نکلتا ہےکہ ان کا یہ ماننا ہے کہ عالم مثل میں اشیاء کے جو حقائق ہوتے ہيں وہ ثابت ہیں اور اس میں حرکت نہيں ہے اور عالم مادی جو ان کے نزدیک محض عالم مثل کا سایہ ہے  وہ متحرک اور متغیر ہے ۔

اگرچہ معلم اول ارسطو کے مکتب کے بارے میں مشائي ہونا مشہور ہے مگر وہ جوہر میں حرکت واقع ہونے کی نفی کرتے ہيں  مگر ملا صدرا ان سے ایک عبارت نقل کرتے ہيں  جس سے حرکت جوہری کے معنی کے قریب استفادہ کرنا ممکن ہے اور وہ ان کا یہ قول ہے :طبیعت جسمانی جوہر سیال ہے اور تمام اجسام اپنی ذات میں زائل ہونے والے ہیں (منقول از: اسفار اربعہ، ملا صدرا ، ج3 ص 312- 313)

حقیقت یہ ہے کہ معلم اول کایہ نظریہ کہ جوہر جسمانی سیال ہے اور ذاتی طور پر زوال پذیر ہے تو اس سے مراد ملا صدرا کے نظریہ کے علاوہ بھی لیا جاسکتا ہے جو کہ مکتب مشّاء کے پیروکار سمجھتے ہيں حتی وہ ملا صدرا کے نظریہ کے برعکس مانتے ہيں ۔

شاید حرکت جوہری کے معنی والے مشہور ترین قول کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اگرچہ ان کے نظریہ کی عبارت ملا صدر کے فلسفی نظریہ سے بہت بعید نظر آتی ہے اور  وہ عرفاء اور صوفیاء کے اقوال ہيں جب وہ تجدد امثال یا عالم کی خلق متجدد کے قائل ہوتے ہيں۔

ان میں صوفیاء کے معارف کو نظریاتی طور پر بیان کرنے والے محی الدین محمد بن ہیں جو ابن عربی کے عنوان سے معروف اور مشہور ہيں ان کی کتاب فصوص الحکم میں ہے کہ  وہ فرماتے ہيں:

"عجیب ترین امر یہ ہے کہ انسان ہمیشہ ترقی میں ہے اور وہ اس کو نہيں سمجھتا کیونکہ لطیف(6) حجاب(7) پایا جاتا ہے اور صورتيں آپس میں مشابہت رکھتی ہیں"

 اس کا معنی یہ ہے کہ عجیب ترین امر اس کا شعور نہ ہونا ہے یا کہئے کہ عقل کا اس تجرد ، ترقی  اور انسان کی صعودی حالت کو نہ سمجھنا ہے کہ وہ اپنے مادی کمال میں بلوغ کی طرف جا رہا ہے کیونکہ ایک لطیف اور باریک حجاب پایا جاتا ہے اور ان صورتوں میں شباہت میں شدید قرب ہے جو اس کے مادہ پر وارد ہوتی ہيں ۔اس بناء پر ان کے بیان کا یہ خلاصہ کرنا ممکن ہے کہ انصاف یہ ہے کہ ملا صدرا سے پہلے بھی جوہر میں حرکت واقع ہونے کے قائلین موجود تھے مگر اس کی تکمیل اور تصریح نہيں کی گئي یا تو وہ اس کی مکمل فلسفیانہ طریقے سے وضاحت نہيں کرسکے اور  یا  پھر ہمیں اس نظریہ کی تصریح نہيں ملی اس لیے ملا صدرا کو واحد مسلمان فلسفی شمار کرتے ہيں جو تنہا اس نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے نظر آتےہيں ۔

حرکت جوہری کے منکرین

ہمیں اب تک جتنی بھی فلسفی کتب مل سکی ہیں ان کے مطابق تو ملا صدرا سے پہلے اکثر فلاسفہ اپنے مختلف فلسفی مکاتب میں جوہر میں حرکت واقع ہونے کے منکرہی  نظر آتے ہيں حتی  کہ جوہر میں حرکت نہ ہونے کامسئلہ مسلّمہ قضایا میں شمار ہوتا ہے کہ اس میں کوئي فلسفی مناقشہ یا اعتراض نہيں کرتا۔

اس حرکت جوہری کے بڑے منکرین میں معلم اول ارسطو ہيں اور ہمارے لیے یہی بات ترجیح رکھتی ہے اس طرح ان کے مکتب مشّاء کے یونانی اور مسلمان ماہرین بھی منکرین ہیں مسلمانوں میں شیخ الرئیس ابن سینا اور ان کے شاگرد بہمنیار ، فخر الدین رازي ، ان سے پہلے فارابی ،کندی ، اسی طرح ابن باجہ ، ابن رشد، علامہ حلی ، شیخ نصیر الدین طوسی بھی حرکت جوہری کے منکرین  میں سے ہیں نیز مذہب اشراق بھی جوہر میں حرکت واقع کے منکر ہيں اس کے رئیس اور موسس شیخ الاشراق بھی ان میں شامل ہيں ۔

حرکت جوہری کے منکرین کی دلیلیں

جوہر میں حرکت واقع ہونے کی نفی کرنے والوں نے اکثر  بعض ایسےدلائل پر انحصار کیا ہے کہ شاید وہ سب ایک ہوں لیکن ان کا اختلاف ان کی تعبیروں میں ہے یہ ہم ان کی اکثر کتابوں میں دیکھتے ہيں جن میں انہوں نے اس مسئلے پر بحث کی ہے ہم یہاں ان کی دو دلیلیں بیان کرنے پر اکتفاء کرتے ہيں تاکہ جوہر میں حرکت کی نفی کی دلیلوں کے شاہد اور گواہ بن سکيں ۔

پہلی دلیل

شیخ الرئیس اپنی کتاب الشفاء میں فرماتے ہيں ،ان کی عبارت یہ ہے :

 ہمارا یہ کہنا کہ جوہر میں حرکت ہوتی ہے یہ مجاز ہے کہ جوہر میں حرکت فرض نہيں کی جاسکتی کیونکہ جب طبیعت جوہری خراب ہوتی ہے تو یکدم ختم ہوجاتی ہے اور جب پیدا ہوتی ہے اور وجود میں آتی ہے تو یکدم وجود میں آتی ہے تو اس کی قوت محضہ اور فعلیت محضہ کے درمیان کوئی مرحلہ نہيں ہے کیونکہ صورت جوہری شدت اور نقص کو قبول نہيں کرتی کیونکہ اگر وہ شدت و نقص کو قبول کرلے تو معاملہ دو حالتوں سے خالی نہيں ہوگا یا تو جوہر کی شدت و نقص کےدرمیانی حالت میں اس کی  نوع باقی رہے گی یا نوع باقی نہيں رہے گي ؛

اگر اس کی نوع باقی رہے تو صورت جوہری تبدیل نہيں ہوگی بلکہ تغیر و تبدل فقط صورت اور شکل میں ہوگا تو جو ناقص تھا اور اب شدت میں آگیا تو وہ معدوم ہوگیا اور جوہر کبھی معدوم نہيں ہوتا تو یہ محال ہے یا کچھ اور ہے لیکن وجود میں نہيں ہے اور اگر جوہر شدت کے ساتھ جوہرباقی نہ رہے تو شدت میں دوسرا جوہر وجود میں آ گیا پس یہ اسی طرح ہے جب شدت کو فرض کیا جائے تو دوسرا جوہر وجود میں آئے گا اور پہلا جوہر باطل اور نابود ہوجائے گا۔

ایسے میں  ایک جوہر اور دوسرے جوہر کے درمیان بالقوہ غیر متناہی اور لا تعداد انواع جوہری کا امکان ہوگا جیسا کہ کیفیات میں ہوتا ہے حالانکہ معلوم اور یقینی  ہے کہ حقیقت اس کے خلاف ہے تو اس وقت صورت جوہر یکدم نابود ہوتی ہے اور یکدم وجود میں آتی ہے اور جس کی حقیقت اور صفت ایسی ہو تو اس کے مرحلہ بالقوہ اور مرحلہ فعلیت میں کوئی درمیانی مرحلہ یعنی حرکت نہيں ہوتی(8)۔

اس طرح بہمنیار نے اپنی کتاب التحصیل میں ذکر کیا ہے ، اس کی عبارت یہ ہے :

جان لو کہ  جو اضافہ یا کمی کو قبول نہيں کرتا جیسا کہ آپ جان چکے ہیں اور ہر حرکت ایسا امر ہے جو کمی یا زیادتی کو قبول کرتی ہے اور جوہر میں کسی قسم کی حرکت نہيں پائي جاتی تو جوہر کا وجود اور عدم حرکت نہيں ہے بلکہ یہ امر دفعی ہے اور جو امر دفعی ہوتا ہے تو اس کی قوت محضہ اور مرحلہ فعلیت محضہ کے درمیان کوئي کمال متوسط نہيں ہوتا کیونکہ جوہر میں اگر شدت اور نقص کی اہلیت ہو تو یا شدت و نقص کےدرمیان اس کی نوع باقی رہے گی یا  اس کی نوع باقی نہیں رہے گی ؛

پس اگر اس کی نوع باقی رہے تو اس کی ذات کی صورت جوہر تبدیل نہ ہوگی بلکہ اس صورت جوہر کا عرض اور صفت تبدیل ہوگی تو یہ محال ہے نہ کہ وجود ہے ، اور اگر جوہر شدت کے مرحلہ میں باقی نہ رہے تو شدت میں دوسرا جوہر وجود میں آئے گا اور اس طرح فرض کیا جائے گا کہ شدت میں دوسرا جوہر وجود میں آیا ہے اور ایک جوہر اور دوسرے جوہر کے درمیان بالفعل غیر متناہی اور لا تعداد انواع کے وجود میں آنے کا امکان ہوگا اور یہ جوہر میں محال ہے ۔

یہ تو سیاہی ،صفت عرضی میں ممکن ہے کہ بالقوہ غیر متناہی اور لا تعداد انواع پیدا ہوں کہ وہ بالفعل امر موجود ہے اس کا موضوع بالفعل امر موجود ہے یعنی جسم جبکہ جوہر جسمانی میں یہ ہرگز صحیح نہيں ہے کہ وہ بالفعل امر نہ ہو جب جوہر میں حرکت کو فرض کیا جائے (9)۔

ان کی دلیل کا یوں خلاصہ کرنا ممکن ہے کہ جوہر میں حرکت واقع ہونے کے نظریہ سے لازم آتا ہے کہ ہم فرض کریں کہ جوہر حرکت کےمرکز میں ہونے کے لحاظ سے اگرباقی ہے جیسا کہ وہ حرکت سے پہلے تھا تو یہ حرکت جوہری نہيں ہوئي بلکہ علیحدہ صفت میں حرکت اور تبدیلی ہوئي اور  وہ جوہر پہلے کی طرح باقی نہيں ہے تویہ حرکت نیا جوہر وجود میں لے آئی اور اس نے پہلے جوہر کو نابود کردیا تو  پھر یہ حرکت نہيں بلکہ یہ وجود یا عدم ہے ۔

اسی طرح اس نظریہ کے لوازم باطل میں سے سمجھتے ہيں کہ حرکت جوہری کے نظریہ سے لازم آتا ہے کہ فرض کریں کہ جوہر میں ثبات اور پائيداری نہيں پائي جاتی یعنی حرکت کا موضوع ثابت نہيں ہے اس سے لازم آتا ہے کہ جوہر کیلئے عرض ثابت ہونا ممکن نہيں ہوگا اور یہ حقیقت اور واقعیت کے خلاف ہے کیونکہ عوارض تو جوہر پر قائم ہوتی ہيں ۔

اس مرحلے پران کی دلیل کو رد کرتے ہوئے ہم کہتے ہيں کہ :یہ دلیل حرکت کے مفہوم کے غلط تصور کی بنیاد پر قائم ہے کیونکہ وہ حرکت کو ان اعراض خارجیہ میں سے سمجھتے ہيں جن کیلئے بدیہی طور پر ایک ایسے معین اور مستقل موضوع کی ضرورت ہوتی ہے جو اس  حالت میں  ثابت رہے جب اس پر حرکت واقع ہو نتیجہ یہ ہے کہ ہم حرکت کو اس کی طرف اس عنوان سے نسبت دیں کہ وہ اس کی صفت اورعرضی ہو یہ حرکت اعراض خارجیہ کے مقابلے میں کوئي علیحدہ عرضی نہيں ہے؛ یعنی یہ معقولات ماہریہ میں سے نہيں ہے یہ معقولات ثانویہ فلسفیہ میں سے ہے پس نتیجۃً یہ وجود کے عوارض تحلیلی میں سے ہے اس قسم کے مفاہیم کو اس معنی میں موضوع کی ضرورت نہيں ہوتی جس کو اعراض کیلئے ثابت کیا گيا ہے اس بناء پر اس کا منشاء انتزاع اعتبار کرنا ممکن ہے جو خود جوہر ہے یا عرضی سیال اس کا موضوع ہے ۔

دوسری دلیل

شیخ الرئیس ابن سینا نے اپنی کتاب النجاۃ میں ذکر کیا ہے اس کی عبارت یہ ہے :

 ہر وہ چيز جس کا تقاضا کسی چيز کی طبیعت اپنی ذات کیلئے کرتی ہے تو اس کا اس چيز سے جدا ہونا ممکن نہيں ہے ورنہ طبیعت فاسد اور نابود ہوجاتی ہے اور حرکت کا ہر جزء حرکت کیلئے فرض کیا جاتا ہے اور  زمانے یا مسافت کی تقسیم سے اس کا جدا ہونا ممکن ہے جبکہ طبیعت بھی باطل اور نابود نہ ہو تو ہر حرکت جو جسم میں متعین ہوتی ہے ممکن ہے کہ وہ جدا ہو اور طبیعت بھی نابود اور باطل نہ ہو؛ پس کسی قسم کی حرکت متحرک چيز کی طبیعت کا تقاضا نہيں کرتی اور اگر ایسی طبیعت موجود ہو جو حرکت کا تقاضا کرتی ہے تو وہ اپنی حالت طبیعی پر نہيں ہوگی بلکہ وہ حرکت کرتی ہے تاکہ اپنی طبیعی حالت کی طرف لوٹ جائے اور کامل ہوجائے پس جب وہ حالت کمال کو پہنچ ہو جائے تو حرکت کاموجب اور سبب بھی اٹھ جائے گا (10)۔

ہم اس دلیل کو درج ذیل طریقے سے قیاس منطقی بنا سکتے ہيں :

حرکت کا ہر جزء جو زمان یا مسافت کی تقسیم سے حاصل ہوتا ہے اس کا خود  طبیعت سے جدا ہونا ممکن ہے اور ذات بھی نابود نہيں ہوگی جبکہ ہر وہ چيز جو کسی چيز کی طبیعت ذاتی کا مقتضی ہو اس کا جدا ہونا اس وقت تک ممکن نہيں جب تک طبیعت نابود نہ ہوجائے۔

 حرکت اشیاء کی طبیعت اور ان کے جوہر کا تقاضا نہيں ہے ۔

اس دلیل کی ردّ میں ہم کہتے ہیں کہ :پہلے مقدمہ میں اعتراض اور اشکال پایا جاتا ہے کہ شیخ رئیس نے حرکت کو زمان یا مسافت کے لحاظ سے مختلف اجزاء میں تقسیم ہونے کو ممکن قرار دیا ہے جس کے نتیجہ میں وہ حرکت کے اجزاءکو کسی چيز کی طبیعت کی ذات سے جدا ہونے کے امکان کو پیش کرتے ہيں اور  یہ وہ چيز ہے جسے حکمت متعالیہ کے مکتب میں قبول نہيں کیا گیا  ؛کیونکہ وہ حرکت کو مختلف اجزاء میں تقسیم کرنے کو ناممکن سمجھتے ہيں اور اس کے کسی جزء کو طبیعت سے جدا کرنا محال جانتے ہيں کیونکہ حقیقت میں حرکت ایک متصل امر ہے جو قوت سے فعل کی طرف نکلنے سے وجود میں آتی ہے یعنی حرکت کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چيز کے جوہر کاوجود سیلان میں ہو نتیجہ میں اس کو کسی چيز کی ذات سے جدا کرنا ممکن نہيں ہے نیز اس لحاظ سے کہ حرکت پے در پے وجود میں آنے والی حقیقت  ہے  تو اس کا کسی حالت میں تجزیہ اور تحلیل اور تقسیم کرنا ممکن نہيں ہوگا۔

حرکت جوہری کی تعریف

ہم نے حرکت جوہری کے مفہوم کی بحث میں اس نظریہ کی اصطلاح تعریف نہيں دیکھی شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہم اس موضوع کی تمام کتابوں کا مکمل مطالعہ نہ کرسکے ہوں ؛کیونکہ یہ امر ناممکنات میں سے ہے یااس پراس حوالے سے کوئی کتاب  نہيں لکھی گئی کہ اس کو مستقل بحث قرار دیا گیا ہو ۔

بہرحال جو کچھ ہم نے کتب کی طرف رجوع کے وقت دیکھا اس بحث کو علماء نے مختلف بحثوں کے ضمن میں ذکر کیا ہے اور اس کے متعلق مستقل بحث نہيں کی جو اس کی تمام جہات اور مفردات کی وضاحت کرتی ہو ۔

اس کے باوجود ہمارے لیے ممکن ہے کہ ہم اس کی عمومی تعریف کریں تاکہ اس سے سمجھنا آسان ہوجائے ۔ہم کہتے ہيں کہ(حرکت جوہری موجودات جسمانی ممکن الوجود کی وہ حرکت ہے جس میں ان کا وجود کمال جسمانی کی طرف رواں دواں ہوتا ہے)۔

 ہم نے اس کے وجود کے لحاظ سے حرکت کی قید اس لیے ذکر کی ہے تاکہ یہ نہ سمجھا جائے کہ حرکت جو موجود کے اوپر واقع ہوگی وہ اس کی ماہیت ہونے کے لحاظ سے واقع ہوگی کیونکہ یہ درست نہيں ہے اور ملا صدرا کا نظریہ یہ ہے کہ اصالت وجود کو حاصل ہے نہ کہ ماہیت اصل ہے یہ بہت سے فلاسفہ کے متفقہ اور مسلمہ نظریہ کے خلاف ہے اور ہم نے پہلے ہی  اس کی وضاحت کر دی ہے تو ملا صدرا کے نظریہ کے مطابق کہ اصالت وجود کو حاصل ہے نہ ماہیت اصل ہے جبکہ ماہیت موجود کا ایک عنوان اور نام ہوتا ہے  اور اس سے زیادہ کچھ  نہيں ہوتا پس  ممکن نہيں ہے کہ حرکت ماہیت میں واقع ہو ۔

حرکت جوہری کا مفہوم

جوہر میں حرکت واقع ہونے کے مفہوم کی بحث کرنے سے پہلے لازمی ہے کہ ہم جان لیں کہ اولا ًمقولہ سے مراد محمول ہوتا ہے اورمقولہ سے مراد فلسفہ میں مجموعہ معقولات کلی ہوتے ہيں جو موجود کے وجود کو ذہن میں اس طرح تشکیل دیتے ہيں کہ وہ خارجی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے تب وہ اس شخص کیلئے ذہن میں موجود کا وجود کو اس طرح احاطہ اور تصویر کشی کرتے ہيں جو خارج میں اس کے افراد کو مشاہدہ کرتا ہے کہ وہ حقائق ذہنی علمی ہوتے ہيں اور  خارج میں موجود کے وجود کا اس طرح احاطہ اور تصویر کشی کرتے ہيں کہ اس کے مصادیق کو دیکھنے والا خارج میں ان کے وجود کی تطبیق کرتا ہے تو یہ مسلمان فلاسفہ کے ہاں معقولات فلسفی اوّلی ہوتے ہيں اور کانٹ اور رینون کے نزدیک معقولات ثانوی فلسفی کہلاتے ہيں ۔

ثانیا ً  اس مقام پر حرکت سےمراد وہ حرکت ہے جو جوہر میں واقع ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جو  ایک چيز کا قوت سے فعل کی طرف تدریجی طور پر رواں دواں ہونا ہے اور جو حرکت جوہر میں واقع ہوتی ہے اسے اصطلاح میں حرکت قطعی کہتے ہيں یعنی وہ حرکت جسے ہم متحرک کے لحاظ سے دیکھتے ہيں کہ وہ ہر آن اور زمان میں اپنے سابقہ وجود کے علاوہ ہوتی ہے ۔

ثالثا  ً  جوہر وہ موجود ہے جب وہ وجود میں آتا ہے تو کسی موضوع میں وجود میں نہیں آتا بلکہ موضوع سے بے نیاز ہوتا ہے اور اس کی پانچ صورتیں ہيں جن کو اصطلاح میں عقل ، نفس ، جسم ، مادہ اور صورت کہتے ہيں اسی بناء پر حرکت جوہری کے مفہوم کو بیان کرنےکیلئے ہم کہتے ہيں کہ جوہر کی پانچ اقسام میں سے جس قسم میں حرکت واقع ہوتی ہے وہ مادہ اور صورت سے مرکب ہے نتیجہ میں موجودات ممکنہ مادیہ کے جواہر مسلسل حرکت میں ہيں اور سیال ہيں جن کا تکامل کی طرف سفر کبھی تھمتا نہيں ہے مگر یہ کہ جب حرکت اپنی  پوری طاقت کا نفاذ کرلے اور آخری کمال کو پہنچ جائے ۔

 ذہنوں میں اس کے تصور کو مزید  آسان کرنے کیلئے اور اس کی بہتر تصویر کشی کرنے کی خاطر ہم درج ذیل مثال بیان کرتے ہيں تاکہ وہ دوسرے مرحلہ میں ہمیں حرکت جوہری کے مفہوم کو کامل طور پر سمجھنے میں مدد دے پس اگر ہم انسان کے وجود میں آنے کےان مراحل پرغور کریں جو جوہر جسمانی کا مصداق ہیں کہ  جب سے وہ نطفہ تھا حتی کہ وہ اپنی حرکت کے آخری مرحلہ کے نفاذ تک پہنچ گیا یعنی ہم جانتے ہيں کہ اس کا مادہ کئی مراحل سے گزرا ، مثلا  ً نطفہ ، لوتھڑا ، گوشت کا ٹکڑا ، گوشت سے ڈھکی ہوئی ہڈیاں ، انسان بالفعل ، شیر خوار بچہ ، لڑکا ، جوان ، مرد، ... الخ اس طرح ہم ملاحظہ کرتے ہيں کہ  ہر مرحلہ میں اس مادے کی   صورت اس کے سابقہ مرحلہ کی صورت سے جدا ہے ؛کیونکہ اس صورت میں تغیر اور تبدل حقیقت میں حرکت کی طرف پلٹتا ہے اور مادہ میں ہونے والی تبدیلی  اس کا سبب ہے ۔

اس بناء پر مادہ اورصورت میں تغیر اور تبدل کو فرض کرنا یعنی یہ کہ حرکت کا وجود جو نطفہ والے مرحلہ سے شروع ہوا وہ  اس کی طاقت کی انتہاء پر رکے گا اور یہ حرکت ،کمال کی طرف ارتقاء کی حرکت ہے یعنی حرکت تطور اور کمال ،یعنی ہر سابقہ مرحلہ  ،لاحقہ مرحلہ سے کمال میں کمتر ہے بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مادہ بعد والے مرحلہ کی طرف حرکت میں ایک د وسرے کو حاصل کرنے کیلئے متحرک اور کوشاں ہيں جو سابقہ مرحلہ میں اس میں نہيں پایا جاتا ۔

پس ہم نے جان لیا ہے کہ ہماری مثال میں حرکت کی جہت ارتقاء اور بلندی کی طرف ہے نتیجہ میں یہ حرکت کمال کی طرف حرکت تطوری ہے چنانچہ تمام مراحل میں مادہ کو ملاحظہ کیا گیا تو تمام مراحل میں مادہ کو ملاحظہ کرنے والا سمجھ سکتا ہے کہ جو بعد والے مرحلہ میں بیشتر عناصر پائے جاتے ہيں وہ مادہ انسان کی فعلیت پیدا کرنے میں مدد گار ہوتے ہيں۔  پس اگر ہم فرض کریں کہ انسان بالفعل ہونے کا مرحلہ آخری مرحلہ ہے جس تک اس کا مادہ پہنچ سکتا ہےتو پھر ہم انسان کے اس مادہ کی طرف پلٹیں گے جو نطفہ کے مرحلہ میں ہوتا ہے اور اس کا تقابل اس کے لوتھڑا ہونے کے مرحلہ سے کریں گے جو اس کے بعد والا مرحلہ ہے تب ہم دیکھیں گے کہ انسان کا مادہ اس میں اس قدر ہے جو اس کے بعد والے مرحلہ کو قریب تر لانے میں مددگار ہے نتیجہ یہ ہے کہ وہ ان عناصر پر مشتمل ہے جو اسے بعد والے مرحلہ کا لباس اوڑھنے میں سابقہ مراحل کی نسبت قوی تر استعداد بخشتے ہیں ۔

سابقہ بیانات کی بنیادپر ایسی حرکت کے وجود کا نظریہ  جو ہر جو ہر جسمانی میں واقع ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو؛ چاہے وہ بڑا ہو یا چھوٹا،  اس کے معنی ہیں کہ ہر جوہر جسمانی اپنے اندر مفقود کمالات کو حاصل کرنے کی طرف حرکت ذاتی تطوری کی صلاحیت رکھتا ہے۔مزید یہ کہ  اس کےمعنی ہیں  کہ بورڈ، پہاڑ، سیب جو ہم اپنے سامنے دیکھتے ہيں وہ  اپنے جوہر کے لحاظ سے وہی نہيں جن کو ہم نے کچھ دیر بعد حواس کے ذریعہ دیکھا ہے اور جس کو کچھ دیر بعد دیکھنا ہے یعنی وہ جوہر کے لحاظ سے وہی نہيں جس کو میں ایک دن بعد دیکھوں گا۔ پس اس طرح حرکت جاری ہے یہاں تک کہ  اس بورڈ یا پہاڑ یا سیب کی صورت کلی طور پر تبدیل ہوجائے ۔

حرکت جوہری کے مفہوم کے مطابق عالم جسمانی تمام کا تمام اپنے مرکبات کے اجزاء میں متحرک اور مسلسل متغیر ہے۔ وہ ساکن اور ثابت نہيں ہے ۔ جیسا کہ ابتدائی نظر میں سمجھا جاتا ہے یا جیسا کہ اکثر اذہان میں اس طرح ظاہر ہوتا ہے مجھے زندگی کی قسم !کہ اس کا اسٹالین اور اس کے مارکسی نظریہ کے پیروکاروں کےاس دعوی سے کوئی تعلق نہيں کہ  جب وہ کہتے ہيں :

(دیالکیتک ،میٹافیزک کے خلاف طبیعت کو حالت سکون اور جمود میں نہيں سمجھے جو  جمود اور استقرار کی حالت میں ہے بلکہ اسے دائمی حرکت اور تغیر کی حالت میں سمجھتے ہيں یہ تجدد اور تطور کی حالت ہے جو کبھی ختم نہيں ہوتی )۔

بلکہ عالم مادی کے تمام مرکبات اور اجزاء کےساتھ تطور اور تجدد کا نظریہ اسلام میں فیزک مکتب کے مقولات اور نظریات میں سے ہے قبل اس کے کہ خود اسٹالین کے مادہ پر حرکت واقع ہوتی اور وہ اسے عالم قوت سے عالم فعل میں لاتی ۔

شاید فلاسفہ متقدمین کی اکثر یت کے حرکت جوہری کے انکار کی وجہ یہ ہو کہ انہوں نے ہر مرحلہ میں صورتوں کے اختلاف کو دیکھا تو کہنے لگے کہ ہر مرحلہ میں مادہ جب حرکت کے ذریعہ دوسرے مرحلہ کی طرف جانا چاہتا ہے تو سابقہ مرحلہ کی صورت کو چھوڑ دیتا ہے اور بعد والے مرحلہ کی صورت کو اپنا لیتا ہے ؛یعنی پہلی صورت ختم ہوجاتی ہے اور دوسری صورت پیدا ہوتی ہے مگر ملا صدرا نے اس کو ملاحظہ نہيں کیا بلکہ یہ دیکھا ہے کہ مادہ ایک صورت کو بدل کر دوسری صورت اختیار نہيں کرتا حتی کہ ایک کے بعد دوسری صورت اختیار کرتا چلا جاتا ہے؛ یعنی ایک کے بعد دوسرا بھیس بدلتا ہے اور نہ پہلا چھوڑ کر دوسرا بھیس اختیار کرتا ہے، جیسا کہ حرکت جوہری کے منکرین نے خیال کیا ہے ۔

حرکت جوہری کی دلیلیں

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ملا صدرا نے اپنے نظریہ حرکت جوہری کی دلیل و برہان پیش کرنے کے مقام پر دو قسم کی دلیلوں سے استناد کیا ہے : اول ،عقلی فلسفی دلیل ، دوم: منقول قرآنی دلیل

ہم یہاں دونوں قسم کے دلائل  میں سے چند اہم دلائل  کا ذکر کرتے ہیں اور اس میں ان کی تصنیف الحکمۃ المتعالیتہ فی الاسفار العقلیتہ الاربعۃ پر اعتماد کریں گے اسی طرح اس پر بھی اعتماد کیاجائے گا جو حکمت متعالیہ کے دوسرے علماء نے اس کی تکمیل کرکے ترتیب دی ہے ۔

پہلی دلیل

عرضی حرکات طبیعت جوہری کی معلول ہیں۔

 اور حرکت کی طبیعی علت کیلئے لازم اور ضروری ہے کہ وہ بھی متحرک ہو۔

 نتیجہ میں جوہر جو حرکات  عرضی کی علت ہوتا ہے ضروری ہے کہ وہ بھی متحرک ہو (11)۔

اس کی وضاحت ہم اس طرح کرتے ہيں کہ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ جب فلاسفہ نے حرکت کے مفہوم کے بارے میں بحث کی کہ حرکت کے فاعل قریب کیلئے لازم ہے کہ وہ بھی متحرک اور متغیر ہو اسی طرح اس سے پہلے جوہرکے متعلق بحث میں یہ بھی  ذکر ہوچکا کہ جب جوہر کے متعلق بحث کی گئی کہ جوہر ہی اعراض کے وجود کی علت ہے اس بناء پر ان دونوں اقوال کی رُو سے لازم آتا ہے کہ جوہر میں حرکت پائي جائے تاکہ وہ اعراض کی حرکت کی علت بن سکے ۔

اس کو ہم قیاس منطقی کی صورت میں  بھی دے سکتے ہيں :

کہ اگر جواہر اعراض کے وجود میں آنے کی علت ہیں تو وہ بھی متحرک اور متغیر ہونگے۔

لیکن وہ اعراض کے وجود کی علت ہيں ۔

نتیجہ: جواہر خود بھی متحرک اور متغیر ہيں ۔

کبھی کبھی  اس دلیل پر بعض اشکالات اور اعتراضات بھی کئے جاتے ہيں :

1)جب ہم آپ سے اتفاق کر  لیں کہ متغیر کی علت کیلئے ضروری ہے کہ وہ بھی متغیر ہو اور اسے ایک عمومی قاعدہ اور قانون کے طور پر  بھی مان لیں تو اس سے لازم آئے گا کہ اس قاعدہ کے تحت جواہر کی علت بھی متغیر ہو ، اور اگر  اس بناء پر جواہر کی علت بھی متغیر ہوگي تو پھر ہمیں ماننا پڑے گا کہ مبدا اول اور مجردات بھی متغیر ہوں  اور کیونکہ یہ حقیقت کے خلاف  ہے؛ لہذا اس کو آپ ہرگز قبول نہيں کرسکتے ،پس نتیجہ یہ ہوا کہ یہ کہنا ہی باطل ہے کہ متغیر کی علت کو متغیر ہونا لازم ہے (12)۔

اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں ہم متغیر کی علت کے متغیر ہونے کو لازمی سمجھتے ہیں اور اس نظریہ پر قائم بھی ہیں ؛لیکن مبدا اول اس قانون اور قاعدہ سے خارج ہے کیونکہ جواہر کی حرکت ذاتی ہے یعنی جوہر میں پائي جانے والی حرکت خود جوہر کے وجود کا حصہ ہے یعنی جوہر جب وجود میں آتا ہے تو اس میں حرکت بھی موجود ہوتی ہے یعنی جوہر کو ایجاد کرنا اس میں وجود عطاء کرنایہ اعراض کے خلاف ہے کہ وہ اپنے اور مبدا اول کے درمیان واسطوں کی محتاج ہے؛ تاکہ وہ ان کی علت بن سکیں (13)۔

2)اگر یہ مان لیا جائے کہ اعراض کی حرکت جوہر کی حرکت کو لازم ہے کیونکہ واضح ہے کہ وہ ان کی علت ہے اور آخری میں حرکت ذاتی ہے تو کیا رکاوٹ ہے کہ حرکت ذاتی کی نسبت عرض کی طرف بھی دی جائے اور اسے جوہر کی طرف نہ پلٹایا جائے(14) ۔

اس کا جواب یہ ہےکہ جب ہم جوہر کی طرف ذاتی کی نسبت دیتے ہیں تو یہ نسبت مبنا اور اساس کی تبدیلی نہيں ہے؛ جیسا کہ بعض لوگ خیال کرتے ہيں ،بلکہ یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ  وجود استقلالی کی اقسام میں سے ایک قسم ہے اور یہ عرض کے خلاف ہے جس کے وجود میں استقلال نہيں ہوتا ۔

نیز صلاحیت نہيں رکھتا کہ ہم اس کی طرف ذاتی کی نسبت دیں کیونکہ وہ جوہر کے وجود کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے تو اس کا جوہر کے وجود کےمراتب میں سے ایک مرتبہ ہونے کا معنی یہ ہے کہ اس کا وجود جوہر کے وجود کے ساتھ حاصل ہوتا ہے اس بناء پر ذاتی کی جوہر کی طرف نسبت عرض کی طرف اس کی نسبت دینے سے اولویت رکھتی ہے (15)۔

یہاں بر سبیل تذکرہ عرض کرتے ہيں کہ یہ نظریہ کہ عرض جوہر کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے اس نظریہ پر مبنی ہے کہ وہ وجود اصالت رکھتا ہے جس کے بارے میں ہم نے بحث کے شروع میں بیان کردیا ہے ۔

دوسری دلیل

اعراض کا وجود مستقل وجود نہيں ہے ، بلکہ یہ جوہر کےوجود کے مختلف حالات ہیں ؛یعنی پہلےانکی  ایک حالت ہے یا کہیں کہ اس کے وجود کے مراتب میں سےایک مرتبہ ہے اس بناء پر اعراض میں جو بھی تغیر آتا ہے وہ دلالت کرتا ہے  اور آشکارکر تا ہے کہ جوہر میں تغیر اور تبدیلی واقع ہوئی ہے یعنی اعراض میں جوبھی تغیر اور تبدل ہوتا ہے وہ اس بات کی علامت اور نشانی ہے کہ جوہر کی ذات اور باطن میں تغیر اور تبدیلی واقع ہوئي ہے ۔ اس بناء پر جب اعراض متغیر اور متجدد ہیں تو لازم ہے کہ ان کے جواہر بھی متغیر اور متجدد ہوں(16)۔

تیسری دلیل

یہ دلیل زمانے کی حقیقت کی اس تعریف پر مبنی ہے کہ کہ وہ مادی موجودات کی ابعاد (17)اور جہات میں سے ایک سیّال اور پے در پے وجود میں آنے والی ایک جہت ہے ؛ اس کو قیاس منطقی کی صورت میں پیش کرنا ممکن ہے :

ہر مادی موجود زمانے کی صفت پرمشتمل ہے اور اس کی ایک جہت زمانے کے لحاظ ہے ۔

ہر وہ موجود جس میں زمانے کی جہت پائي جائے وہ وجود کے لحاظ سے تدریجی ہوتا ہے ۔

نتیجہ :جوہر مادی موجود ہے اور اس کی زمانے کے لحاظ سے جہت پائي جاتی ہے پس وہ بھی وجود میں تدریجی ہے ۔

اس کی وضاحت اس طرح اس وجہ سے ہے کہ مادی موجود زمانی معیارات سے قیاس کے قابل ہے اور ہروہ چيز جو کسی خاص معیار سے قیاس ہو سکتی ہے ان میں ہم جنس ہونے کی صفت پائي جاتی ہے اور جب تسلیم کرلیا جائے کہ وہ جو موجودات مادی میں سے ہے اور ہر مادی وجود کیلئے حالت زمانی پائی جاتی ہے اورحالت زمانی ایک سیال اور پے در پے وجود میں آنے والی حقیقت ہے اور مادی موجود اور حالت زمانی میں یگانگت پائی جاتی ہے اس بناء پر جب ان دونوں میں یگانگت ہوتی ہے نیز حالت زمانی ایک سیال اور پے در پے وجود میں آنے والی حقیقت ہے تو پھر ضروری ہے کہ جوہر بھی ایک  سیال حقیقت ہو یعنی بتدریج وجود میں آنے والا ہو۔ پس  یہ حرکت جوہری کا معنی ہے ۔

یہ دلیل حکمت متعالیہ کے مکتب کے بعض علماء کے نزدیک حرکت جوہری کے نظریہ کی قوی ترین عقلی دلیلوں میں سے ہے اس کی گواہی کیلئے ہمیں  علامہ مصباح یزدی  کی کتاب المنہج الجدید لتعلیم الفلسفۃ کا بیان کافی ہےجس کی عبارت یہ ہے:

 ہمیں اس دلیل پر کوئي اعتراض  ذہن میں نہيں آیا(18)۔

 اس دلیل کے ساتھ ہی ہم  اس نظریہ کی عقلی فلسفی دلیلوں کو ختم کرتے ہيں اور اس کی نقلی دلیلوں کی بحث کی طرف بڑھتے ہيں:

منقول قرآنی دلیليں

ملا صدرا نے اس شخص کے جواب میں منقول دلیلوں کو پیش کیا ہے جو ان پر تہمت لگاتا ہے کہ حرکت جوہری کا نظریہ ایک نئے نظریہ اور مذہب کی ایجاد اور بدعت ہے اور یہ کہ  اس کا کوئی حکیم اور فلسفی قائل نہيں ہے  چنانچہ  وہ اپنی کتاب میں فرماتے ہيں،  جس کی اصل عبارت یہ ہے:

'' جس نے سب سے پہلے حرکت جوہری کو بیان کیا وہ خداوند کریم کی ذات ہے اور اس نے اپنی کتاب قرآن کریم میں اسے بیان کیا ہے ، اور وہ بہترین حکم کرنے والا ہے ''۔

تاہم انصاف کا تقاضا ہے کہ ہم نشاندہی  کریں کہ جن آیات سے ملا صدرا نے اپنے مطلوبہ نظریہ کیلئے استدلال کیا ہے جب ہم ان کو دیکھتے ہيں اور ان کے مفردات اورالفاظ پر غور و فکر کرتے ہيں تو ان  میں سے بعض کی دلالت حرکت جوہری کے مفہوم اورمعنی سے مختلف  ہے ؛ بلکہ ممکن ہے کہ ہم پائيں کہ بعض آیات کی حرکت جوہری کے نظریہ پر اصلا ًدلالت ہی نہيں  کرتی ہیں ؛ جیسا کہ ہم آگے جاکر  اس کی وضاحت کریں گے ۔

پہلی آیت

خداوند کریم کا فرمان ہے: آپ پہاڑوں کو جامد سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بادلوں کی طرح حرکت میں ہيں ۔(19)

اس آیت کا حرکت جوہری میں ظہور بعید ہے کیونکہ آیت کی نص کےقریب ترین ظہور اور معنی حرکت مکانی ہے یعنی پہاڑوں کی حرکت زمین کی اپنے گرد حرکت کی پیروی میں ہے نا کہ اس سے حرکت جوہری  مراد ہے خصوصا ًجب خداوند کریم نے اپنے فرمان میں پہاڑوں کی حرکت کو بادلوں کی حرکت سے تشبیہ دی ہے جو کہ مکانی حرکت ہے ۔

ہاں البتہ ملا صدرا کے اس آیت سے حرکت جوہری کے مفہوم کو سمجھنے کی ایک وجہ ہو بھی سکتی ہے؛ لیکن وہ بعید ہے یعنی آیت میں حرکت مکانی کی وجہ اس میں حرکت جوہری کی وجہ سے قریب تر ہے ،  بہرحال خداوند کریم حقیقت کو بہتر جانتا ہے ۔

دوسری آیت

خداوند کریم کا فرمان ہے:

''کیا ہم پہلی خلقت سے تھک گئے [ہرگز نہيں ]،بلکہ وہ دوسری خلقت کے معاملہ میں شبہات کا شکار ہوئے ہيں''(20)۔

اس آیت میں دو ظہورمراد لیے جا سکتے ہيں :

1)خداوند کریم نے ان لوگوں کے خیالات کا انکار کیا ہے جو جدید خلقت کو ایجاد کرنے کے معاملہ میں خداوند کریم کیلئے ایک قسم کی بے بسی کا گمان کرتے ہيں تو خدا نے آیت کے اس حصے میں تاکید فرمائي ہے کہ وہ خلقت جدید کے معاملہ میں شبہات کا شکار ہيں؛ پس اس معنی کا حرکت جوہری کے نظریہ سے کوئي تعلق نہيں ہے ۔

2) خداوند کریم نے ان لوگوں کو ردّ فرمایا جولوگ گمان کرتے ہیں  کہ جدید خلقت کو ایجاد کرنا ممکن نہيں ہے پھر اس انکار کے بعد مولا کریم نے تاکید فرمائی کہ یہ وہم کرنے والے خود بھی تجدد اورخلقت جدید کی حالت میں ہیں ۔ پس یہ معنی حرکت جوہری کے مفہوم سے مکمل مطابقت رکھتا ہے جس کے ملا صدرا قائل ہيں اور  حقیقت  یہ ہے کہ یہاں جو  کچھ ملا صدرا نے اس آیت  سے سمجھا اس کی قوی وجہ موجود ہے ۔

تیسری آیت

خداوند کریم کا فرمان ہے: جس دن زمین دوسری زمین اور آسمانوں میں بدلی جائے گی (21)۔

آیت کے اس حصے اور اس میں زمین بدلی جائے گی، کی عبارت سے ممکن ہے دو ظہور مراد لیے جائيں :

1)امکان ہے کہ زمین بدلے جانے سے مراد یہ ہو کہ انسان اس موجودہ زمین سے دوسری زمین پر منتقل ہو گا۔

2) دوسرا ظہور یہ ہے کہ زمین خود باقی رہے گی لیکن زمین کے جوہر میں تغیر اور تبدل واقع ہوگا اس طرح کہ اس تغیر کے باوجود یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یہ دوسری زمین تغیر اور تبدیلی  کی وجہ سے پہلے والی زمین نہيں ہے۔

 ظاہر ہے کہ ملا صدرا دوسرے معنی کے قائل ہيں؛ لیکن وہ معنی بعید ہے اور پہلے معنی کا ظہور قریب تر ہے خصوصا ًوہی جو مسلمانوں میں مشہور ہے اور وہی جو روایات میں بھی آيا ہے، اسی طرح خداوند کریم کا یہ فرمان ہے :

 جس دن ہم آسمان کو اسی طرح لپیٹ دیں گے جس طرح کتابوں کو لپیٹ دیا جاتا ہے جیسے ہم نے پہلی خلقت کی ابتداء کی اسی طرح دوبارہ اس کو لوٹائيں گے (22)۔

 اور خداوند کریم حقیقی معنی کو جانتا ہے ۔

چوتھی آیت

خداوند کریم کا فرمان ہے:

''پھر وہ آسمان پر مستقر ہوا جبکہ وہ دھواں ہے  اور اسے اور زمین کو حکم دیا:  بخوشی یا زبردستی آؤ، تو کہنے لگيں: ہم اطاعت گزاری میں آتے ہيں''(23)۔

ملا صدرا نے اس آیت میں آنے کے لفظ سے اس صورت کی طرف حرکت کو پیش کیا ہے جو خدا نے ان کیلئے چاہی ہے ۔نتیجہ میں خداوند کریم نے آسمان اور زمین کو اس سمت میں حرکت کرنے میں عمل کوطلب کیا ہے جہاں ان کو ہونا چاہیے ،اس سے  مراد یہ ہے کہ اس سے زیادہ نہیں ، اور حرکت قطعی کو سمجھنا تو بہت بعید ہے اور اس معنی کے سمجھنے کی قوی وجہ موجود ہے۔ خاص طور پر اس  آیت  کی تفسیر مکانی حرکت سے کرنے کا کوئي معنی نہيں ہے اور اس کو ذکر کرنے کا کوئي فائدہ نہيں ہیں کہ وہ مبدا اول کے ساتھ بھی مطابقت  نہيں رکھتی؛ کیونکہ خداوند کریم زمان اور مکان سے پاک ہے؛ حتی کہ اس کی طرف آنے کو طلب کرنا صحیح نہيں ہے ۔

پانچویں آیت

خداوند کریم کا فرمان ہے:

''سب خوار ہوکر اس کی طرف آئيں گے''(24)۔

آیت کے اس جزء سے حرکت کو سمجھنا ممکن نہيں ہے اگر چہ''وہ اس کے پاس آئيں گے ''سے یہ سمجھ لیا جائے  پھر بھی  اس سے حرکت جوہری کو سمجھنا بعید ہے جبکہ آنے کے مفہوم سے یہ سمجھنا بھی ممکن ہے کہ حرکت مکانی ہے اگرچہ محال نہيں ہے اور داخرین کا معنی ذلیل اور خوار ہونا ہے ۔

چھٹی آیت

خداوند کریم کا فرمان ہے: ہم تمہاری امثال کو بدلیں اور جو تم نہيں جانتے ان میں تمہاری خلقت کريں (25)۔

یہ آیت تبدیل کرنے کے لفظ پر مشتمل ہے یہ لفظ تغیر کے کلی مفہوم کیلئے نص ہے نتیجہ یہ  ہوا کہ تبدیلی کے لفظ میں دو ظہور ہیں؛

1)تغیر اور تبدیلی دفعی اور یکدم بدل جانا

2)تغیر و تبدیلی تدریجی اور یہی حرکت جوہری سے مطلوب ہے ۔

ظاہر ہےکہ ملا صدرا نے دوسرے ظہور یعنی تدریجی تبدیلی کے معنی کو مراد لیا ہے تاکہ ان کے نظریہ حرکت جوہری  کیلئے دلیل بن سکے اس طرح لفظ امثالکم میں بھی ہے کیا اس سے مراد تمہارے جیسے ہیں یا تمہاری صورتیں مراد ہيں ؟ ظاہر ہےکہ ملا صدرا نے دوسرے معنی کو اختیار کیا ہے تاکہ ان کااستدلال کامل ہو جبکہ خدا کا فرمان جس کو تم نہيں جانتے تو اس میں بھی دو معنی مراد ہونا ممکن ہيں :

1)یعنی تم نہيں جانتے تو آیت کا معنی ہوگا تاکہ ہم تمہاری امثال کو بدلیں اور تمہیں جدید خلقت دیں جبکہ تم اپنی تبدیلی کو نہيں جانتے ہو ۔

2)جیسے تم نہيں جانتے نوع کے لحاظ سے نہيں جانتے یا ہم تمہيں جدید خلقت دیں جبکہ تم اسے نہيں جانتے کیونکہ تمہيں اس کا پہلے سے علم نہيں تھا تو ملا صدرا نے دوسرے معنی کو اختیار کیا ہے مگر لفظ تم نہيں جانتے اور خاص کر جو اس سے خطاب کی ضمیر متصل ہے وہ ہمارے لیے  زیادہ واضح ہے کہ کبھی ایک ظہور کو ترجیح دی جاتی ہے جیسا کہ آیت میں مذکورہ باقی الفاظ میں مراد اور مطلوب ظہورکو ترجیح دیتے ہيں جیسے لفظ تبدیلی ، لفظ تمہارے جیسی، اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ انشاء اور خلقت کے ساتھ ضمیر خطاب متصل اس جہت کو ظاہر کرتا ہے کہ جس پر تبدیلی اور انشاء جدید واقع ہوگی وہ آیت میں مخاطبین ہيں ۔

نتیجہ یہ ہے کہ اس آیت سے جس مراد کو ہم سمجھتے ہيں وہ یہ ہے کہ مولا کریم چاہتا ہے کہ وہ ہمیں حقیقت امکانی تکوینی اور انسان کی موجودہ صورت کو ایک دوسری صورت میں تبدیل کردے جسے خود انسان بھی نہيں جانتا یہ معنی صرف اس فرض میں درست ہوسکتا ہے کہ جسے ملا صدرا نے پیش کیا ہے ؛کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ تبدیلی میں حرکت جواہر مادی میں بتدریج ہوتی ہے اور صورتیں مادہ میں ایک کے بعد ایک بھیس بدلتی رہتی ہيں اور  ایسا نہيں ہے کہ ایک صورت اترنے کےبعد دوسری صورت کو اختیار کیا جاتا ہو۔

ساتویں آيت

خداوند کریم کا فرمان ہے:

''اگر خدا چاہے تو تمہیں ختم کردے اور جدید خلقت کو لے آئے'' (26)۔

اس مقام پر حق تو یہ ہے کہ اس آيت میں ہم نے کوئی ایسا لفظ نہيں پایا جس سے حرکت جوہری کے معنی کو سمجھا جائےاور  وہ اس لیے کہ آیت کی نص میں کوئي ایسی چيز نہيں ہے جو لفظ ختم کرنے اور پیدا کرنے سے مراد ایک موجود ہونے کی طرف اشارہ کرےجیسا کہ حرکت جوہری اس کا تقاضا کرتی ہے اس طرح قریب تر معنی یہ ہے کہ خداوند کریم چاہتا ہے کہ وجود سے صورت انسانی کو معدوم کرنے کے امکان اور صورت انسانی کے علاوہ دوسری جدید خلقت کی صورت کو پیدا کرنے کے امکان کی طرف اشارہ فرمائے یہ حرکت دفعی کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے نا کہ حرکت تدریجی کے ذریعے ، بہرحال حقیقت حال کو خداوند کریم جانتا ہے ۔

آٹھویں آیت

خداوند کریم کا فرمان ہے:

''سب ہماری طرف پلٹتے ہيں'' (27)۔

اس آیت کا یہ حصہ سابقہ آیت کی نسبت زیادہ واضح ہے کہ اس سے حرکت جوہری کے معنی کی شرائط نہيں ہیں اور اس مقام پر اس سے استدلال کرنا صحیح نہيں ہے مگر یہ کہ تاویل کی جائے اور بغیر ضرورت اور دلیل کے تاویل نہ عقلا ًحجت ہوتی ہے اور نہ شرعاً حجت ہےبلکه تاویل صرف اس صورت میں  حجت ہوتی ہے جب خود متکلم اپنے کلام کی تاویل کرے ،بہرحال خداوند کریم حقیقت کو جانتا ہے ۔

نویں آیت

خداوند کریم کا فرمان ہے:

''وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور تم پر حفاظت کرنے والے نگران بھیجتا ہے حتی کہ جب تم میں سے کسی ایک کی موت کا وقت آتا ہےتو ہمارے بھیجے ہوئے اسے پورا کرلیتے ہيں اور وہ اس میں کوتاہی نہيں کرتے''(28)۔

اس آیت کا معاملہ بھی سابقہ دو آیتوں کی طرح ہے کہ اس میں مطلوب پر کوئي دلالت نہيں ہے ،بہرحال  خداوند کریم حقیقت کو جانتا ہے(29) ۔

ملا صدرا نظریہ حرکت جوہری کے متعلق تائيد کیلئے ان آیات کو ذکر کرنے کے بعد یہ بیان کرتے ہيں کہ آيت نمبر تین سے آٹھ تک طبیعت کے تغیر و تبدل کی طرف اشارہ کرتی ہيں جبکہ آیت نمبر نو جسمانی طبیعتوں کے تجدد و تبدل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

نظریہ حرکت جوہری کے معرفتی نتائج

مکتب حکمت متعالیہ کا نظریہ حرکت جوہری کا دفاع نظریاتی حدود پر منحصر نہيں ہے ؛ بلکہ اس نظریہ کی ایجاد نو کی حقیقت اس وقت زيادہ آشکار ہوجاتی ہے جب ہمارے لیے اس قول کے علمی نتائج  اور اہم فلسفی فوائد واضح ہوتے ہيں کہ وہ معرفت کے کئي میدانوں میں کام آتے ہیں اور ان میں سے بعض  بیسویں صدی کے اہم موضوعات شمار ہوتے ہيں   ، پس حرکت جوہری کا نظریہ مکتب حکمت متعالیہ کے موسس کے ابداعات اور ایجاد نو میں سے ہے مگر انہوں نے اس نظریہ کے تمام ثمرات اور فوائد و نتايج  کو جمع نہيں کیا اور اسی طرح اس کی تمام جہات اور معرفت کے نتائج کو بھی واضح  نہيں کیا ۔

اس بناء پر اس مکتب کے پیروکاروں کی ایک جماعت نے اس نظریہ کے بعض نتائج اور فوائد تک پہنچنے کی کوشش کی ہے جن کے رئيس اور اہم شخصیت علامہ محمد حسین طباطبائی ہیں جنہوں نے حرکت جوہری کے نظریہ کےکئی معرفتی نتائج سے پردے ہٹائے ہيں ہم ان میں سے بعض اہم نتائج کو بیان کرتے ہيں :

پہلا نتیجہ

زمانہ جسم کی چوتھی جہت ہے

یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ کافی عرصہ تک فزکس ، خاص طور پر نیوٹن کی فزکس اسی طرح کے فلسفہ پر اعتقاد  رکھتے تھےکہ جسم کی تین ابعاد ہیں :طول ، عرض ، عمق؛یہاں تک کہ  البرٹ آئنسٹائن نے نسبیت کا نظریہ پیش کیا جس کا ایک معنی یہ بیان کیا گيا کہ زمانہ بھی اجسام کی ابعاد میں سے ایک جہت ہے اس کے بعد زمانہ  سےمتعلق فزکس کے کئی تصورات بدل گئے حتی  کہ اس تحول اور اکتشاف کو بیسویں صدی کی فزکس کے اہم اکتشافات میں سے شمار کیا گيا ہے ۔

در حقیقت یہ علمی نتیجہ  بیسویں صدی کے اکتشافات میں سے نہيں ہے بلکہ یہ سترھویں صدی کی طرف پلٹتا ہے اور اس کو حکمت متعالیہ کے فلسفی مکتب نے پیش کیا  اس طرح یہ آلبرٹ آئنسٹائن کی افکار کا نتیجہ نہيں بلکہ یہ اس حکمت متعالیہ کے مکتب کے بانی ملا صدرا کے افکار کا نتیجہ ہے۔

 پس حرکت جوہری کے نظریہ کی روشنی میں ملا صدرا کا خیال ہے کہ زمانہ ایک عرض ہے جو حرکت کے واسطہ سے جسم پر عارض ہوتا ہے اور وہ کم عرضی کے مقولہ کے مصادیق میں سے ایک ہے اور زمانہ ہی حرکت کے امتداد اور تسلسل کو معین کرتا ہے پس حرکت کا مبہم اور غیر معین امتداد اور  تسلسل ہوتا ہے اور زمانہ اس مقدار کو معین کرتا ہے اگرچہ دونوں  ہی متصل وجود کی قسم ہيں اسی طرح ان کا خیال ہے کہ جسم فعلی طور پر اس کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے کیونکہ جسم کی حقیقت حرکت اور تبدل میں ہے یعنی جسم کی حقیقت سیال اور رواں دواں ہونا ہے اور اس کا وجود ایک سیال اور تدریجی وجود ہے اور چونکہ حرکت جسم سے جدا نہيں ہوتی بلکہ وہ اس کی ذاتی ہے پس زمانہ کے ساتھ ہی جسم حاصل ہوتا ہے کیونکہ زمانہ حرکت سے جدا نہيں ہےاور حرکت جسم سے جدا نہيں ہے ۔

اور جب تک حرکت جسم کی ذات سے ہے اور حرکت اور متحرک ایک ہیں اور اسی طرح جب تک وہ زمانہ ہےکہ  جو حرکت کے امتداد اورتسلسل کو معین کرتا ہے اور زمانہ کا حرکت سے جدا ہونا ممکن نہيں ہے تو ممکن نہيں کہ جسم کو زمانہ سےجدا کیا جائے کیونکہ جسم کو حرکت سے جدا کرنا ممکن نہيں ہےپس یہی وجہ ہے کہ حرکت کو زمانے سے جدا نہيں کیا جاسکتا ہے (30)۔

دوسرا نتیجہ

مادی عالم کا زمانی حدوث اورپیدائش

فلاسفہ قدیم ہونے یا سبقت کو کئی قسموں میں تقسیم کیا ہے ان میں سے بعض یہ ہيں: سبقت زمانی، سبقت بالعلیتہ، ، سبقت بالماہیہ، سبقت بالطبع ، سبقت بالحقیقۃ، سبقت یا قدم بالدھر، قدیم بالرتبہ ، سبقت بالشرف؛ ان کی سبقت یا قدیم ہونے کو انہی اقسام میں منحصر کرنے کی دلیل استقراء ہے نہ کوئي برہان (31)۔

لیکن ہمارے لیے اہم عالم مادہ کا سبقت یا قدیم زمانی ہونا ہے اس میں متکلمین اور فلاسفہ خاص کر ان میں سے مسلمانوں میں اختلاف پایا جاتا ہے مشہور متکلمین کا نظریہ ہے کہ عالم مادی زمانے کے لحاظ سے حادث ہے اور قدیم ہونے کی تمام قسمیں واجب الوجود یعنی خداوند کریم کی ذات سے مختص ہيں اس بناء پر وہ عالم مجردات کے وجود کا بھی انکار کرتے ہيں جن پر زمانہ اور مکان کی صفت طاری نہيں ہوتی جبکہ  فلاسفہ کا نظریہ ہے کہ عالم مادی بھی زمانے کے لحاظ سے قدیم ہے یعنی اس کا زمانہ ازلی ہے جو اس کے ازلی افلاک کی حرکت سے حاصل ہوتا ہے اور انہوں نے عالم مجردات کے وجود کی تاکید کی ہے اور یہ بھی بیان کیا ہے کہ عالم مجرّدات زمانے اور مکان کے دائرہ میں داخل نہيں ہوتے اس طرح ان کا ماننا ہے کہ وہ سلبی طور پر زمانہ کے لحاظ سے قدیم ہيں یعنی ان سے حدوث زمانی  اور خود زمانہ کو بھی سلب کیا جائے دوسری معنی میں یہ ہے کہ یہ عالم جب اس پر زمانہ منطبق نہيں ہوتا تو حدوث زمانی بھی اس سے منفی ہوگا نہ کہ اس کا یہ معنی ہے کہ اس کا زمانہ ازلی ہے ۔

شاید وہ سبب جس نے فلاسفہ کو اس طرح کے نظریہ کی طرف  قرار دیا یہ ہے کہ وہ فلسفی عقلی ادلہ کے ذریعہ عالم مادی کے ذریعہ حدوث زمانی کو ثابت کرنے کی قدرت نہيں رکھتے تھے اس لیے وہ عالم مادہ کیلئے زمانا قدیم ہونے کا نظریہ اختیار کرنے پر مجبور ہوئے لیکن اگر ہم حکمت متعالیہ کے مکتب کی طرف رجوع کریں تو ہم پائيں گے کہ ملا صدرا نے اس پیچیدگی او رسنگینی کو حل کردیا ہے اور وہ حرکت جوہری کے نظریہ سے ہے ۔

حرکت جوہری کے نظریہ کی روشنی میں ہمارے لیے یہ کہنا ممکن ہے کہ عالم مادی کی اپنے جوہر میں ایک عمومی حرکت ہے جو اس کے مبدا اور حد انتہاء کےدرمیان پھیلی ہوئي ہے اور زمانہ وہ ہے جو ہمارے لیے حرکت کے امتداد اور تسلسل کو معین کرتا ہے جسے جوہر اپنی حرکت کے اندر ترسیم کرتا ہے نیز ہم اس پر اضافہ کرتے ہيں کہ حرکت کی ایک قسم بالقوہ ہے حالانکہ وہ خارج سے متصل ہوتی ہے اس بناء پر حرکت کی جو بھی قسم فرض ہوگي اس کیلئے زمانی حدوث ہوگا کیونکہ وہ فعلی ہوتی ہے اس سے پہلے ایک بالقوہ پائي جاتی ہے اور حرکت کی تمام اقسام اور اس لحاظ سے کہ وہ خود حرکت  کے اجزاء ہیں ان کا حکم اسی قسم کا حکم ہےیعنی ان تمام کیلئے حدوث زمانی ہے نتیجہ یہ ہوا کہ عالم مادہ اور عالم طبیعت کیلئے حدوث زمانی ہے (32)۔

تیسرا نتیجہ

حرکت کے دورا ن مادہ پر وارد ہونےوالی صورت  جوہری کی وحدت

فلسفہ مشاء اورا شراق  کے مکاتب کا نظریہ ہے کہ مادہ پر حرکت کے دوران جو صورتیں طاری ہوتی ہيں وہ ماہیات کے تعدد سے متعدد ہوتی ہیں جبکہ حکمت متعالیہ کے مکتب کا ماننا ہے کہ وہ صورت ایک ہے اگرچہ اس کی ماہیات متعدد ہوں پس اگر ہم انسان  کی نشو و نما کے مراحل کو دیکھیں تو ہم پائيں گے کہ وہ صورت جو نطفہ کے مرحلہ میں مادہ میں پائي جاتی ہے وہ  لوتھڑے اور ہڈیوں پر مشتمل گوشت کے مرحلہ میں موجودہ مادہ کی صورت سے ماہیت کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے اس طرح وہ مراحل جو اس کے مادہ پر گزرتے ہيں اسی طرح حرکت کے دوران آنے والی صورتوں کے ماہوی اختلاف کی وجہ سے مشائی مکتب نے تفسیر کی کہ یہ ایک صورت کو چھوڑکر دوسری صورت کو اختیار کرنے کے معنی میں ہے یعنی مادہ جب حرکت کے دوران ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلہ کی طرف جاتا ہے تو پہلے مرحلہ کی صورت کو چھوڑ دیتا ہے اور دوسرے مرحلہ کی صورت کو اختیار کر لیتا ہے ۔

لیکن یہاں اس کی ایک دوسری تفسیر بھی موجود ہے جو حکمت متعالیہ کے مکتب میں پائي جاتی ہے کہ اس کے ذریعہ وہ مکتب  مشّاء کی مخالفت کرتے ہيں نیز اس کے ذریعہ وہ صورت جوہری کی وحدت کے نظریہ کے قائل  بھی ہيں ۔

حکمت متعالیہ کے مکتب  کے موسس ملا صدرا کا خیال ہے کہ مادہ حرکت کے دوران ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلہ کی طرف منتقل ہوتے وقت ایک صورت چھوڑ کر دوسری صورت اختیار نہيں  کرتا؛ بلکہ یہ پرانی صورت  ہونے کے بعد جدید صورت کواپنانے کے معنی میں ہے یعنی ایک پیراہن کے بعد دوسرا زیب تن کیا جائے ،نہ یہ کہ ایک اتارنے کے بعد دوسرا لباس پہننا ہے کیونکہ دوسری صورت پہلی صورت ہی  ہوتی ہے اگرچہ اسکے ساتھ ماہیت میں اختلاف رکھتی ہے ۔

اس کی مزید وضاحت کیلئے ہم کہتے ہيں کہ اگر ہم اپنے سامنے پانچ میٹر لمبا پیمانہ فرض کریں اور ہر میٹر کا رنگ دوسرے سے جدا ہو پہلا میٹر زرد ہو دوسرا سرخ ہو تیسرا سبز ہو ،چوتھا سفید ہو اور پانچواں سیاہ ہو اور ہم پیمانہ کے ہر میٹر کو علیحدہ علیحدہ  دیکھیں تو ہم پائيں گے کہ ہر میٹر کی ماہیت دوسرے میٹر کی ماہیت سے جدا ہے نیز جب ہم پورے پیمانہ کو دیکھیں تو ہم پائيں گے کہ اگرچہ ہر میٹر کی ماہیت مختلف ہے لیکن وہ سب ایک متصل صورت کو تشکیل دیتے ہيں پس پیمانے کی صورت کلی ایک ہے اگرچہ اس کے ہر میٹر کی ماہیت مختلف ہے (33)۔

اس اختتامی مرحلے پر  اس بات کی طرف اشارہ کرنا مناسب ہے کہ یہ نتیجہ چار مقدمات یا چار اصولوں اور بنیادوں پر قائم ہے:

1)حرکت جوہری کا نظریہ ،

 2)حرکت کے ایک متصل امر ہونے کا نظریہ  جو بالتدریج وجود میں آتی ہے اور اس کی تقسیم بالقوہ  ہے نہ بالفعل ،

3)اور ہر مقولہ میں حرکت کا معنی یہ ہے کہ ہر گھڑی متحرک پر اس کی مقولہ کی انواع میں سے ایک نوع وارد ہوتی ہے

4) پے درپے طاری ہونے والی جوہری صورت خود حرکت ہیں اور حرکت اس صورت کے وجود کی ایک قسم ہے ۔

چوتھا نتیجہ

عالم مادی کی وحدت

حرکت جوہری کے مفہوم کا اقرار ہمیں اپنے مبانی اور اصولوں کے تحت عالم مادی کے وجو دکی وحدت کے متعلق ایک اہم تصور تک پہنچاتا ہے اسی طرح وہ اپنی بقاء اور استمرار میں بھی ایک ہے پس اگر ہم عالم مادی کی تشکیل کی ابتداء کی طرف لوٹیں یعنی مادہ اولی کی قوت محض  کو دیکھیں جس میں کسی قسم کی فعلیت نہیں اور  وہ صرف قوت محض ہے تو ہم پائيں گے کہ اس کا مادہ ایسی حرکت کا محتاج ہے جو اسے قوت سے فعل کی طرف نکالے۔ نیز وہ  ایک صورت کا محتاج ہے جو اس کی فعلیت کے حاصل ہونے کے دوسرے مرتبہ میں طاری ہو اس لحاظ سے کہ یہ مادی امتیاز اور تشخص میں اس صورت کی پیروی کرتا ہے کیونکہ وہ اس کی اساس میں شامل ہے تو وہ وحدت و کثرت میں بھی اس کے تابع ہے۔ اس بناء پر یہ کہنا ممکن ہے کہ عالم مادی تمام کا تمام ایک صورت کی اتباع میں ایک حقیقت ہے اور وہ سب اپنے مادہ کے ساتھ ایک عمومی حرکت میں واقع ہے جو قوت محضہ کے مرحلہ سے اس فعلیت کی طرف جار ی ہے جس میں کوئي قوت نہ ہو حتی کہ وہ تجرد تام کے مرحلہ کو پہنچ جائے ۔

اس طرح ہم مادی عالم کی تصویر کشی کرسکتے ہيں کہ وہ ایک سیال حقیقت ہے جس پر عمومی حرکت واقع ہوتی ہے اس طرح اس میں خاص حرکات بھی ہيں جو جزئي حقائق سے متعلق ہوتی ہيں تو اس کی مثال پرندوں کے غول کی طرح ہے جسے ہم ایک منظم حقیقت کی طرح مشاہدہ کرتے ہيں جن میں اگرچہ ایک حرکت پائي جاتی ہے لیکن جب ان پر مزید غور  کرتے ہیں تو دیکھتے ہيں کہ وہ وحدت کئی حرکات میں تحلیل ہوتی ہے خاص کر اس غول کے ہرپرندے کی حرکت مستقل ہوتی ہے(34) ۔

پانچواں نتیجہ

نفس کا حدوث میں جسمانی ہونا اور بقاء میں روحانی ہونا

کئی صدیوں تک یہ فکر غالب تھی کہ نفس اپنی اصل پیدائش میں جسمانیت سے مجرد اور خالی ہے اور یہ تصور مسلمانوں میں عمیق اور گہرا تھا ۔خاص طور پر مسلمان فلاسفہ کے مکاتب میں یہ مقبول تھا پس ہم مکتب مشّاء میں پاتے ہيں کہ وہ اقرار  کرتے ہیں کہ نفس پیدائش اور بقاء میں روحانی اور مجرد ہے؛یعنی وہ اپنی پیدائش اور بقاء دونوں میں مادہ سے مجرد اور خالی ہے  یہاں تک کہ ملا صدرا نے آکر اس مشہور نظریہ خاص طور پرمشّائي مکتب کی مخالفت کی اور فرمایا:

'' نفس پیدائش میں مادی ہے اور بقاء میں روحانی ہے یعنی نفس پیدائش میں جسمانی مادی ہے اورحرکت جوہری کے ذریعہ بالتدریج مادہ اور جسم سے آزادی حاصل کرکے تجرد حاصل کرنا شروع کرتا ہے حتی کہ مادہ اور تجرد عقلی کے درمیانی منزل پر پہنچ جاتا ہے اور وہ تجرد برزخی ہے'' (35)۔

چھٹا نتیجہ

یہ نتیجہ دو مقدمات پر موقوف ہے:

1)اصالت وجودکا نظریہ جس کا معنی یہ ہے کہ کسی چيز کی وہ حقیقت جس سے تکوینی آثار حاصل ہوتے ہيں اور وہ اس چيز کا وجود ہے نہ کہ اس کی ماہیت جیساکہ باقی فلسفی مکاتب کا نظریہ تھا ۔

اور اس مقدمہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عرض ، جوہر کے وجود کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے ۔

2)حرکت جوہری کا نظریہ جس کا معنی یہ ہے کہ جوہر میں حرکت پائي جاتی ہے اور حرکت فقط عرض میں نہيں ہوتی ۔

اس مقدمہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عرض کی حرکت جوہر کی حرکت کے تابع ہوتی ہے یعنی عرض کی حرکت جوہر ہی کا نتیجہ ہوتی ہے اور اس کے برعکس باطل ہے۔

 اس بناء پر جب ہم تسلیم کرلیتے ہيں کہ عرض جوہر کے وجود کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے نیز یہ بھی یقین ہوجاتا ہے کہ عرض کی حرکت جوہر کی حرکت کی طرف پلٹتی ہے تو ہم ملاحظہ کرتے ہيں کہ یہاں ایک حرکت ہے جو دوسری حرکت میں واقع ہوتی ہے اور وہ عرض کی حرکت ہے جو جوہر کی حرکت کے اندر واقع ہوتی ہے۔

 اس کو مزید واضح کرنے کیلئے ہم چلتی ہوئي کشتی میں چلنے والے شخص کی حرکت کی مثال دیتے ہيں  اور جب ہم اس مثال کو لیتے ہيں توسمجھتے ہيں کہ ایک حرکت دوسری حرکت کے اندر واقع ہوئي ہے اور وہ اس شخص کی ذاتی حرکت ہے کہ وہ چلتا ہے جب وہ  خود متحرک کشتی میں چل رہا ہوتا ہے اور کشتی کی حرکت اپنے مقصد کی طرف جاری ہے ۔

جیسا کہ جوہر کی حرکت ممکن ہے اگرچہ عرض میں حرکت نہ ہو اور اس کے برعکس ممکن نہيں یعنی یہ نہيں ہوسکتا کہ جوہر غیر متحرک ہو اور عرض میں حرکت پائي جائے اور اس کی بنیاد حرکت جوہری کا نظریہ ہے جیسا کہ کشتی میں سوئے ہوئے شخص کا متحرک کشتی میں ہونا کہ اگرچہ اسکی اپنی کوئی حرکت نہيں ہے لیکن کشتی کی حرکت کے ساتھ وہ بھی رواں دواں ہے اور کشتی اپنے مقصد کی طرف چل رہی ہے (36)۔

یہ حرکت میں حرکت کے نظریہ کا معنی ہے اور اس نظریہ کی بازگشت علامہ طباطبائي کی طرف ہوتی ہے انہو ں نے حرکت جوہری کے نظریہ سے اس نتیجہ کو اخذ کیا ہے ۔پس یہ اختصار کے ساتھ حرکت جوہری کے اہم نتائج اور ثمرات بیان ہوئے جبکہ اس ضمن میں دوسرے ثمرات اور نتائج بھی ہیں جن کو ہم نے ذکر نہيں کیا:

 جیسے حرکت کے دوران وارد ہونے والی صورت کا ایک ہونا ،

 حرکت میں حرکت واقع ہونے کا نظریہ ،

 نیز مسئلہ :حرکت کو طبیعیات اور سائنس کی بحث سے الہیات کی بحث میں نقل کرنا ، اس لحاظ سے حرکت ،متحرک چيز کے وجود کی ایک قسم ہے اور نتیجہ میں وجود کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے  یہ فلسفہ اسلامی کے مشہور نظریہ کے خلاف ہے ، وہ حرکت کو بحث طبیعیات میں ذکر کرتے تھے کہ حرکت جسم کا ایک عمومی حکم اور حالت ہوتی ہے اس طرح متغیر کے ثابت سے ارتباط کی تفسیر ، نیز یہ برہان کہ حرکت جوہری کا موضوع  بذات خود حرکت ہے ۔

حبیب مقدم

حوالہ جات

  1. الشفاء، الطبیعیات، ابن سینا، ج 1ص98۔
  2. الاسفار، ملا صدرا، ج 3ص112۔
  3. 3)      240ھ/ 854 میلادی کو متولد ہوئے اور 320ھ / 934ء کو بغداد میں وفات پائي ، اور ایک قول ہے کہ 311ھ / 925 ء میں وفات ہوئي ، وہ ایک شیعہ  طبیب اور فلسفی تھے ۔
  4. عیون الانباء فی اخبارالاطباء، ابن ابی اصیبعہ، ص427۔
  5. منقول از: حکمت متعالیہ ، ملا صدرا ، ج3ص112۔
  6. شاید لطافت سے مراد یہ ہو کہ یہ حجاب وہم میں موجود ہے نہ آنکھ میں ، کیونکہ حرکت آنکھ میں ایک اور متصل حقیقت ہے ۔
  7. حجاب وہ چيز ہے جو دو مراتب کے درمیان فاصلہ ہوتی ہے ، جیسا کہ اہل عرفان اور تصوف کے درمیان مشہور ہے ۔
  8. الشفاء الطبیعیات ، ابن سینا ، ج1ص98۔
  9. التحصیل ، بہمنیار بن مرزبان، حاشیہ و تحقیق: شہید مرتضی مطہری ، ص426-427۔
  10. النجاۃ من الغرق فی بحر الضلالات، ابن سینا، تحقیق محمد تقی دانش پژوہ، ص109۔
  11. الاسفار ،ملا صدرا ، ج 3ص61-62، بحث کے طولانی ہونےکے خوف سے دلیل کا خلاصہ پیش کیا گيا ہے ۔
  12. الاسفار  ، ملا صدرا ، ج3ص655۔
  13. ملا ہادی سبزواری نے شرح منظومہ ص250 میں یہ جواب دیا ہے ۔
  14. یہ اشکال اور اعتراض ملا ہادی سبزواری نے الاسفار ، ج3ص63 میں اپنے حاشیہ میں ذکر کیا ہے ۔
  15. یہ جواب ملا ہادی سبزواری نے شرح منظومہ ص250 میں بیان کیا ہے ۔
  16. الاسفار ،ملا صدرا ،  ج3ص61-64۔
  17. الاسفار ،ملا صدرا ،  ج 3ص115۔
  18. المنہج الجدید لتعلیم الفلسفۃ ، شیخ مصباح یزدی ، ج2ص331۔
  19. سورہ نمل ، 88۔
  20. سورہ ق:15۔
  21. سورہ ابراہیم ، 48۔
  22. سورہ انبیاء ، 106۔
  23. سورہ فصلت ،11
  24. سورہ نمل ،87۔
  25. سورہ واقعہ ، 61۔
  26. سورہ فاطر، 16۔
  27. سورہ انبیاء ، 93۔
  28. سورہ انعام، 61۔
  29. یہ آيت اور اس سے پہلے آٹھ آیات کو ملا صدرا نے اپنی کتاب الاسفار ، ج 3ص 110-111 میں ذکر کیا ہے ۔
  30. رجوع ہو نہایۃ الحکمۃ علامہ محمد حسین طباطبائی ، مرحلہ 12، فصل 23، ص402-403۔
  31. بدایۃ الحکمۃ ، علامہ محمد حسین طباطبائی ، مرحلہ 9،فصل 1، ص144۔
  32. نہایۃ الحکمۃ علامہ محمد حسین طباطبائی ، مرحلہ12، فصل 23، ص402-403۔
  33. بدایۃ الحکمۃ ، علامہ محمد حسین طباطبائی ، مرحلہ 10، فصل 11، ص 161، نہایۃ الحکمۃ علامہ محمد حسین طباطبائی ، مرحلہ9، فصل 8، ج2، ص 135۔
  34. بدایۃ الحکمۃ ، علامہ محمد حسین طباطبائی ، مرحلہ10،فصل 11،ص162، ، نہایۃ الحکمۃ علامہ محمد حسین طباطبائی ، مرحلہ9، فصل 8، ج2ص 140-141۔
  35. الاسفار الاربعۃ، ملا صدرا، ج9ص112-113۔
  36. محترم پڑھنے والوں کیلئے مثالوں اور اس موضوع میں پائےجانے والے فرق کی طرف توجہ ضروری ہے کیونکہ مثالیں تو معنی کو ذہن کے قریب کرنے کیلئے پیش کی جاتی ہیں اور اصل مقصد اس فلسفی مطلب کو واضح کرنا ہے ۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018