16 جمادي الثاني 1447 هـ   7 دسمبر 2025 عيسوى 4:29 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مقالات  |  یقین اور شک کے مابین حقیقت کی تلاش
2025-11-09   151

یقین اور شک کے مابین حقیقت کی تلاش

الشيخ معتصم السيد أحمد

جدید دنیا میں رونما ہونے والی فکری تبدیلیوں میں "علم اور حقیقت کی نسبیت" کا مسئلہ ان اہم فلسفیانہ موضوعات میں شامل ہے جنہیں مذہب، بالخصوص اسلام، کے خلاف خاص طور پر اٹھایا گیا، چونکہ اس کا مقصد ایمان اور یقین کی بنیادوں کو متزلزل کرنا ہے۔  جب یہ کہا جاتا ہے کہ مطلق حقیقت کا ادراک ممکن نہیں، یا یہ کہ ہر انسانی علم نسبی ہے، تو اس کا عملی مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی مستقل چیز پر ایمان رکھنا ممکن نہیں، چاہے وہ مذہبی عقیدہ ہو، اخلاقی قدر ہو یا سائنسی حقیقت۔ اس طرح مذہب ہی نہیں بلکہ پوری انسانی فکر بھی محض ایک ذاتی رائے یا انفرادی تجربہ بن کر رہ جاتا ہے، جس کے سچ یا باطل ہونے کا کوئی معروضی معیار باقی نہیں رہتا۔

اس رجحان کی فلسفیانہ جڑیں قبل از مسیح دور تک جا پہنچتی ہیں، جب قدیم یونانی فکر میں "عدمیّت" اور "سفسطائیت" کے مکاتبِ فکر سامنے آئے، جنہوں نے حقیقت تک رسائی کے امکان ہی کا انکار کر دیا۔ سفسطائیوں کا ماننا تھا کہ انفرادی انسان ہی "ہر چیز کا پیمانہ" ہے، یعنی جو چیز فرد کو درست لگے وہی اس کے لیے درست ہے، اور جو چیز اسے غلط دکھائی دے وہی اس کے لیے غلط ہے۔ اس سوچ نے صدق و کذب یا خیر و شر کی تمیز کے لیے کسی بھی معروضی معیار کو ختم کر دیا۔ نسبیت کی یہ ابتدائی فکری بیج صدیوں تک مغربی فکر میں موجود رہی، اور جدید دور میں یہ زیادہ منظم اور مؤثر فلسفیانہ نظریات میں تبدیل ہو گئی۔

جب جدید فلسفے کا آغاز ہوا تو دیکارت نے شک کو یقین تک پہنچنے کا ایک طریقہ بنانے کی کوشش کی، لیکن اس کے بعد آنے والے بہت سے لوگوں نے اس طریقے کو ایک منفی رویے میں بدل دیا ،ایک ایسا رویہ کہ جو ہر چیزکو شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔ یوں شک تحقیق کا ذریعہ بننے کے بجائے خود ایک مقصد بن گیا، یہاں تک کہ حقیقت تک رسائی کا امکان بھی مستقل سوالیہ نشان بن گیا۔ پھر امریکہ میں "عملیت پسندی" نے اس تصور کو بالکل الٹ دیا، اور حقیقت کا معیار یہ قرار پایا کہ وہ چیز جو انسان کے لیے وقتی فائدہ مند ہو، وہی "حقیقت" ہے، چاہے وہ معروضی حقیقت سے مطابقت رکھتی ہو یا نہ رکھتی ہو۔ اس طرح حقیقت کا مفہوم، جو پہلے واقع کی نمائندگی کرتا تھا، بدل کر ایک فائدہ مند آلہ بن گیا جو وقت اور حالات کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔

علمی نسبیت کے سفر کا سب سے خطرناک مرحلہ بیسویں صدی میں "مابعد جدیدیت" کے فلسفیوں کے ذریعے سامنے آیا، جیسے میشیل فوكو، ژاك دريدا اور رچرڈ رورٹی، جنہوں نے مطلق حقیقت کے تصور کے زوال کا اعلان کیا۔ ان کا مؤقف یہ تھا کہ علم محض ایک لسانی اور ثقافتی تشکیل ہے، جسے معاشرہ اور طاقت متعین کرتے ہیں۔

مثلاً فوكو نے علم اور طاقت کے درمیان تعلق قائم کیا، اور کہا کہ جسے "حقیقت" کہا جاتا ہے، وہ دراصل غالب قوتوں کی طرف سے مسلط کردہ تصور ہے۔ دريدا نے اپنے "تفکیکی منصوبے" کی بنیاد اس نظریے پر رکھی کہ متون کا کوئی مستقل معنی نہیں ہوتا۔ اس نے کہا: "متن کے باہر کچھ نہیں"، یعنی حقیقت زبان میں ہے، نہ کہ خارجی دنیا میں، اور ہر متن کو لامحدود اور متضاد تشریحات کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔جبکہ"رورٹی" کا خیال تھا کہ حقیقت صرف وہ ہے جس پر لوگ اپنی ثقافت کے اندر متفق ہو جائیں، اور کوئی ایسا معیار موجود نہیں جو زبان یا سماج سے بالاتر ہو اور جس پر فیصلہ کیا جا سکے۔

یہ نظریات، اگرچہ بظاہر فکری آزادی اور مختلف نقطۂ نظر کی حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن درحقیقت ایک بڑے خطرے کو جنم دیتے ہیں، کیونکہ یہ ہر مکالمے، علم یا ایمان کی بنیاد کو منہدم کررہے ہیں ۔اگر حقیقت محض ایک سماجی تشکیل ہے، تو ہر فکری یا مذہبی نظام اپنا مطلب کھو بیٹھتا ہے، کیونکہ ہر عقیدہ کسی خاص ثقافتی سیاق سے منسوب کیا جا سکتا ہے، بغیر اس کے کہ اسے درست یا غلط کہا جا سکے۔

اسی وجہ سے یہ نظریات جب بعض عرب جدید مفکرین تک پہنچ گئیں، توانہوں نے ان کا استعمال اس دعوے کو جواز دینے کے لیے کیا کہ دین بھی محض ایک تاریخی ثقافتی پیداوار ہے، اور توحید، شریعت، اور نبوت جیسے تصورات کوئی الٰہی مطلق حقائق نہیں، بلکہ انسانی اور متغیر تصورات ہیں۔ تاہم یہ رجحان ایک واضح اندرونی تضاد پر قائم ہے، جو اس کی فکری کمزوری کو سب سے پہلے بے نقاب کرتا ہے۔ جب کوئی یہ کہتا ہے: "کوئی مطلق حقیقت موجود نہیں"، تو اس کا یہ جملہ بذاتِ خود ایک مطلق حکم بن جاتا ہے، یعنی وہ کم از کم ایک حقیقت کو تسلیم کر رہا ہے، اور وہ یہ کہ "کوئی حقیقت موجود نہیں"! یوں یہ نظریہ خود اپنے ہی اندر سے منسوخ ہو جاتا ہے۔

اسی طرح انسانی باہمی رابطہ بھی حقیقت کے انکار کو برداشت نہیں کر سکتا، کیونکہ دو افراد کے درمیان کوئی بھی مکالمہ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ الفاظ کے مخصوص معانی ہوتے ہیں اور ان کی دلالت پر اتفاق موجود ہے۔ بصورتِ دیگر، نہ کوئی جملہ سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی خیال پر بحث ممکن ہو سکتی ہے۔

شک کی جو روش ابتدا میں ایک سائنسی تحقیقی طریقہ کار کے طور پر سامنے آئی تھی، وہ بالآخر ایک بند گلی تک جا پہنچی، کیونکہ وہ انسانی عقل کی فطری ساخت سے متصادم تھی۔ انسانی عقل کچھ بنیادی فطری اصولوں پر قائم ہے جن پر شک نہیں کیا جا سکتا، جیسے تضاد کا انکار، شناخت کا اصول، اور علت و معلول کا اصول۔ اگر انسان ان اصولوں کا انکار کر دے تو وہ نہ سوچ سکتا ہے، نہ بات کر سکتا ہے، اور نہ ہی کوئی فیصلہ کر سکتا ہے۔

جو شخص حقیقت کے وجود پر شک کرتا ہے، وہ دراصل اسی حقیقت کو استعمال کر رہا ہوتا ہے جب وہ سوچتا ہے، دلیل دیتا ہے یا بحث کرتا ہے، کیونکہ وہ ضمنی طور پر ان عقلی قوانین کو تسلیم کر رہا ہوتا ہے جن پر اس کی سوچ کا انحصار ہے۔ اسی لیے مطلق شک نہ صرف دینی طور پر ناقابل قبول ہے، بلکہ عقلی اور عملی طور پر بھی ناممکن ہے۔ جہاں تک عملیت پسندی کا تعلق ہےکہ جس نے حقیقت کا معیار "نفع" کو قرار دیا، تو یہ نظریہ بھی تنقید کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا، کیونکہ نفع افراد اور حالات کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ جو چیز ایک شخص کے لیے فائدہ مند ہو، وہ دوسرے کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے، اور جو آج مفید ہو، وہ کل نقصان دہ بن سکتی ہے۔ اگر حقیقت نفع کے بدلنے سے تبدیل ہو جائے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صدق کا کوئی مستقل معیار موجود نہ ہونے کی بنیاد پر جھوٹ بھی "درست" بن سکتا ہے اگر وہ فائدہ مند ہو، جبکہ ایسا ہونا اخلاقی اور علمی انتشار کا باعث بنتا ہے۔اس کے برعکس، اسلام نفع و نقصان کو حق کے تابع قرار دیتا ہے، نہ کہ حق کو نفع کے تابع۔ حقیقت وہ ہے جو واقعے سے مطابقت رکھتی ہو اور اللہ کو راضی کرے، نہ کہ وہ جو وقتی مفاد سے ہم آہنگ ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ  اور کہہ دو کہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے ۔

جہاں تک مابعد جدید فکر کا تعلق ہے، تو وہ ایک اور بڑے بحران کا شکار ہو گیا، کیونکہ متون (نصوص) کے معانی کو غیر مستحکم قرار دینا زبان کو ہی بے معنی بنا دیتا ہے۔ کیونکہ اگر ہر جملہ لامحدود معانی کا حامل ہو سکتا ہے، تو پھر ہم خود دريدا کی بات کو کیسے سمجھیں؟ اور ہمیں کیسے یقین ہو کہ اس نے جو کچھ لکھا، اس کا مطلب وہی ہے جو ہم پڑھ رہے ہیں؟ اس کا مشہور قول "متن کے باہر کچھ نہیں (There is nothing outside the text) خود اپنے وجود کو منہدم کر دیتا ہے، کیونکہ اگر ہر چیز صرف متن میں ہے اور اس کا کوئی طے شدہ مطلب نہیں، تو اس قول کو بھی کسی مخصوص مفہوم میں سمجھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اسی طرح فوكو کا وہ نظریہ جو حقیقت کو طاقت سے جوڑتا ہے، ہر قسم کے جبر اور استبداد کو جواز فراہم کرتا ہے، کیونکہ کوئی بھی طاقت یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ اس کے پاس اپنی "حقیقت" ہے جسے وہ دوسروں پر مسلط کر سکتی ہے۔ اس صورت میں انصاف یا ظلم کے لیے کوئی معیاری پیمانہ باقی نہیں رہتا۔

قرآنِ کریم اس بات پر زور دیتا ہے کہ حقیقت نہ تو متغیر ہے اور نہ ہی نسبی، بلکہ وہ ثابت ہے کیونکہ اس کا مصدر اللہ تعالیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿فَذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ

"یہی ہے اللہ تمہارا رب، جو حق ہے، تو حق کے بعد گمراہی ہی باقی رہتی ہے"۔ اور فرمایا:

﴿وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ

"کہہ دو: حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے"۔

ایمان بالحق زبردستی نہیں تھوپا جاتا، بلکہ یہ اس یقین پر قائم ہوتا ہے کہ ایک واحد حق موجود ہے جو مختلف ثقافتوں کے مطابق نہیں بدلتا، کیونکہ اس کا منبع انسانی نہیں بلکہ الٰہی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو دین کو ان نسبی نظریات کے مقابلے میں قوت عطا کرتی ہے جو ثابت اقدار کو شک کے سمندر میں تحلیل کر دینا چاہتے ہیں۔

یوں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ "حقیقت کی نسبیت" کا تصور دراصل فکری اور اخلاقی انتشار کا ایک فلسفیانہ نقاب ہے۔ یہ آزادی کا نعرہ بلند کرتا ہے، لیکن آخرکار آزادی کے ہر مفہوم کو ختم کر دیتا ہے، کیونکہ جس کے پاس حقیقت کا کوئی معیار نہ ہو، وہ درست اور غلط میں فرق نہیں کر سکتا۔ اس کے برعکس، وحی اور عقل کے مطابق مطلق حق کے وجود پر ایمان انسان کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے، جس پر وہ اپنی فکر اور زندگی کی عمارت کھڑی کرتا ہے، اور اسے اس علمی شک کے کھیل سے محفوظ رکھتا ہے جو انسان کو ایک بے سمت اور بھٹکا ہوا وجود بنا دیتا ہے۔

اسی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ اسلام انسان کو ایک جامع علمی بصیرت عطا کرتا ہے، جو عقل کو اس کا مقام دیتا ہے اور وحی کو اس کا نور، اور حقیقت کو ایک قابلِ حصول ہدف بناتا ہے، نہ کہ کوئی ماورائی فریب۔ یقین کوئی وہم نہیں، جیسا کہ جدید فلسفے دعویٰ کرتے ہیں، بلکہ یہ انسان کی فطرت میں پیوست ہے۔  اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا

پس (اے نبیؐ) اپنا رخ دین کی طرف یکسو ہو کر قائم رکھو، یہی اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔

 یہ فطرت ہی وہ آخری ضمانت ہے جو انسان کے دل میں یقین کے نور کو بجھنے سے بچاتی ہے۔ لہٰذا، ثابت حقائق پر ایمان رکھنا کوئی فکری رجعت پسندی نہیں، بلکہ یہ فکری انتشار کے خلاف ایک بلند پایہ مزاحمت ہے، اور انسانی عقل کو اس علمی خودکشی سے بچانے کی کوشش ہے جس کی طرف جدید نسبیتی فلسفے انسان کو لے جا رہے ہیں۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018