11 شوال 1445 هـ   20 اپریل 2024 عيسوى 3:27 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2023-01-13   395

مہدیہ.سمندر کنارے ایک حسین شہر

مہدیہ ، ایک ساحلی شہر ہے جو دارالحکومت تیونس سے 200 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔یہ ریاست مہدیہ کا دارالحکومت تھاجس کی آبادی 56,046 تھی۔

تاریخ

 مہدیہ جزیرہ نما پر بنایا گیا تھا جس کی لمبائی (1400) میٹر اور چوڑائی (500) میٹر تھی۔اس میں تیونس کی پہلی اور اہم ترین بندرگاہ بنائی گئی تھی اسے بنیادی طور پر ماہی گیری کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔مقامی معیشت میں سیاحت کو ایک اہم مقام حاصل ہےاور مہدیہ کو علم تعلیم کا مرکز سمجھا جاتا تھا اور یہاں ایک بڑی یونیورسٹی ہے۔ 1999 میں ہائر انسٹی ٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ مینجمنٹ کے قیام کے بعد یہ علم و تعلیم کا جدید مرکز بن گیا ہے۔مہدیہ کا نیا شہر پرانے شہر کی دیواروں کے باہر ہیبون اور زہرا کے محلوں کی سمت پھیلا ہوا ہے۔

مہدیہ شہر

مہدیہ شہر اس وقت جمہوریہ تیونس کے مشرقی سرے پر واقع ہے، جو تین اطراف سے بحیرہ روم میں گھرا ہوا ہےاور مغرب سے افریقی براعظم سے جڑا ہوا ہے۔ابھی شہر کی توسیع صرف مغرب کی طرف سے ہی ممکن ہےکیونکہ دوسری طرف بحیرہ روم واقع ہے اور اس کا محل وقوع ایک جزیرہ نما کا ہے۔جب شہر کو فضا سے دیکھا جائے تو مختلف رنگوں کے خوبصورت مناظر سامنے آجاتے ہیں جو  مسلسل مقام تبدیل کرتے ہیں۔یہ شمال میں واقع ہے۔

شہر کی فضائی تصویر کو دیکھ کر، ہم رنگوں اور مناظر کی موزیک کو دیکھ سکتے ہیں جو ایک جگہ سے دوسری جگہ بدلتے ہیں، خاص طور پر چونکہ یہ دستیاب زمین سے فائدہ اٹھانے کے لحاظ سے ایک بہت ترقی یافتہ شمالی علاقہ ہے، جنوب میں اس جیسا کوئی خطہ نہیں ہے۔ مہدیہ شہر کو ایک پرندے سے تشبیہ دی گئی ہے۔

شہر کی تاریخ

مہدیہ کی تزویراتی جغرافیائی حیثیت نے شہر کو اس قابل بنایا -جسے راس افریقہ کے نام سے جانا جاتا تھا - سولہویں صدی کے آغاز تک بحیرہ روم کو کنٹرول کرنے میں اس شہر کا بنیادی کردار تھا۔مہدیہ شہر کو فینیشیا اور پھر رومانیہ کہا جاتا تھا۔پہلی صدی قبل مسیح تک مہدیہ جہاز رانی کا مرکز تھا۔۱۹۰۷ میں ساحل سے چھ کلومیٹر دور کچھ دریافتیں ہوئیں جن سے پتہ چلا کہ یہاں بہت سی ایسی اشیاء موجود ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ یہ ایتھینیائی تہذیب کا مرکز تھا۔اس دریافت سے یہ علاقہ ان تاریخی مقامات میں سے ایک بن گیا جو پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔اس شہر کو 906 عیسوی میں پہلے فاطمی خلیفہ "عبید اللہ المہدی" کے حکم پر بنایا گیا۔اس شہر کی تعمیر پانچ سال تک جاری رہی ،پھر اس کے لیے مہدیہ نام رکھا گیا۔ یوں یہ شہر ۹۲۱ عیسوی میں سلطنت فاطمیہ کا دار الخلافہ بن گیا۔مہدیہ ۹۲۳ تک سلطنت فاطمیہ کا دار الخلافہ رہا پھر  فاطمی خلیفہ نے اسے قاہرہ منتقل کرنے کا اعلان کیا۔سال ۹۴۴ میلادی سے ۹۴۵ میلادی میں آٹھ ماہ کے محاصرے میں ابویزید کی سربراہی میں اہل شہر نے ان کا مقابلہ کیا۔ 1057ء میں زردوں نے ہلال کی پیش قدمی سے بچنے کے لیے اس میں پناہ لی۔سنہ 1806 - 1807 عیسوی میں خطے کے بحری قزاقوں  کا مقابلہ کیا ۔ اہل مہدیہ کی قیادت (1062 - 1108 عیسوی) الزبیری التمیم کر رہے تھے۔

شمالی بحیرہ روم کے اہم ترین تجارتی شہروں جینوا، پیسا، املفی، سالرنو اور کیٹا کے ساتھ واقع تھا اس لیے یہاں پر مغربی اقوام حملہ آور ہونے لگیں ایک حملے کی قیادت پیسا کے بادشاہ ہیگ نے کی انہیں روم کی حمایت اور املفی کے پینٹالیون کا تعاون بھی حاصل تھا، ان کی حمایت ٹسکنی کی ملکہ میتھلڈ نے بھی کی۔اگرچہ مہدیہ پر اطالویوں نے قبضہ کر لیا تھا لیکن وہ اسے محفوظ رکھنے میں ناکام رہے اور مہدیہ سے لوٹی گئی تمام رقم سے پیسا کیتھیڈرل کی تعمیر کی اور نئے چرچ بھی بنائے۔تاریخ دان کارل ایڈرمین، جو صلیبی جنگوں کی تاریخ کا ماہر ہے، اس حملے کو پہلی صلیبی جنگ کے آغاز کی علامت سمجھتا ہےجو دراصل آٹھ سال بعد شروع ہوا تھااور جو سینٹ پیئر کی کمان میں تھا جس میں ان کا مقابلہ مسلمان شہزادوں کے ساتھ تھا۔سسلی کے بادشاہ نارمن کنگ روگی دوم نے سنہ 1148 عیسوی میں اس شہر پر قبضہ کر لیا اور 1160 تک وہیں رہا جب تک یہ شہر الموحدوں کے ہاتھ میں نہ چلا گیا۔

یوں شہر نے اپنی سیاسی اہمیت کھو  دی لیکن اس نے اہم ترین بندرگاہ کے طور پر اپنی حیثیت برقرار رکھی۔مہدیہ کی تجارتی اہمیت کم رہ گئی تھی اور یورپ وینس کی تجارتی مرکزیت میں اضافے کے لیے ایک جنگی مہم ترتیب دی گئی۔جینوا نے صلیبی جنگ کی شکل میں ایک فوجی مہم کا اہتمام کیا اس کا مقصد یہ تھا کہ بحری قزاقوں سے مسیحیوں کو پہنچنے والے نقصان کا بدلہ لیا جائے۔اس طرح اسے فرانسیسی اور انگریز پادریوں کی حمایت حاصل ہوئی،  لوئس دوم، بوربن کے بادشاہ بھی اس جنگ کی حمایت میں  سامنے آئے جنہوں نے شہر کی قیادت سنبھالی، بوجی، بون، قسطنطنیہ اور بہت سے دوسرے علاقوں کے مغرب بربر اہل تیونس کی مدد کے لیے سامنے آئے۔اس طرح یہ شہر ان حملوں سے دفاع کرنے میں کامیاب رہا،یوں کند ذہن یورپی باشندے  61دنوں کی بے سود لڑائیوں کے بعد واپس جانے پر مجبور ہو گئے۔

بحری قزاق دارگوت نے 16ویں صدی میں مہدیہ شہر پر قبضہ کر لیا جس نے اسے اپنی حکمرانی کا مرکز بنا دیا اور چارلیکون نے 1550ء میں اس شہر پر قبضہ کر لیا اور ہسپانوی 1554ء تک وہاں رہے اور ان کے جانے کے ساتھ ہی ہسپانویوں نے شہر کو تباہ کر دیا۔ قلعے مکمل طور پر تباہ ہو گئے جنہیں عثمانیوں نے صرف جزوی طور پر تعمیر کیا۔ اس طرح سے شہر میں دوبارہ زندگی کا آغاز ہوا شہر کو امن ملا یہ تیونس میں ماہی گیری کی سب سے اہم بندرگاہوں میں سے ایک بن جاتا ہے۔

شہر کے اہم مقامات اور یادگاریں

سقیفہ الکہلہ یا باب زوویلہ: یہ قلعہ بند شہر کے سب سے اہم دروازوں میں سے ایک ہے۔ یہ دسویں صدی عیسوی کے لگ بھگ 916 اور 921 عیسوی کے درمیان تعمیر کیا گیا تھا۔ اسے 16 ویں صدی میں بحال کیا گیا تھا۔ اسے سب سے بڑا  دروازہ سمجھا جاتا ہے۔ قدیم شہر اور اس کی سب سے اہم تاریخی یادگاروں میں سے ایک کا اہم داخلی مقام ہے۔

البرج الکبیر: یہ ایک راہداری والا قلعہ ہے شہر کے بیچ میں واقع ہے اسے 1595 عیسوی میں تعمیر کیا گیاہے اور راس افریقہ کے علاقے کو ظاہر کرتا ہے۔

عظیم الشان مسجد: اسے شیعہ خلیفہ عبید اللہ المہدی نے سن 916 عیسوی میں تعمیر کیا تھا اور یہ مسجد سائلو کی عدم موجودگی کی وجہ سے ممتاز ہے۔ مسجد میں بہت سی تبدیلیاں اور تزئین و آرائش کی گئی ہے اوراسے دسویں صدی عیسوی کے ڈیزائن کے مطابق 1961 اور پھر 1965 میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔

جامع مسجد الحاق مصطفی حمزہ: یہ 1772 میں تعمیر کی گئی تھی اور بیسویں صدی کے وسط میں اس کی تزئین و آرائش کی گئی تھی۔یہ عثمانی دور کے مذہبی فن تعمیر کا نمونہ ہے۔

مہدیہ اپنے سمندری قبرستان کے لیے بھی جانا جاتا ہے، جو جزیرہ نما کے مشرقی سرے پر بحیرہ روم پر واقع ہے۔


جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018