14 شوال 1445 هـ   23 اپریل 2024 عيسوى 12:42 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | منطقے اورعلاقے |  ملاگا اور اسلام: آٹھ صدیوں کا تعلق جب مسلمان انسانیت کے سفیر بنے
2023-01-13   343

ملاگا اور اسلام: آٹھ صدیوں کا تعلق جب مسلمان انسانیت کے سفیر بنے

ملاگا شہر یورپ کے جنوب میں کوسٹا ڈیل سول پر واقع ہے، اسےسورج کے ساحل کے نام سے جانا جاتا ہے، بحیرہ روم کے کنارے، آبنائے جبرالٹر سے تقریباً (100) کلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔

ملاگا کی بنیاد فونیشینوں نے 770 سال قبل مسیح میں رکھی تھی اور اس کا نام (ملہا) لفظ سے لیا گیا تھا، جو بندرگاہ کے قریب نمکین مچھلیوں کی وجہ سے ہے۔

آج ملاگا سپین کا علاقہ ہے جو براعظم یورپ میں واقع ہے یہ سپین کا قدیم ترین شہر ہے بلکہ یہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے، کئی تہذیبوں نے اس پر حکمرانی کی۔اس نے انسانوں کو تہذیبی ورثے کی دولت سے مالا مال کیا۔اس میں کئی مذہبی اور تاریخی یادگار ہیں جہاں فونیشین ،اسلامی اور صلیبی دور کی یادگاریں ہیں۔یہاں عظیم الشان تاریخی قلعے ہیں ان میں مشہور ملاکا کا قلعہ ہے۔

ملاکا کا رقبہ تقریباً 400 مربع کلومیٹر  ہے اور اس کی آبادی 500,000 سے زیادہ ہے۔ اس کا شمار اسپین کی اہم ترین بندرگاہوں میں ہوتا ہے۔ یہاں کی خوشگوار آب و ہوا کی وجہ سے دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں۔ اور اس کے دلکش ساحلوں کے ساتھ تہذیب، تاریخ اور پرکشش مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

معتدل آب و ہوا ملاگا کی خصوصیت ہے، جہاں سردیوں میں ہلکی سردی ہوتی ہے، اور موسم گرما گرم ہوتا ہے۔یہاں سال بھر بہت زیادہ دھوپ سے لطف اٹھایا جاتا ہے، اور یہ کسی بھی دوسرے ہسپانوی شہر سے زیادہ گرم  ہوتا ہے یہ نسبتا گرمی والا شہر ہے۔اس کے اوسط درجہ حرارت کا مشاہدہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سردیوں کے موسم اور دن کے اوقات میں درجہ حرات (17.5) ڈگری ہوتا ہے اور گرمیوں کا موسم آٹھ مہینوں تک جاری رہے گا، اپریل سے شروع ہوتا ہے اور نومبر میں ختم ہو تا ہے۔ بارش کے علاوہ درجہ حرارت تقریباً (26-34) ڈگری سیلسیس تک رہتا ہے۔ موسم سرما کے پہلے مہینوں سے لوگ زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ موسم گرما عام طور پر خشک ہوتا ہے۔

ملاگا کا محل وقوع بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے یہاں سے بحیرہ روم کی بحری نقل و حمل کو مانیٹر کیا جا سکتا ہے۔مدتوں سے اہم مقام کی وجہ سے ملاگا تجارتی کے ساتھ ساتھ بڑا تہذیبی مرکز بھی بن گیا ہے۔یہاں دریاوں اور ندی نالوں کا سلسلہ ہے ان کی مدد سے یہاں زرعی پیداور بہت اچھی ہوتی ہے یہاں کی جھیلیں بہت مشہور ہیں۔اگر یہاں کی زراعت کی بات کی جائے تو انجیر،اخروٹ،بادام ،کیلے،گنا اور زیتون یہاں کی اہم پیداور ہیں۔یہاں سرامک کے برتن تیارہوتے ہیں یہاں کے مقامی کاریگر اس میں بہت مہارت رکھتے ہیں۔یہاں چمڑے کے لباس اور زرعی آلات بنانے کے بھی کارخانے ہیں۔

اسلام

ملاگا شہر یا ملاگا مسلمان سپہ سالار طارق بن زیاد کے زمانے میں سن۹۲ہجری میں فتح  ہوا ۔اس سے پہلے مسلمان رہنما مغیث التمیمی نے قرطبہ شہر کو فتح کیا تھا اور وہ اس فتح کو قائم نہیں رکھ پائے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں کے لوگ کسی بھی طور پر اسلام کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔کلیسا مسیحیت کے علاوہ کسی بھی دین کو  پسند نہیں کرتے تھے۔انہوں ا س سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ یہ دین کتنا ہی انسان دوست اور اعلی اقدار کا حامل کیوں نہ ہو۔اسی لیے موسی بن نصیر نے حقیقی معنوں میں اندلس کو۹۴ ہجری میں فتح کیا۔اس وقت اہل اندلس نے اسلام کو قبول کیا اور ایک مل جل کر رہنے کی زندگی کا آغاز ہوا۔یہاں سے ہی اندلس یورپ میں مسلمانوں کا بڑا مرکز بنا۔یہ چوتھی صدی تک باقی رہا اور پھر مسلمان ممالک میں طوائف الملوکی پھیل گئی اور اہل اندلس بھی جمہود کا شکار ہو گئے سنہ 422 ہجری میں حمودیہ کی حکومت بنی، پھر بنی زیری نے حکومت کی، پھر الموراوید حکمران ہوئےاور ان کے بعد الموحد آئےجو امن لانے اور قانون کی حکمرانی پر عمل درآمد کرنے میں کامیاب ہوئے، پھر ان کی پیروی یوسفی اور بنو الاحمر (بنی نصر) آئے جنہوں نے ملاگا کو ایک عظیم ثقافتی اور اقتصادی حیثیت دی۔یہاں سے ہی ایک عظیم الشان تہذیب کی بنیاد پڑی جو بہت طاقتور تھی یوںیہ علاقہ صلیبیوں کے سامنےمسلمانوں کی دفاعی لائن بن گیا اور یہ آٹھویں اور نویں ہجری صدی تک قائم رہا۔

ملاگا اور اسلامی تہذیب کا تعلق آٹھ صدیوں تک پھیلا ہوا ہے۔مسلمانوں نے ان آٹھ صدیوں میں یہاں ایک عظیم الشان تہذیب کی بنیاد رکھی اس تہذیب میں سیاسی،اقتصادی اور زرعی نظام قائم کیا اور ملاگا کو علم و تہذیب کا مرکز بنا دیا۔۸۹۲ میں یہ صلیبیوں کے ہاتھوں میں چلا گیا انہوں نے مسلمانوں کا بے تحاشہ قتل عام کیا ،لوگوں کو جلاوطن کیا،ان ڈرایا دھمکایا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔جب بھوک پیاس کی وجہ سے ہتھیار ڈال دیے گئے تو صلیبیوں نے ملاگا کے مسلمانوں کو غلام بنا کر بیچ دی اور مسلمان بطور تحفے بڑے لوگوں اور بادشاہوں کو بھجوائے گئے۔وہ دور جب ملاگا میں مسلمان متحد تھے تو جزیرہ نما آئبیرین میں غرناطہ  پر مسلمانوں نے ایک طویل عرصہ حکومت کی۔

اتھریا... ملاگا سیٹاڈل کا قلعہ جو شہر کے شمال مشرق میں پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے، ملک کے اہم سیاحتی مقامات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہ چوتھی ہجری صدی میں تعمیر کیا گیا تھا، مسلم رہنما عبدالرحمٰنIII کے حکم پر ایک قدیم فونیشین قلعہ کی باقیات پر تعمیر کیاگیا، جہاں قلعہ پائن اور صنوبر کے درختوں سے گھرا ہوا ہے، اس کے علاوہ لوہے کی اونچی دیواریں، چوک اور چوڑے فوارے ہیں جو کہ دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔  قلعہ کی مرکزی عمارت کے اندر چوکور اور قدیم عمارتیں بھی شامل ہیں۔انتہائی دیدہ زیب عمارات،بہت خوبصورت بلند و بالا درخت اور پھر سامنے سمندر دیکھنے والوں کے لیے عظیم الشان نظارہ ہوتا ہے۔

ملاگا شہر میں ملاگا کا قلعہ بھی ہے جو ایک خوبصورت اسلامی طرز تعمیر  کا حامل ہے۔پانچویں ہجری صدی میں مسلمانوں کے ہاتھوں تعمیر ہوا اور یہ اپنے فن تعمیر کا شاہکار ہے اور اس کی قلعہ بندی کی مہارت ا سے ممتاز کرتی ہے۔ خاص طور پر چونکہ یہ شہر کے وسط میں ایک پہاڑی پر تعمیر کیا گیا تھا جس کے چاروں طرف سے ایک ناقابل تسخیر دیوار ہے، ساتھ ہی کئی دفاعی ٹاورز جو فوجی استعمال کرتے تھے فوجی مقاصد کے لیے تعمیر کیے گئے ہیں۔

جزیرے میں نارمن عیسائیوں کے داخلے اور راجر اول کی قیادت میں ان کے اس پر قبضہ کرنے کے مسلمانوں پر بہت برے اثرات ہوئے۔ مسلمانوں کے دیہاتوں کو تباہ کر دیا گیا  اور ان پر ظالمانہ ٹیکسوں کے نافذ کیا گیا اس کے باوجود سسلی کے مسلمان اپنے مذہب پر قائم رہے۔ اور اگر چہ یہ پوشیدہ طریقے سے تھا مگر انہوں نے اپنی عبادات اور رسومات کو جاری رکھا ۔انہوں نے جزیرے پر سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور فوجی امور میں کافی حصہ ڈالا۔ اس جزیرے میں اطالویوں اور فرانسیسی لومبارڈز کی بڑے پیمانے پرا ٓمد کی نے مسلمانوں کی زندگیوں کو جہنم میں بدل دیا، انہیں ان کی زرخیز زرعی زمینوں سے محروم کر دیا گیا اور مذہبی وابستگی پر قتل کیا گیا۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018