10 شوال 1445 هـ   19 اپریل 2024 عيسوى 12:21 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | توحید |  توحید اور مسیحیوں کا عقیدہ تثلیث
2021-12-15   1159

توحید اور مسیحیوں کا عقیدہ تثلیث

اسلام کے علاوہ موجود الہی ادیان کے بارے میں جاننا ہر مسلمان مومن فرد کے لیے ضروری ہے جو اللہ خالق و مالک و صاحب اقتدار پر ایمان رکھتا ہے۔اس لیے کہ ہر مسلمان ہر اس آسمانی کتاب پر ایمان رکھتا ہے جو پہلے نازل ہو چکی ہے،اسی طرح وہ ان تمام انبیاءؑ پر ایمان رکھتا ہے جو نبی اکرم سے پہلے آ چکے ہیں۔

بائبل کے بارے میں مسلمان کچھ تحفظات رکھتے ہیں کہ کیا سچ میں یہ وہی بائبل ہے؟ یا اس میں تحریف کر دی گئی ہے اور جعل سازی کے ذریعے اس میں کچھ دیگر چیزیں شامل کر دی گئی ہیں۔اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ انجیل میں غور و فکر کریں مسیحی مذہب کےنظریات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔بالخصوص ہمارے سید و سردار حضرت مسیحؑ کے بارے میں جو کچھ آیا ہے اس کے بارے میں تحقیق کریں۔ان میں سے ایک اہم چیز تثلیث کا عقیدہ ہے یا تین کی الوہیت کا عقیدہ جسے باپ،بیٹا اور روح القدس کہا جاتاہے۔

یہ کہا جاتا ہے کہ تثلیث کا عقیدہ مسیحیوں کی ایجاد نہیں ہے کہ یہ انتہائی خطرناک عقیدہ حضرت مسیحؑ سے سو سال پہلے برہمانیوں نے بنایا تھا۔وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ان کا ازلی رب برہما ہے اور خالق کے طور پر وہ وشنو کو مانتے ہیں اور سیفا کو ایک محافظ کے طور پر تسلیم کرتے ہیں جو بدی کو ختم کرنے والا ہے اور اس دنیا کو بھی وہی ختم کرے گا۔

دوسری طرف دیکھیں تو ہندو بھی رب کے ساتھ تری مورتی یعنی تثلیث کا عقیدہ رکھتے ہیں۔وہ لوگ براہما کو باپ جو خلق کا موجب جسے وہ اپنی تعبیر میں خلق لاہوتی جو ہمیشہ کے لیے ہوتی ہے کہتے ہیں۔انہوں نے وشنو کو محافظ کا درجہ دیا ہے اور شیوا وہ کائنات کو ختم کرنے والا ہے اور اس کی ابتدا کی طرف پلٹانے والا ہے۔

مسیحیوں نے اس عقیدے کو تقدس کی صورت دی ہے اور اس پر بحث نہیں کرتے۔ وہ دل سے اس پر عقیدت و ایمان رکھتے ہیں ذہن کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ اس پر بحث کرے اور اس پر سوال اٹھائے۔ اسے منطقی تجزیہ سے دور رکھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ حقیقت میں تثلیث کو دیکھنا ممکن ہی نہیں ہے۔تثلیث کی حقیقت کو عقل سمجھ ہی نہیں سکتی، عقل مادی قیاس کے قضایا کی مدد سے سمجھتی ہے۔یہ تثلیث توحید کے منافی بھی نہیں ہےبلکہ یہ توحید خالص ہے یہاں تین کی تعبیر مجازی ہے ورنہ یہ نہیں ہو سکتی۔تاریخی طور پر تثلیث ایک طرف خالص مسیحی عقیدہ ہے اور دوسری طرح بظاہر بریصغیر کے انسان کے بنائے ہوئے عقیدہ کا حصہ ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ ایک سے زیادہ انجیلیں مسیحیوں کے پاس موجود ہیں اور یہ سب کی سب حضرت مسیحؑ کے سالوں بعد لکھی گئی ہیں۔مسیحیوں میں موجود تثلیث کا یہ عقیدہ ایک طرف غلو کا عکاس ہے اور دوسری طرف جہالت کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔اس سے زیادہ عجیب یہ ہے کہ تثلیث کے پیروکار خود کو توحید والے کہتے ہیں۔اللہ تعالی تثلیث سے بلند ہے ان کے گمان کے مطابق اللہ تین میں ایک ہے اور وہ تین ہیں یعنی وہ تین ایک ہیں خدا محدود نہیں اب ،ابن اور روح القدس وہ ان کو الہ کہتے ہیں در حالانکہ وہ واحد ہے ان کے زعم میں۔اس ایک کو ان تین سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے۔یوں الہوہیت ان تین کے ذیل میں متحقق ہے اور اس میں کوئی نقص و عیب بھی نہیں ہے۔اس سے دقیق الفاظ میں کہیں تو مسیحیوں کے مطابق خود الہ تین سے مل کر بنا ہے اور تینوں برابر ہیں یعنی باپ ،بیٹا اور روح القدس،اس طرح کہ باپ تمام بیٹے کے ذریعے تمام کائنات کا خالق ہے اور بیٹا چھڑانے والا ہے اور روح القدس پاک کرنے والا ہے ۔ ان تینوں میں سے ہر ایک کا ایک کام ہے اور ایک مقام ہے۔

یہ فکری اور عقیدتی مسئلہ ہے جب کوئی اس تجسیم کا قائل ہوتا ہے تو فوری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کس طرح اللہ ایک جسمانی ساخت جو انسان کی ہے اس میں مجسم ہوا؟جب وہ ایک جسم میں مجسم ہوا تو اس جسم کی عمارت میں ڈھل جانے کے بعد کھانا،پینا اور لباس کا ضرورت مند ہو گیا۔ یہ ایسا فرض ہے جس کو منصف مزاج قبول نہیں کرتا اور یہ تضادات کا حامل ہے۔مسیحی پادریوں نے مسیحی شعور کو سوچنے اور فکر کرنے سے دور کر دیا کہ وہ صرف بات کرتے ہیں اور اس کے متعلق غور نہیں کرتے اور ان کی عقل کو اس طرح گھمادیا کہ وہ حقیت کی طرف نہیں جاتے۔

مسیحی ان نظریات کو حتمی سمجھتے ہیں حققیت کو تلاش کرنے والے جو عقل کے ذریعے حقیقت کے متلاشی ہوتے ہیں ان کی بحث اور بالخصوص جو غیب اور مابعد از طبیعات پر بات کرتے ہیں ان کی فکر کچھ عقلی اور منطقی مقدمات پر قائم ہوتی ہے۔یہ بھی واضح ہے کہ وہ قیاس کا عمل جس جو عادی مادی قیاس میں ہوتا ہے اس میں اس عمل میں بہت فرق ہے کیونکہ فرض ہی وہم کی بنیاد پر ہےاور وہم عقل و فکر کو حقیقت جاننے سے دور کر دیتا ہے۔حقیقت کو جاننے سے دور کرنا کسی بھی دین میں مطلوب عمل نہیں ہے ہر چیز کی عقلی توجیح ہونی چاہیے غیب میں بھی نقیضین کا جمع کرنا درست نہیں ہے ممکن کا ذکر علت موجدہ کے ساتھ ہوتا ہے۔یہاں یہ سوال بنتا ہے کہ کیسے تین بھی ہوں ؟اور ساتھ میں توحید بھی ہو، تو کیا اس وقت ان تینوں کی ایک مستقل حیثیت ہو گی؟اگر تینوں کی ایک حقیقی صورت ہو اور پھر کہیں کہ وہ واحد بھی ہے تو یہ عقلا ممکن نہیں ہے اور ہم منطق کے اس قاعدہ کو بھی جانتے ہیں کہ نقیضیں کا جمع ہونا ممکن نہیں محال ہے۔

ایک اور طرح سے بات کر لیتے ہیں کہ سوال یوں فرض کر لیتے ہیں کہ خدا تین اجزاء سے مل کر بنا ہے(اس کی جسمانیت کے بارے میں ہمارا جو نظریہ ہے اس سے قطع نظر)اب یہ ضروری ہو گا کہ ان تین کا اجتماع رہے تاکہ اللہ ایک رہے۔یہ عملی طور پر محال ہے کیونکہ اس سے دور اور تسلسل لازم آتے ہیں جو عقلا ممکن نہیں ہے۔واجب الوجود کا وجود میں آنا ممکن الوجود کے وجود پر موقوف ہوجاتا ہے۔واجب الوجود تو اللہ ہے اور ممکن الوجود باپ اور روح القدس ہے۔اس طرح ان لوگوں نے اللہ کو ایسا مرکب بنا دیا جو اجزاء کا محتاج ہے۔جب وہ محتاج ہو گیا تو یہ ممکن ہے اور واجب نہیں ہے۔اللہ تعالی محتاج ہونے سے بہت بلند ہے یہ تو وہم محض ہے جس کی پہلے مثال نہیں ملتی ۔

کیتھولک جو ایک قدامت پسند اور سخت گروہ ہے انہوں نے مذہب اور سائنس کو الگ کیا ہے۔انہوں نے مادہ پرست سائنسدانوں کو مجرم قرار دیا اور کہا کہ یہ لوگ مقدسات کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور نئے طریقے ایجاد کرتے ہیں۔انہوں نے کہا ہے کہ دین فقط ماننے کا نام ہے اور اس میں علم کو کسی قسم کا کوئی دخل نہیں ہے کہ وہ ہمارے دین کا تعین کرے۔پروٹسنٹنت کی تحریک ایک اصلاحی اور روشنی خیالی کی تحریک تھی ان کی کوششوں کے باوجود کیتھولک کے یہی نظریات رہے اور وہ ان کے خلاف رہے اور انہوں نے مسیحی عقائد کو بہتر بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔پھر مسیحی عقل کو کلیسا کے جبر سے رہائی ملی اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہےا ور یہ محفوظ کتا ب ہے:

 (إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ) (الحجر ـ 9)

اس ذکر کو یقینا ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔

قرآن حضرت مسیحؑ کے متعلق درست عقیدہ کو بیان کرتا ہے کہ وہ اللہ کے بندے تھے اللہ تعالی نے انہیں انسانوں کی ہدایت کے لیے نبوت و رسالت سے نوازا اور وہ اس سے زیادہ کچھ نہ تھے۔نبی اور رسول ہونا ایک بہت بڑا مقام ہے قرآن نے آپ کے بارے میں یہ بتایا ہے جو چودہ سو سال پہلے آیا ہے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

((مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ ۖ كَانَا يَأْكُلَانِ الطَّعَامَ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ ثُمَّ انظُرْ أنى يُؤْفَكُونَ))(المائدة ـ75)

مسیح بن مریم تو صرف اللہ کے رسول ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں اور ان کی والدہ صدیقہ (راستباز خاتون) تھیں، دونوں کھانا کھایا کرتے تھے، دیکھو ہم کس طرح ان کے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتے ہیں، پھر دیکھو یہ لوگ کدھر الٹے جا رہے ہیں۔

پھر اللہ تعالی فرماتا ہے:

((لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ۗ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ))(المائدة ـ17)

تحقیق وہ لوگ کافر ہو گئے جو کہتے ہیں: عیسیٰ بن مریم ہی خدا ہے، ان سے کہدیجئے: اللہ اگر مسیح بن مریم، ان کی ماں اور تمام اہل زمین کو ہلاک کر دینا چاہے تو اس کے آگے کس کا بس چل سکتا ہے؟ اور اللہ تو آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا مالک ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔

اللہ تعالی نے خود سے ہر طرح کی ترکیب کی نفی کی کہ وہ اجزاء سے بنا ہے ارشاد باری تعالی ہے:

((لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ ۘ وَمَا مِنْ إِلَٰهٍ إِلَّا إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۚ وَإِن لَّمْ يَنتَهُوا عَمَّا يَقُولُونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ))(المائدة ـ73)

تحقیق وہ لوگ کافر ہو گئے جو کہتے ہیں: اللہ تین میں کا تیسرا ہے جبکہ خدائے واحد کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اگر یہ لوگ اپنی ان باتوں سے باز نہیں آتے تو ان میں سے کفر کرنے والوں پر دردناک عذاب ضرور واقع ہو گا۔

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

((وَلاَ تَقُولُوا ثَلاَثَةٌ انتَهُوا خَيراً لَّكُم إِنَّمَا اللّهُ إِلَـهٌ وَاحِدٌ سُبحَانَهُ أَن يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَات وَمَا فِي الأَرضِ وَكَفَى بِاللّهِ وَكِيلاً ))(النساء ـ171)

اور یہ نہ کہو کہ تین ہیں، اس سے باز آ جاؤ اس میں تمہاری بہتری ہے، یقینا اللہ تو بس ایک ہی معبود ہے، اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو، آسمانوں اور زمین میں موجود ساری چیزیں اسی کی ہیں اور کارسازی کے لیے اللہ کافی ہے۔

مسیحی فکر میں ایک اور کجی بھی ہے جس طرف وہ متوجہ بھی کم ہی ہیں وہ حضرت مسیح ؑ کی وفات کا کہتے ہیں اور اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ انہیں سولی پر چڑھایا گیا اور مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت مسیح ؑ کو آسمانوں پر اٹھالیا ہے۔ایک اور اہم بات کہ ان کا یہ کہنا کہ حضرت مسیح ؑ وفات پا چکے ہیں یہ بتاتا ہے کہ آپ انسان تھے۔یہ فطری قوانین کے مطابق ہے کہ ہر بشر کو موت آتی ہے اور اللہ کے لیے موت ممکن نہیں ہے اسی طرح اللہ کے اجزاء کو بھی کسی بھی حالت میں موت نہیں آ سکتی اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ حضرت مسیح ؑ اللہ کے بیٹے نہیں ہیں۔

حضرت مسیح ؑ کو الہہ قرار دینا محال ہے اسی طرح حضرت مسیح ؑ کو اللہ کا بیٹا کہنا بھی محال ہے کیونکہ جب ہم کہیں گے کہ حضرت مسیح ؑ اللہ کے بیٹے ہیں تو اس کے لیے ہمیں اللہ کے لیے کسی محدود جسم کا قائل ہونا پڑے گا۔اللہ کے لیے کسی محدود جسم و جسمانیت کا عقیدہ رکھنا کسی طور پر درست نہیں ہے۔اگر حضرت مسیح ؑ کو اللہ کا بیٹا کہیں تو اس سے اللہ کا محتاج ہونا لازم آتا ہے اور واجب الوجود کسی چیز کا محتاج نہیں ہوتا۔اللہ تعالی باپ ہونے سے بلند ہے اگر ایسا مانا جائے تو وہ مادی چیز اور عام شئی ہو جائے گا اور اس میں تعدد لازم آئے گا جبکہ وہ اکیلا ہے کوئی ایک سے زیادہ بھی ہو او رایک بھی ہو ایسا ممکن نہیں اور کوئی صاحب عقل اور دنیا کی کوئی منطق نفس وقت میں اسے درست نہیں سمجھتی۔

اس عقیدہ نے مسیحیوں کو بڑی الجھن میں مبتلا کر رکھا ہے جدید مسیحی علما نے اس کے کچھ مصنوعی جوابات بنائے ہیں جو مکڑی کے جال سے بھی کمزور ہیں ۔انہوں نے ان کی مثال سورج کی شعاعوں سے دی ہے جو سورج سے نکل رہی ہوتی ہیں اور ان شعاعوں کا نور ہر چیز کو روشن کر دیتا ہے،ان شعاعوں کی حرارت ہر جگہ پھیل جاتی ہے اور زندگی کے اسباب پیدا کر دیتی ہے۔حالانکہ یہ تو تراکیب اور جزئیت کا تعلق رکھی ہیں جو ہم اللہ میں فرض نہیں کر سکتے کیونکہ اللہ کسی ترکیب سے نہیں بنا اور نہ ہی کچھ اجزاء سے مل کر بنا وہ ہر چیز کو بنانے والا ہے ہر چیز کی علت ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018