14 شوال 1445 هـ   23 اپریل 2024 عيسوى 6:48 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2021-04-04   696

مجاہد،شاعر سید محمد سعید الحبوبی

جب دوسری عالمی جنگ ۱۹۱۴ء میں شروع ہوئی اور عثمانی حکومت نے اتحادیوں سے جنگ کا اعلان کیا تو عراق کے مسلمانوں نے بھی اس وقت بصرہ میں موجود انگریز دستوں کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔جہاد کا یہ علم سید محمد سعید حبوبی نے بلند کیا انہوں نے مجاہدین کی قیادت کی ،مجاہدین اور برطانوی افواج کے درمیان شعیبہ میں ایک معرکہ برپا ہوا۔ ایسے میں حبوبی نے مجاہدین کو دفاع وطن پر ابھارنے، اپنے مقدسات کی حفاظت کرنے اور جوش دلانے کے لیے ایک خط لکھا جس کا اختتام ان اشعار پر ہوتا تھا:

نحنُ بني العربِ ليوث الوغى دينُ الهدى فينا قويٌّ عزيز

لا بد أن نزحفَ في جحفـــــلٍ نبيـــــدُ فيه جحفلَ الإنكليز

ہم عربوں کے بیٹے ہیں ہم دین حق کو عزیز رکھتے ہیں اور یہ ہماری قوت ہے۔ہم انگریز لشکروں سے لڑیں گے اور ٹکرائیں گے۔

علما میں اکیلا حبوبی ہی نہیں تھا جو جہاد کر رہا تھا بلکہ بڑے مجتہدین کی ایک اچھی خاصی تعداد تھی جو ان معرکوں میں شریک تھی ۔ان مجاہد علما میں شیخ الشریعہ الاصفہانی،سید علی دماد،محمد حسین قمشھی صغیر،سید محمد حسین عبدالعظیم ، شیخ باقر جیلہ،سیدابوالقاسم کاشانی اور دیگر بہت سے علما اس میں شامل تھے۔

حبوبی ان مجاہد علما میں سب سے آگے آگے تھے۔آپ نے شعبیہ میں ایک لشکر جرار کی قیادت کی جس کی تعداد نوے ہزار مجاہدوں کی تھی۔ اس میں ان کے قابض قوتوں کے ساتھ کئی معرکے ہوئے جس میں انہوں نے شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ جب ترک افواج مرکز میں شکست کھا گئی اور طویل لڑائیوں کے بعد عراق سے پیچھے ہٹ گئیں۔تو بھی یہ لوگ تعداد میں کم اور ہتھیاروں کے کم ہونے کے باوجود انگریز فوج سے دلیری سے لڑے۔ حبوبی ناصریہ کی طرف پلٹ آئے یہاں انہوں نے قبائل کو جہاد پر ابھارا۔یہاں انہیں اجل نے آ لیا اور آپ شعبان کے اوائل ۱۳۳۳ھ ۱۹۱۹ ء میں فوت ہو گئے۔آپ کو نجف لایا گیا جہاں آپ کا عظیم الشان جنازہ ہوا اور آپ کو صحن حیدری میں دفن کیا گیا۔

آپ کی وفات پر پورے عراق میں غم و افسوس کی لہر دوڑ گئی۔شعراء و ادباء نے آپ کے وفات پر آپ مرثیے کہےشیخ  جواد نے حبوبی کے وفات پر یہ مرثیہ کہا:

فقيد المسلمين غداة أودى حسبــت الدين بينهم فقيدا

لئن وجدوه للداعي مجيباً فقـــــد فقدوه قرآناً مجيدا

وإن شهدته أعينهم سعيداً فقد حملته أرؤسهم شهيدا

تقدم للجهاد أمير ديــــــن وساق المسلمين له جنودا

ومذ لاقى المنية أرّخــوه (سعيد في الجهاد قضى سعيدا)

مسلمانوں نے بہت بڑی شخصیت کو کھو دیا ہے اگر جواب دینا والا موجود ہے تو ایسے ہی ہے جیسے انہوں نے قرآن مجید ہی کھو دیا ہو۔ایک سعید چلا گیا اور ایک شہید کا جنازہ اٹھا رہے ہیں۔ وہ جہاد میں سبقت لے جانے والے تھے اور دین و لشکر کے امیر تھے۔ان کی موت سے ملاقات ہو گئی اس لیے ہم ان کی تاریخ وفات کہہ رہے ہیں۔آپ جہاد میں بھی کامیاب تھے اور موت میں بھی کامیاب ہیں۔

علی شرقی نے بھی آپ کی وفات پر آپ کے لیے مرثیہ کہا جس کی کچھ اشعار یہ ہیں:

وشاؤوك للأوطان ظهراً ممنّعـــــاً وما شعروا إلا بقاصمة الظهرِ

وكم خطوة للمجد قمت بسعيهــــــا تقصر من إدراكها خطوة الخضرِ

وكم ليلة ماليلة القدر مثلهــــــــــــا ووجهك في آفاقنا مطلع الفجرِ

مضى منعة الأبصار وجهاً مباركاً  نقياً كقرص البدر أو طبق الزهرِ

ظہر کو آبائی وطن جانا درست نہیں ،آپ نے کامیابی کے لیے کتنی کوشش کی؟اس کا شعور کتنا  ہے؟کتنی راتیں ہی جو لیلۃ القدر کی طرح ہیں؟تمہارا چہرہ ہمارے لیے طلوع فجر کی طرح ہے۔ہمارے نظر بس گزر گئی ایک ایسے مبارک چہرے سے جو بدر کی طرح تھا۔

سید حبوبی کے ذریعے ہم نے ایک بڑے شاعر اور مجاہد محمد سعید حبوبی کو جاننے کی کوشش کی جن کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں اورروشن کارنامے ہیں۔ہمارے لیے اچھا یہ ہے کہ ہم ان کی علمی،جہادی اور ادبی زندگی کو جاننے کی کوشش کریں۔

سید محمد بن سید محمود بن سید حمزہ بن سید مصطفی (حبونی کے دادا) نجف اشرف میں (1266هـ/1849م) میں پیدا ہوئے۔حبوبی کا خاندان ایک عربی خاندان تھا جن کا نسب امام حسن بن علی بن ابی طالبؑ سے ملتا ہے۔یہ خاندان اصل میں حجازی تھا ان کی اکثریت وہیں رہتی تھی۔عراق میں یہ خاندان سماوہ ،نعمانیہ،نجف اور عراق کے دیگر شہروں میں پھیلا ہوا ہے۔اس خاندان کے اکثر لوگوں  کا ذریعہ معاش تجارت ہے۔

حبوبی کی پرورش علمی و ادبی ماحول میں نجف اشرف میں ہوئی۔ اس تربیت کا حبوبی کی شخصیت پر بہت زیادہ اثر تھا۔اس سے علمی و ادبی ذوق کی بنیاد پڑی۔ انہوں نے عالم اسلام کو سینکڑوں ممتاز اسکالرز ، شاعر ، ادیب ، مفکرین ، باصلاحیت افراد اور مبلغین فراہم کیے۔اس کے علاوہ حبوبی کے پاس بہت سی صلاحیتیں اور قابلیتیں موجود تھیں جو علمی اور ادبی ترقی میں مہارت حاصل کرنے کا ذریعہ تھیں۔

حبوبی نے علامہ مرزا حسین قلی سے اخلاقیات اور ریاضی پڑھی،فقہ اور اصول فقہ شیخ محمد حسین کاظمی سے پڑھا،ان کی وفات کے بعد حبوبی محمد طہ کے درس میں نجف اشرف حاضرہوئے،اس عظیم استاد نے حبوبی کے علم ومنزلت کی بہت زیادہ تعریف کی ہے۔اس کے بعد حبوبی تالیف و تدریس میں مشغول ہو گئے،آپ سے بہت زیادہ طلاب ،علما او رمجتہدین نے علم حاصل کیا۔اسی طرح آپ نے فقہ و اصول میں بڑا ذخیرہ علمی میراث میں چھوڑا ان میں سے فقط آپ کا دیوان شعری ہی طبع ہو سکا۔

جب ہم حبوبی کے علم  اور فہم کی طرف دیکھتے ہیں تو اسے ایک سمندر پاتے ہیں،اس کے اشعار اور اس کا دیوان اس کے ادبی مقام کا پتہ دیتا ہے کہ وہ شعر میں بھی اعلی منزل پر فائز ہے۔جب آپ نجف میں تھے اس وقت نجف میں بڑے بڑے ادیب اور شعراء موجود تھے جو اپنے فن کے نابغہ تھے جیسے سید جعفر حلی،سید موسی طالقانی،شیخ عباس قرشی ،شیخ محسن خضری اور دیگر ۔حبوبی کے اشعار ان کی دقت اور حسن اختیار سے ممتاز ہوتے ہیں اس پر اضافہ اس کے اسلوب کی خوبصورتی کا ہے جس میں زبردست تراکیب استعمال ہوتی ہیں۔حبوبی خوبصورت مطلع کہتے تھے ان کے کلام کے اعلی معیار ہونے  سے اس کے اشعار کا مطالعہ کرتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے عباسی دور کے کسی شاعر کے اشعار کو پڑھ رہے ہیں۔

حبوبی کہتا ہے:

أبِنْ ليَ نجوى لو تطيق بيانــــــا ألستَ لعدنـــــانٍ فماً ولسانا

وأبلغ خطاباً فالبلاغة سلِّمــــــت لكفيــــك منها مقوداً وعنانا

وجلْ يا جوادَ السبقِ في حلباتِها  فهاشم سامت للسباتِ رهانا

اس قصیدہ کے ۸۵ بیت ہیں یہ ایک طویل قصیدہ ہے مگر اس کے باجود اس کی تاثیر کم نہیں ہوتی اور پڑھنے والا تھکتا نہیں ہے اس کی وجل یہ ہے کہ اس میں مرثیہ کے تمام خصائص موجود ہیں۔حبوبی کہتا ہے:

أغيث الأيادي قد تقشّـــــــــــــع غيثهـــــا وحين المعادي كيف حينكَ حانا

صرعتَ وما خلتُ الردى يصرعُ الردى لعمري وما يفني الزمانُ زمانا

فيا صارماً لاقى من الموتِ صارمــــــــاً بلـــــــى وسناناً ذاق منه سنانا

قصیدہ کے دوسرے اشعار نہ ملنے اور جدائی کے احساس کو بیان کرتے ہیں جس میں غم و اداسی پائی جاتی ہیں کچھ ملاحظہ ہو:

أجدّك علّمني لوصلكَ حيلـــــــةً فأنتَ الذي علّمتني الهيمانا

وهب أن سمعي نافع بحديثكــــم أللعين معنىً أو تراكَ عيانا

ولا أسفاً ما أن مضى الدهر كلّه  هباءً إذا أبصرتُ وجهكَ آنا

دیوان کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حبوبی کی زیادہ تر شاعری قسمت کے اردگرد گھومتی ہیں۔اس کو حبوبی نے اس مہارت سے بیان کیا ہے کہ اسے دیگر ہم عصرہ شعراء پر فوقیت حاصل ہو گئی ہے۔اس کے الفاظ،اسلوب میں بہت زیادہ اصلیت ، خوبی، نرمی اور مٹھاس پائی جاتی ہے۔یہ کوئی راز نہیں ہے شاعر نے اپنی شاعری میں ان تمام خصوصیات کو پرو لیا ہے۔شاعر اپنے کلام میں تمام اغراض کو پہنچانا چاہتا ہےیہ مرثیہ ہو ،مدح ہو اس میں خیالات کی فراوانی ہے اور اس کے بیان کے لیے ہمت بھی ہے۔جیسے اس نے دعد،ھند او رسعاد،  کعبت بن زہیر نے نبی اکرمﷺ کی شان میں اپنی قصیدہ میں اس کا استعمال کیا ہے:

بانت سعاد فقلبي اليوم متبولُ متيمٌ بعدها لم يفد مكبولُ

هيفاء مقبلة عجزاء مدبـــــرة لا يشتكى قصر منها ولا طولُ

حبوبی کے دور میں شعراء اسی طریقے پر عمل کرتے تھے شعر و شاعری میں مہارت حاصل کی اور اس کے استعمال پر حبوبی کو مہارت حاصل تھی اور اپنے مقام کو بیان کیا ہے:

لا تخل ويكَ ومن يسمع يخــل إنني بالراحِ مشغوفُ الفؤاد

أو بمهظوم الحشا ساهي المقل أخجلت قامته سمر الصعاد

أو بربات خدور وكــــــــــــلل  يتفنـــــــــــــنّ بقرب وبعاد

اس نے ایک اور جگہ کہا ہے:

إن لي من شرفي برداً ضفا هو من دون الهوى مرتهني

غير أني رمت نهج الظرفا عفــــة النفس وفسق الألسن

اس باب میں اس کی مہارت تنہائی نہیں تھی ، جو بھی اس کے نوحہ کو پڑھتا ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس مفروضے کے لئے اس  نے خوبصورت اور بے ساختہ انداز میں کلام کہا ہے ، نجف کے ایک دینی عالم یہ کہتے ہیں:

نزعتك من يدها قريش صقيلا وطوتك فذاً بل طوتك قبيلا

فجعت بفقدك واحداً فكأنمــــــا فجعت بآل النظر جيلاً جيلا

وتذكرت في يوم فقدك فقدهــا مضراً فأوصلت العويل عويلا

ان کی شاعری کے مقاصد مختلف ہیں اور بیان کرنے اور کائنات کے مناظر کو بیان کرنے  کے انداز بھی مختلف ہیں۔فلسفہ ادبیہ کے موضوع پر ایک قصیدہ کہتے ہوئے ہیں کہتے ہیں:

سماء اليوم مثل سماء أمس وما نقصت سموّاً وارتفاعا

وليس بضائر المسك استتارٌ إذا ما عرفه الداريّ ضاعا

وما غبّ البطاح السيل إلا مذ أخضرّت بمجراه بقاعا

ہم اس افسانوی شبیہ کو ان کی ایک الہامی نظم سے نکالتے ہیں:

والموت موعد من تمادى عمره والدهر منجز وعده الموعودِ

ولسوف يقتطف الثريا إذ غـدت تلتــــــام في شبه من العنقودِ

ويدوس سنبله السماء وينثنــــي من زرع أنجمها بكل حصيدِ

ويصيد نسر النجم من أوكاره بشباك مقتنص وفخ مصيدِ

شاید اس موضوع کا اس سے زیادہ ذکر نہیں کر سکتے جو ہم نے الگ الگ مقامات میں کیا ہے ، لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ حبوبی نے موت سے اٹھائیس سال قبل ہی شاعری کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ مذہب  کو جس کی ضرورت ہے وہ اسلامی فقہ،اصول فقہ اور دیگر علوم ہیں۔

حبوبی

حبوبی

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018