11 شوال 1445 هـ   20 اپریل 2024 عيسوى 11:20 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | اخلاق اور اقدارِ اسلامی |  غنا۔۔۔نفاق کے بعد فقر آتا ہے
2020-10-29   469

غنا۔۔۔نفاق کے بعد فقر آتا ہے

غنا: آواز کو خاص انداز میں گلے میں گھمانا غنا کہلاتا ہے جیسے فاسق و فاجر لوگ گھماتے ہیں،یہ شرعی سے زیادہ اس کی عرفی تعریف ہے۔ اس طرح کی موسیقی حرام ہے جس میں آواز کو گھمایا بھی جائے اور اس کے نتیجے میں شہوت میں اضافہ ہو جو فعل حرام پر ابھارے۔موسیقی کے ساتھ ساتھ اس کا اثر ایسا انگیزہ ایجاد کرےجو انسان کے اندر شہوت کو بھڑکائے اور لہو کا ارادہ بھی کیا گیا ہو۔یہ وہ قریب ترین معنی ہے جو گانا گانے والوں کے نزدیک متعارف ہے۔قرآن کریم نے کئی مقامات پر موسیقی کا ذکر کیا ہےاہلبیتؑ نے ان آیات کی تفسیر میں اس کا ذکر کیا ہے۔غنا قول زور میں سے ہے۔امام جعفر صادقؑ نے اس آیت:

((ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِندَ رَبِّهِ ۗ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ ۖ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ))(سورة الحج ــ 30)

بات یہ ہے کہ جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کی عظمت کا پاس کرے تو اس کے رب کے نزدیک اس میں اس کی بہتری ہے اور تم لوگوں کے لیے مویشی حلال کر دیے گئے ہیں سوائے ان کے جن کے بارے میں تمہیں بتایا جائے گا، پس تم لوگ بتوں کی پلیدی سے اجتناب کرو اور جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو۔

کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:یہاں قول الزور سے مراد غنا ہے مومن ان میں سے ہر ایک سے پرہیز کرتا ہے مومن اور محافل موسیقی کا کیا تعلق؟ محافل موسیقی نفاق کو جنم دیتی ہیں۔

غنا کو لھو حدیث میں سے قرار دیا گیا ہے  جن کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

((وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ)) (سورة لقمان ـ 6)

اور انسانوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو بیہودہ کلام خریدتے ہیں تاکہ نادانی میں (لوگوں کو) راہ خدا سے گمراہ کریں اور اس (راہ) کا مذاق اڑائیں، ایسے لوگوں کے لیے ذلت میں ڈالنے والا عذاب ہو گا۔

امام رضاؑ نے اس فرمان کے ذریعے اس کی تفسیر کی ہے:لھو حدیث سے مراد ہر وہ عمل ہے جو اللہ کے راستے سے ہٹا دے، باطل قوتوں کی اطاعت کی طرف لے جائے۔  یہ قول باطل ،مزامیر،ملاہی اور گانے بجانے کی صورت میں ہو سکتے ہیں۔

غنا  لغو ہے اور مومن کے لیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ وہ غنا کی طرف جائے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ((وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا))(سورة الفرقان ـ 72)

اور (عباد الرحمن وہ ہیں) جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب بیہودہ باتوں سے ان کا گزر ہوتا ہے تو شریفانہ انداز سے گزر جاتے ہیں۔

امام جعفر صادقؑ لا (يشهدون الزور ويتعدون اللغو) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مجالس غنا، گمراہی،فحش اور لغو میں شریک نہیں ہوتے۔جب بیہودہ باتیں کرنے والوں کے پاس سے گزرتے ہیں  تو ان کی باتیں نہیں سنتے اور ان کی زبانیں بھی گفتگو سے رک جاتی ہیں۔ان سے رخ موڑ لیا کرتے ہیں،ان کی ہم نشینی اختیار نہیں کرتے اور نہ ہی ان کےساتھ جھگڑا کرتے ہیں یہ صفت کرام ہے۔اللہ کی مخلوق میں  خبیث ترین مخلوق غنا ہے،اللہ کی مخلوق میں شریر ترین مخلوق غنا ہے۔ جیسا کہ آپؑ نے اس کی اسی طرح وضاحت کی ہے۔

قرآن،سنت اور نبی اکرمﷺکی اہلبیت ؑ نے غنا کا معنی بیان کیا ہے اور اس کے حرام ہونے کی وجوہات کو بھی بیان کیا ہے،نبی اکرمﷺ نے فرمایا:اللہ نے مجھے مبعوث کیا کہ میں آلات موسیقی،مزمار اور جاہلیت کے  قانون کو ختم کر دوں۔اسی طرح اللہ  کے نبی ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالی نے مجھے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا ہے اور میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آلات موسیقی،مزمار، بتوں اور صلیت کو مٹا دوں۔ اللہ کے نبی نے فتح مکہ کےدن فرمایا تھا:میں مبعوث کیا گیا ہوں تاکہ  دف اور مزمار کو توڑ دوں۔یہاں تک کہ صحابہ کرام ؓ نے یہ سنا تو  گھروں سے آلات غنا اور لہو کو اٹھایا  اور انہیں توڑ دیا ۔

قرآن اور معصوم کے فرامین نے بیان کر دیا اور یہ واضح ہو گیا کہ غنا ایک ایسا موضوع ہے جس کی حرمت میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اہلبیتؑ سے بعض ایسی روایات مروی ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کو اضطراری حالت میں بھی نہیں سنا جا سکتا۔ امام جعفر صادقؑ سے کسی شخص نے سوال کیا:آپ ؑ پر میری جان قربان ہو میرے پڑوسی ہیں ان کے پاس گانے والیاں ہیں جو گاتی ہیں اور وہ ڈھول بجاتے ہیں میں کبھی کبھی بیت الخلاء میں داخل ہوتا ہوں اور زیادہ دیر لگ جاتی ہیں اس دوران میں انہیں سن لیتا ہوں؟  امام ؑ نے جواب میں ارشاد فرمایا:اس سے بچو۔ اس شخص نے کہا میں اسے اپنے اختیار سے نہیں سنتا میرے کانوں میں آواز پڑ جاتی ہیں؟ امام ؑ نے فرمایا خدا کی قسم کیا تم اللہ کے اس قول کو نہیں سنتے ہو : ((وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولً)) (سورة الإسراء ـ 36)

اور اس کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں ہے کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان سب سے بازپرس ہو گی۔

اس آیت کی تفسیر میں یہ بات آئی ہے کہ ہر سنی ہوئی چیز کے بارے میں سوال ہوگا،آنکھوں سے ہر دیکھی ہوئی چیز کا سوال ہوگا،دل پر جو کچھ آیا اس کا سوال ہو گا۔اس شخص نے کہا ایسے ہے جیسے میں نے یہ آیت اللہ کی کتاب سے کسی عجمی و عربی سے سنی ہی نہیں ہے اور میرا کوئی قصور نہیں جو میں نے اس پر عمل کو ترک کر دیا میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔امام ؑ نے اس سے کہا: جاو اور غسل کرو جس کا تمہیں پتہ چلا ہے اس پر عمل کرو کیونکہ تم ایک  بہت بڑے اشتباہ پر تھے تمہارا بہت ہی برا حال ہوتا اگر تم اسی پر گزر جاتے؟اللہ سے مغفرت طلب کرو اور توبہ کا سوال کرو ہر ناپسندیدہ کے بدلے میں ،کوئی ناپسندیدہ نہیں جو قبیح نہ ہو ۔قبیح کو اس گھر والوں کے لیے چھوڑ دو اور ہر قبیح کے لیے اس کے اہل ہوتےہیں۔

اس  روایت کے مطابق اگر کوئی شخص اپنے گھر میں بیٹھا ہے تو بھی غنا کی حرمت قائم رہتی ہے اور ساتھ کام کرنے  والوں کے ساتھ بھی رہتی ہے۔ نبی اکرمﷺ نے اس بات کی تاکید کی ہے کہ غنا کے ذریعے کمائی کرنا حرام ہے۔ عمر بن قرہ کہتے ایک شخص نبی اکرمﷺ کے پاس آیا اور کہا اے اللہ کے رسولﷺ اللہ نے میرے لیے بدقسمتی لکھ دی ہے، میرے لیے سوائے مٹھ بھر کجھور کے کچھ نہیں ہے، اس لیے مجھے بغیر فحش کے گانے کی اجازت دے دیں؟ آپﷺ نے فرمایا میں تمہیں کبھی اجازت نہیں دوں گا  نہ ہی تمہارے  لیے عزت ونعمت ہے۔ اے اللہ کے دشمن،اللہ نے تجھے رزق حلال دیا  تم نے اس سے لینا چاہا جو رزق تمہارے لیے حرام قرار دیا ۔اللہ نے اپنے حلال میں سے اتنا کچھ تمہارے لیے حلال کیا ؟ اگر تم نے اب کے بعد اس طرح کی بات کی تو میں ایسی ضرب ماروں گا جو تمہیں کچل دے گی۔

نبی اکرمﷺ نے گانا گانے والیوں کی اور اشیاء کے اسی کام کے لیے فروخت اور انہیں کرائے پر دینے سے روکا ہے۔آپﷺ نے فرمایا:عورتوں(گانے والی)  کی خرید وفروخت نہ کرو، ان کو اس کی تعلیم بھی نہ دو،اس کی تجارت میں کوئی بھلائی نہیں اور ان کی قیمت حرام ہے۔یہ بالکل وہی مطلب ہے جو خاتم الانبیاءؑ کے نواسے حضرت امام جعفرصادقؑ نے بیان کیا تھا:ایک شخص کے پاس  گانے والی لونڈی ہے اس کی  قیمت کتے کی قیمت کی طرح ہے اور کتے کی قیمت حرام ہے اور یہ حرام جہنم لے جائے گا۔

یہ حرمت عام حرام چیزوں والی نہیں ہے بلکہ اس کے نتیجے میں اجتماعی زندگی میں بہت سے مفاسد پیدا ہو جاتے ہیں۔اس میں فضول گوئی،جھوٹ اور تہمت ہوتی ہے،اس کے ساتھ ساتھ اس  اس میں وہ تمام مفاسد بھی شامل ہوتے ہیں جولھو اور غنا کا نتیجہ ہیں۔امام جعفر صادق ؑ سے سافل کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ؑ نے ارشاد فرمایا:وہ جو شراب پیتے ہیں اور طنبورہ بجاتے ہیں۔

ہر اس چیز کے سننے سے منع کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں غنا پیدا ہوتا ہے۔ امام صادقؑ نے فرمایا:غنا  کی میراث نفاق ہے اور اس کے پیچھے فقر آتا ہے۔ اسی طرح امام نے اس  کے سننے اور اس کو سن کر خوش ہونے کو حرام قرار دیا ہے امامؑ فرماتے ہیں:جس نے غنا کرنے والے کو سنا گویا اس نے اس کی  فرمانبرداری کی، اگر کہنے والا اللہ  کی بات کرتا ہے تو یہ اللہ کا بندہ ہے اور اگر شیطان کا پیغام پہنچاتا ہے تو یہ اس کا بندہ ہے ۔اللہ تعالی نے انسان کی  تخلیق  کامقصد عبادت کرنا  بتایا ہےارشاد باری تعالی ہوتا ہے: ((وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ))(سورة الذاريات ـ56) اور میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں۔

غناء2

غناء2

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018