مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں
دین اسلام کی تعلیمات اجتماعی زندگی کی طرف رہنمائی کرتی ہیں، یہ انسانوں کے درمیان تعلق جوڑنے کی بات کرتی ہیں اور پہلے مذاہب الہی کی طرح ایک منظم اور باہم مربوط معاشرے کی بات کرتی ہیں جس میں تمام انسان شریک ہوں۔یہ تمام بنی نوع انسان کی وحدت کا کہتی ہیں یہ انہیں ایک راستے اور ایک ہی فائدے کی دعوت دیتی ہیں۔اسلامی تعلیمات یہ حکم دیتی ہیں کہ خلقت میں بھائی ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کی مدد کرو۔انسانوں کے ساتھ مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کی مدد نے ہی بحرانوں سے نمٹنے میں انسان کی مدد کی ہے اور انہیں مشکل حالات سے آسانی کی طرف لے کر آئی ہے۔
انسانیت کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اسلام اپنے ماننے والوں کو رشتہ اخوت میں جکڑ دیتا ہے اور آخری آسمانی دین کے طور پر اپنے ماننے والوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔ سب سےپہلے اسلام تمام انسانوں کے لیے ایسا ماحول فراہم کرتا ہے جس میں سب نے مل جل کر رہنا ہے اور پھر سب نے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلے جانا ہے اسی لیے قرآن کریم لوگوں کو بھائی چارے کی طرف ابھارتے ہوئے کہتا ہے: ((إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ ..)) (سورة الحجرات ـ 10) مومنین تو بس آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
اسلام تو اس سے آگے بڑھ کر کہتا ہے کہ باہمی وحدت کے ساتھ مل جل کر رہنا ایک بڑی نعمت ہے اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے ارشاد باری تعالی ہے: وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪ وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا ۚ سورة آل عمران ـ 103)
اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو اور تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی اور اس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔
اسلام نے پورا ایک اخلاقی نظام دیا جو اس بھائی چارے کو خراب ہونے سے بچاتا ہے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌ (سورة الحجرات ـ 12)
اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، بعض گمان یقینا گناہ ہیں اور تجسس بھی نہ کیا کرو اور تم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم نفرت کرتے ہو اور اللہ سے ڈرو، اللہ یقینا بڑا توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔
اس کے ذریعے انسان کی دوسرے بھائی انسان کی غیبت سے منع کر دیا گیا ،اسی طرح دیگر اخلاق باختہ باتوں سے بھی روکا گیا ہے۔اسلام نے بھائی کے معنی کو نسب سے وسعت دی ہے اور اس میں تمام اہل اسلام کو شامل کیا ہے اور اسلامی اخوت کا کہا ہے۔اسلام نے اس سے بڑھ کر بات کی ہے اور نبی اکرمﷺ کے جانشین برحق نے فرمایا ہے: "الناس صنفان: إمّا أخٌ لك في الدين، أو نظيرٌ لك في الخلق" انسانوں کی دو قسمیں ہیں:یا تو وہ دین میں تمہارے بھائی ہیں یا تم جیسی مخلوق ہیں۔
ایمان کے بھائی چارے میں ہر وہ شخص شامل ہے جو اللہ اور اس کے نبی ﷺ پر ایمان رکھتا ہے،یہ بھائی چارہ عقیدہ ایک ہونے کی بنیاد پر ہے۔اس طرح وہ باہمی طور پر ایک رہتے ہیں کیونکہ ان کا راستہ اور ان کا مقصد ایک ہے اس کے ساتھ ساتھ ان پر مشکلات بھی ایک سی ہیں جو مسلمانوں کی زندگیوں کو متاثر کر رہی ہیں۔اسی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان ہم آھنگی اور اخوت پیدا ہوئی۔مسلمانوں کے مسائل کا حل ان کے اتحاد اور متحد ہو کر رہنے میں ہے۔
اسلام نے مومنین کے درمیان بھائی چارے کی بہت زیادہ تاکید کی ہے،اسلام کا یہ معیار اسلام اور مسلمانوں کی فتح کی علامت ہے نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے:"المسلم أخو المسلم لا يظلمه ولا يُسلمه ومن كان في حاجة أخيه كان الله في حاجته ومن فرج عن مسلم كربة فرج الله عنه بها كربة من كرب يوم القيامة ومن ستر مسلمًا ستره الله يوم القيامة"
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ ظلم کرتا ہے اور نہ ہی خیانت کرتا ہے ،جو کسی مسلمان کی حاجت روائی کرتا ہے اللہ اس کی حاجت روائی کرتا ہے،جو کسی مسلمان کو کسی مشکل سے نجات دلاتا ہے اللہ قیامت کے دن اس کی مشکل میں نجات کا بندوبست کرے گا،جو مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ اس کی پردہ پوشی کرتا ہے۔
بھائی چارے کا معیار اللہ کے لیے بھائی چارہ ہے اور بھائی چارے سے یہی مقصود ہے۔ نبی اکرمﷺ فرماتے ہیں:کسی مسلمان کا اسلام کے بعد سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ کوئی دوسرا اس سے اللہ کے لیے فائدہ اٹھائے۔ امیر المومنینؑ فرماتے ہیں:لوگ بھائی بھائی ہیں جو اللہ کے علاوہ کسی اور وجہ سے بھائی ہیں یہ حقیقت میں دشمنی ہے ۔قرآن مجید کی یہ آیت بھی اسی کو بیان کر رہی ہے: ((الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ)) (سورة الزخرف ـ67) اس دن دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔
امام ؑ نے اخوت سے مراد اللہ کے لیے نصیحت کرنا قرار دیا ہے:اپنے بھائی کو نصیحت کرو یہ نصیحت اچھائی کے لیے ہو یا برائی (سے روکنے ) کے لیے ہو،اس کی ہر حال میں مدد کرو،وہ جیسے چلے تم بھی ویسے چلو،اس سے بدلہ نہ لو کیونکہ یہ دنیا کا عیب ہے۔
اسلام نے اسلامی اخوت کو جانچنے کا ضابطہ دیا ہے وہ ہے مسلمان کی دوسرے مسلمان کی مدد کرنا ۔ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کی مدد کرنا اس کے سچے بھائی چارے کی علامت ہے جو اللہ کے تقوی کی علامت ہے اور اس کا نہ ہونا تقوی کے نہ ہونے کی علامت ہے۔
امیر المومنین علیؑ فرماتے ہیں:"من آخى في الله غنم، ومن آخى للدنيا حرم"
جو اللہ کے لیے بھائی چارہ کرتا ہے وہ فائدہ مند رہتا ہے اور جو دنیا کے لیے بھائی چارہ کرتا ہے وہ محروم رہتا ہے۔
مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے کو قائم رکھنا ضروری ہےاس کی برکات بہت زیادہ ہیں اور نعمت اخوت کا تحفظ ضروری ہے۔یہ سب اللہ کی رضا کے لیے کرنا ضروری ہے اور اس کے ذریعے دنیاوی اور اخروی منافع اور اغراض کا تحفظ کیا جاتا ہے کچھ اغراض یہ ہیں:
ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان سے محبت کی علامات کا اظہار
یہ اخوت کے آغاز کا اعلان ہے کوئی بھی شخص اس وقت تک بھائی چارہ قبول نہیں کرتا جب تک دوسری طرف سے اس کی علامات ظاہر نہ ہوں جو یہ بتا رہی ہوں کہ اخوت کا آغاز ہو چکا ہے۔کسی بھی شخص کی اپنے بھائی سے محبت قول یا فعل کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے کیونکہ کلام کا اس پر اثر ہوتا ہے جس سے کلام کیا جا رہا ہے۔یہ اس بھائی چارے کے قابل وثوق ہونے اور انسان کے اس پر اطمنان کو بڑھا دیتی ہیں۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی دوسرے سے محبت کرے تو اپنے بھائی کو بتا دے۔حضرت امام باقرؑ نے اپنے شیعوں کی اسی پر تربیت کی ہے ایک روایت کے مطابق امام ؑ نے کسی کو کہتے سنا خدا کی قسم میں اس شخص سے محبت کرتا ہوں،امام ؑ نے فرمایا:اسے ضرور بتاو یہ مودت کو محفوظ رکھتا ہے اور قربت کے لیے اچھا ہے۔
بھائی چارے کا تحفظ:
بھائیوں کے درمیان بھائی چارے کو جارے رکھنے اور ان کے درمیان دوستی کو قائم رکھنے اور حسن نیت کے لیے اس بھائی چارے کو دوسرے مسلمان کے ساتھ جاری رکھنے کے لیے جس سے بھائی چارہ ہو اسے بتا دینا چاہیے۔ کسی بھی طرح سے اس بھائی چارے کو قطع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ دوری اختیار کرنا انسان کے انسان سے بھائی چارے کو ختم کر دیتا ہے۔حضرت علیؑ نے فرمایا:اپنے بھائی پر رحم کرو وہ اگرچہ تمہارا کہا نہ مانے،تم تعلق جوڑو اگرچہ وہ تعلق توڑیں۔
بالکل اسی طرح کا آپ ؑ کا فرمان ہے:تم عداوت سے بچو کیونکہ یہ بھائی چارے کو ختم کر دیتی ہےخدا اور لوگوں سے نفرت پیدا کر دیتی ہے۔امام ؑ کا فرمان ہے :وابستگی کے بعد قطع تعلق بڑی برائی ہے،بھائی چارے کے بعد عداوت بری ہے اور محبت کے بعد عداوت بری چیز ہے۔
پرانی دوستی کو ملنے اور نئے عہد پیماں کے ذریعے تروتازہ کرنا:
انسانی تعلقات اسباب کے محتاج ہیں اور ان کو جاری رکھنے کے لیے اسباب کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ یہ مضبوط ہوتے رہیں۔ان پرانے تعلقات کی حفاظت کرنا نیا بھائی چارہ قائم کرنے سے بہتر ہے۔نسلوں سے قائم بھائی چارہ جہاں تعلق میں مضبوط ہوتا ہے وہیں اس کے ذریعے دوسروں کو بھی ایسا تعلق بنانے کی رغبت ملتی ہے۔نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے:اللہ تعالی قدیم بھائی چارے کو پسند کرتا ہے اس لیے تم بھی اسے قائم رکھو۔ اسی طرح نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے:اللہ تعالی پرانی دوستی کو جاری رکھنا پسند کرتا ہے۔یہ بالکل وہی بات ہے جس کی نصیحت حضرت داودؑ نے اپنے بیٹے حضرت سلیمانؑ کو کی تھی:پرانے دوست کو کسی فائدہ کے لیے نئے دوست سے تبدیل نہ کرو بلکہ پرانے دوست سے ہی فائدہ اٹھاو۔حضرت علیؑ کافرمان بھی اسی مطلب کو ادا کرتا ہے:
اپنے زمانے کے ماضی کی آواز پر فریاد کرنے والے کی سخاوت سے ، وہ اپنے وطن اور اپنے پرانے تحفظ بھائیوں کی آرزو رکھتے ہیں۔
نبی اکرمﷺ نے اخوت کو اعلی درجہ دیا اور اسے اسلام کا بنیادی فائدہ قرار دیا۔نبی اکرمﷺ فرماتے ہیں :اسلام کے بعد سب سے زیادہ فائدہ کسی مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کہ صرف اللہ کے لیے فائدہ اٹھانا ہے۔
ایک مومن کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے آپﷺ کے اہلبیت کے فرامین میں آتا ہے :کسی بھائی کےچہرے کی طرف اللہ کے لیے دیکھنا عبادت ہے۔یہ بھائی اللہ کی جنت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اس بھائی چارے کی وجہ سے شفاعت کے کر کے،آپؑ نے فرمایا: "اپنے بھائی چارہ میں اضافہ کرو کیونکہ قیامت کے روز ہر مومن کی شفاعت کرے گا، بلکہ یہ بھائی باعث بنتا ہے کہ انسان رب کی رضا پاکر جنت الفردوس میں داخل ہوجائے۔ امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: جو اللہ کےلئے کسی بھائی کو فائدہ پہنچاتا ہے اللہ تعالی اسے جنت میں گھر دے گا۔