16 شوال 1445 هـ   25 اپریل 2024 عيسوى 5:45 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2020-10-20   2903

دنیا کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔

دنیا نے انسان کو اپنے ظاہری چمکدار چہرے کے ذریعے دھوکہ دیا ہے اور اسی چمک دمک کے نتیجے میں وہ آخرت کو بھول بیٹھاہے۔انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ وہ ہمیشہ اسی دنیا میں رہے گا اور اسی کو ابدی خیال کرتا ہے، اپنی امیدوں کو اسی سے جوڑ لیا اور اپنی روح کو بھی اسی سے مربوط کر لیا۔ وہ سوچتا ہے کہ اسے خسارہ نہیں ہو رہا اور نہ ہی کبھی خسارہ ہو سکے گا۔یہی دنیا کی محبت تھی جس کی وجہ سے لوگوں نے انبیائے کرامؑ اور ان کے اوصیاء ؑ کو جھٹلایا اور ان کے راستے سے انحراف کیا۔ یہ دنیا دل  لگانے کی جگہ نہیں ہے یہ آزمائش کی جگہ ہے قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: (إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا)(سورة الكهف ـ 7)

روئے زمین پر جو کچھ موجود ہے اسے ہم نے زمین کے لیے زینت بنایا تاکہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان میں سب سے اچھا عمل کرنے والا کون ہے ۔

دنیا ابدی جگہ نہیں ہے اور نہ ہی ہمیشہ رہنی کی جگہ ہے یہ تو صرف ایک گزرگاہ ہے جس سے گزرتے ہوئے آخرت سے متصل ہو جانا ہے یعنی یہ وہ مقررہ راستہ ہے جس سے آخرت کی طرف جانا ہے۔

 معصومین ؑ کی احادیث میں بھی دنیا کی مذمت کی گئی ہے یہ مذمت دنیا کو دنیا برائے دنیا حاصل کرنے کی ہے اور اسی کو مقصد قرار نہیں دینا چاہیے۔اس دنیا کا لالچ اس مقصد سے دور کر دیتا ہے جو اللہ تعالی نے مقرر کر رکھا ہے اللہ فرماتا ہے: (اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ۖ وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ ۚ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ) (سورة الحديد ـ 20)

جان رکھو کہ دنیاوی زندگی صرف کھیل، بیہودگی، آرائش، آپس میں فخر کرنا اور اولاد و اموال میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش سے عبارت ہے، اس کی مثال اس بارش کی سی ہے جس کی پیداوار (پہلے) کسانوں کو خوش کرتی ہے پھر وہ خشک ہو جاتی ہے پھر دیکھتے ہو کہ وہ کھیتی زرد ہو گئی ہے پھر وہ بھس بن جاتی ہے جب کہ آخرت میں (کفار کے لیے) عذاب شدید اور (مومنین کے لیے) اللہ کی طرف سے مغفرت اور خوشنودی ہے اور دنیا کی زندگی تو سامان فریب ہے۔

دنیا کے ساتھ انسان کا معاملہ ایسے ہی ہونا چاہیے جو ایک مسافر کا ہوتا ہے جس نے اس کے ذریعے دوسری دنیا تک پہنچنا ہے۔یہ ایک مختصر راستہ ہے جس کے ذریعے ابدی آخرت تک پہنچنا ہے۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا وہ راستہ ہے جو اللہ نے ہمیں دکھایا ہے کہ اس پر چل کر اس کی رضا کو حاصل کر سکیں۔ نبی اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے دنیا ملعون ہے اور اس میں جو کچھ ہے وہ بھی ملعون ہے سوائے ا س کے جو اللہ کی طرف لے جائے۔اس میں بنیادی بات یہ ہے کہ آخرت کی طرف لے جانے کےعلاوہ کچھ نہیں ہے امام سجادؑ فرماتے ہیں:دنیا دو طرح کی ہے ایک دنیا وہ ہے جو ضروری ہے اور دوسری وہ ہے جو ملعون ہے۔یہ بات حضرت لقمانؑ کی اپنے بیٹے کو کی گئی نصیحت کے بہت قریب ہے آپؑ نے فرمایا:اے بیٹے اس دنیا سے فقط  پہنچانے جتنا لے لو اس کا انکار نہ کرو اگر انکار کرو گے تو  لوگوں کے محتاج ہو جاو گے، دنیا دار نہ بن جاو  کہ اپنے آخرت کو نقصان پہنچا بیٹھو۔

دنیا کی محبت کا مصداق انسان کا اس دنیا کا غلام ہو جانا ہے کہ انسان اس کا غلام بن جائے اور اس کی لہو و شہوت کا اسیر بن جائے اور اس کے مادی مفادات اور جنسی  خواہشات اور مال کی محبت ہی کو سب کچھ سمجھنے لگے۔ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ اس پر قناعت نہ کرے اور اس چیز کو حاصل کرنا چاہے جو اس کے دل میں آ رہی ہے اور اس کے ذریعے وہ موت کو بھی بھول جائے۔دنیا کی محبت اس قدر بڑھ جائے کہ  اسے موت سے پہلے توبہ  سے روک دے کہ بعد میں کر لوں گا  اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ اپنی  آخرت کو بھول جاتا ہے۔

نبی اکرمﷺ نے اپنے اس فرمان کے ذریعے ایسی صورتحال سے خبردار کیا ہے آپ ﷺ فرماتے ہیں:میں تمہارے بارے میں دو چیزوں  سے فکر مند ہوں ایک تو خواہشات کی پیروی  اور دوسرا لمبی آرزوئیں  کرنا ۔جہاں تک  خواہشات کی پیروی کی بات  ہے یہ حق سے روکتی ہے اور جو لمبی آرزو کرتا ہے آخرت کو بھلا دیتا ہے۔اسی طرح نبی اکرمﷺ کا فرمانا ہے: سب سے بڑا گناہ دنیا کی محبت ہے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ہر نافرمانی کی بنیاد دنیا کی محبت ہے۔نبی اکرمﷺ کے جانشین حضرت علیؑ نے فرمایا:دنیا کی محبت فتنوں کی بنیاد ہے اور اصل امتحان ہے۔امام صادقؑ نے فرمایا: دنیا کی محبت ہر نافرمانی کی بنیاد ہے۔

دنیا کی مذمت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس میں کوئی عیب ہے جس کی وجہ سے یہ مذمت کی جا رہی ہے۔اصل میں عیب انسان کے اس دنیا کے ساتھ معاملہ کرنے میں ہے کہ وہ اسے کیسے اختیار کرتا ہے۔دنیا امتحان کی جگہ ہے  اس لیے یہ مذمت کا مورد نہیں ہےنہ اس کی محبت دنیا کی وجہ سے بری ہے یہاں بھی جو مذموم ہے وہ دنیا کی برائے دنیا ایسی محبت ہے جو انسان کو آخرت سے بھلا دے اور اس کی نظر میں اس کے رب کے مقام کو چھوٹا کر دے۔

جب ہم دنیا کو کم حیثیت بتا رہے ہیں تو ہمارا یہ ہرگز مطلب نہیں ہوے کہ ہم ترک دنیا کی دعوت درے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ رہبانیت کو اختیار کر لیا جائے کیونکہ اسلام میں رہبانیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے اللہ تعالی نے مجھے رہبانیت دے کر نہیں بھیجا  بلکہ میری شریعت فطری آسودگی کی شریعت ہے،میں خود نماز پڑھتا ہوں،روزے رکھتا ہوں اور اپنی بیوی کے حقوق بھی پورے کرتاہوں۔آپﷺ فرماتے ہیں:

ہمارا مقصد یہ ہے کہ انسان زہد اختیار کرے اور اس دنیا کی زین و زینت کا ہی دلدادہ نہ ہو جائے۔یہاں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دنیا کی مذمت سے مراد اس کے ساتھ قلبی تعلق کی مذمت ہے۔اس قلبی تعلق کے نیتجے میں انسان اس دنیا کے تابع ہو جاتا ہے اور اس کا نتیجہ ندامت اور برے اخلاق جیسے حسد ،حرص، طمع،غرور،انانیت اور آخر میں حق کو فراموش کر دیتا ہے۔وہ موت کو بھول جاتا ہے اور خوف نہیں کھاتا۔نبی اکرمﷺ سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ  کیا وجہ ہے کہ میں موت کو پسند نہیں کرتا؟ آپﷺ نے پوچھا کیا تمہارے پاس مال ہے؟ اس نے جواب دیا جی ہے آپﷺ نے فرمایا: اس مال کو دے دو گے؟ اس نے کہا نہیں ،اس پر آپﷺ نے فرمایا  پس تم موت سے محبت نہیں کرو گے۔

روایت کی گئی ہے کہ ایک آدمی نے امام حسنؑ سے سوال پوچھا کیا وجہ ہے کہ ہم موت کو پسند نہیں کرتے؟ آپ ؑ نے جواب دیا :آگاہ رہو تم نے ااپنی آخرت کو خراب کر لیا ہے ،تم نے اپنی دنیا کو آباد کر لیا ہے اب تم تعمیر کر دہ سے تباہ کردہ کی طرف جانا ناپسند کرتے ہو۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018