14 شوال 1445 هـ   23 اپریل 2024 عيسوى 8:26 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2020-10-20   82

“سب سے زیادہ صلہٴ رحم کرنے والا انسان وہ ھے جو قطع رحم کرنے والوں سے تعلقات قائم کرے”: مثالی معاشرے کے قیام میں صلہ رحمی کی اہمیت

اسلام کے اجتماعی نظام کو قائم کرنے کے لیے  صلہ رحمی ایک بنیادی رکن ہے اور اسی کے ذریعے وہ مثالی معاشرہ قائم ہو سکتا ہے  جو الہی ہو گا، اسی کے لیے اللہ تعالی نے انبیاء اور رسولؑ بھیجے ہیں۔

اسلام نے صلہ رحمی کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور اس کو اسلامی معاشرے کا ستون قرار دیا ہے اور اس کی بنیاد خاندان میں صلہ رحمی کو قرار دیا ہے۔اسلام نے صلہ رحمی کو جو اہمیت دی ہے اس کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کے انفرادی اور اجتماعی مباحث کو الگ کرنا پڑے گا تاکہ پتہ چل سکے کہ اللہ تعالی نے اس پر اتنی تاکید کیوں کی ہے۔

صلہ سے مراد تعلق ہے  اس کے معنی صلاۃ کے ہیں اب صلاۃ سے نماز مراد لیا جاتا ہے ہمارا یہاں یہ معنی مقصود نہیں ہے ہمارا مقصور یہ معنی ہے جس میں ایک بندہ اپنے رب سے جڑ جاتا ہے۔رحم کا لغوی معنی  قرابتداری کے اسباب میں سے ہے، اس میں بھی بنیاد رحم ہوتا ہے، بچہ ماں کے پیٹ کے ایک حصہ میں پروان چڑھتا ہے اسے بھی بطور تمثیل ہی رحم کہا جاتا ہے،اس لحاظ سے کہ وہ ذریت یعنی اولاد  کا منبع ہے۔کچھ دوسرے لوگوں نے اس کی تفسیر یوں  کی ہے کہ یہ رحم سے پیدا ہونے والے بچوں کی طرح ہی ہے یعنی وہ سب آپ کے لیے ایسے ہی ہیں جیسے سب کے درمیان  رحم والا تعلق ہے ،یہ تعلق باپ کی طرف سے ہو یا ماں کی طرف سے ہو یہ سب صلہ رحم کا حصہ ہو گا۔

صلہ رحم کے درجات  بہت زیادہ ہیں فقہ اسلامی کے مطابق  میراث کے حساب سے اس کے تین  درجے ہیں۔آباء کا مرتبہ( اس میں باپ اور مائیں شامل ہیں) ،بیٹے ( اس میں بیٹے اور بیٹیاں دونوں شامل ہیں) بھائی( اس میں بھائی اور بہنیں دونوں شامل ہیں)۔ان کے بعد والدین سے اوپر کے تمام آباء و اجداد  ہیں،اس کے بعد چچا ،چچیاں اور پھپھیاں ہیں ۔اس کے بعد خالو اور خالائیں آتی ہیں ان کے ساتھ ان کی آل اولاد بھی شامل ہے جس میں  چچا اور چچیوں کے بیٹے بیٹیاں،خالو اور خالاوں کی اولاد،بھائیوں اور بہنوں کی اولادیں سب شامل ہیں۔اس کا دوسرا دائرہ میراث پانے والوں سے عام ہے یعنی ہر وہ شخص اس میں شامل ہے جسے عرف ،تعامل اور روایات شامل کہتی ہیں۔ارحام  کا لفظ تسامحا ہر  اس فرد کوشامل  جو امی اور ابو سے کسی  بھی طرح سے صلہ رحمی والی قرابت رکھتا ہو اور ان کی تمام نسل اس کو شامل ہو گی۔صلہ رحمی اس کو بھی شامل ہے جو کسی بھی طرح کا رابطہ یا تعلق رکھتا ہے اگرچہ وہ قرابتدار نہ بھی ہو۔امام صادقؑ نے اس قول کے ذریعے اس کی تاکید کی ہے: "ایک دن کا تعلق صلہ ہے ،ایک ماہ کا تعلق قرابت داری ہے اور ایک سال کا تعلق صلہ رحمی  ثابت کرتا ہے جواس کو قطع کرے گا اللہ اس کے ساتھ قطع تعلق  کر لے گا"۔

اسلام کی یہ وسعت ہے کہ وہ صلہ رحمی کے اعتبار سے  صلہ رحمی کے حقداروں کے ساتھ کسی خاص شکل میں صلہ رحمی کرنے کا حکم نہیں دیتا۔اسلام اسے معاشرے پر چھوڑتا ہے اور یہ زمانے اور حالات کے تبدیل ہونےسے بدلتا رہتا ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ  ان  اجتماعی انسانی رویوں میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں اور ایک نسل کے بعد دوسری نسل میں صلہ رحمی کے انداز مختلف ہو سکتے ہیں۔

جب انسان مل جل کر رہتے ہیں تو ان کے درمیان  تعلقات اور محبت کا پیدا ہو جانا فطری امر ہے،اسی سے معاشرہ پہچانا جاتا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ ایک مذہبی ذمہ داری بھی ہے۔اسی بات کو ہم اللہ تعالی کی طرف سے ایک شرعی حکم کے طور پر  بھی پاتے ہیں نبی اکرم ﷺ کو جب مبعوث رسالت فرمایا گیا تو اللہ تعالی  کا ارشاد ہوا:

((وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ (214) وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (215) فَإِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ (216) وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ(217))(الشعراء ـ214 ـ217)

اور اپنے قریب ترین رشتے داروں کو تنبیہ کیجیے۔۲۱۴ اور مومنین میں سے جو آپ کی پیروی کریں ان کے ساتھ تواضع سے پیش آئیں۔۲۱۵  اگر وہ آپ کی نافرمانی کریں تو ان سے کہدیجئے کہ میں تمہارے کردار سے بیزار ہوں۔ ۲۱۶ ور بڑے غالب آنے والے مہربان پر بھروسہ رکھیں۔ ۲۱۷

اس پیغام کے ساتھ ہی تبلیغ رسالت کا آغاز ہو رہا ہے ،آپﷺ کی رسالت عالمی رسالت ہے یہ کسی  ایک علاقہ تک محدود نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی ایک نسل کے لیے ہے۔صلہ رحمی کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اللہ نے تخلیق سے ہی اسے خاص اہمیت دی ہے۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر  اس کی طرف رہنمائی کی ہے  بطور مثال اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے:

((النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَنْ تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُمْ مَعْرُوفًا كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا))(الأحزاب ـ6)

نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے اور نبی کی ازواج ان کی مائیں ہیں اور کتاب اللہ کی رو سے رشتے دار آپس میں مومنین اور مہاجرین سے زیادہ حقدار ہیں مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں پر احسان کرنا چاہو، یہ حکم کتاب میں لکھا ہوا ہے۔

دوسری جگہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

((وَالَّذِينَ آمَنُوا مِن بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَٰئِكَ مِنكُمْ ۚ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ))(الأنفال -  ۷۵ )

اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ہمراہ جہاد کیا وہ بھی تم میں شامل ہیں اور اللہ کی کتاب میں خونی رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں، بے شک اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے ۔

رشتہ داروں  کے ساتھ حسن سلوک  کو اسلام نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے قرآن مجید  کے بعد معصومین کی احادیث میں اس پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے  نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے:صلہ رحمی گھروں کو آبادکرتی ہے اور عمروں میں اضافہ کرتی ہے اگرچہ گھر والے اچھے نہ بھی ہوں۔اسی  طرح ایک اور جگہ آپﷺ فرماتے ہیں صلہ رحمی عمر میں اضافہ کرتی ہے اور فقر کا خاتمہ کرتی ہے۔ایک جگہ آپﷺ ارشاد فرماتے ہیں:ایک گروہ نافرمان ہوتا ہے وہ فرمانبردار نہیں ہوتا  لیکن وہ صلہ رحمی کرتا ہے جس کے نتیجے میں ان کا مال بڑھ جاتا ہے،ان کی عمریں زیادہ ہو جاتی ہیں ،اگر وہ نیک ہوتے تو کیا ہی اچھا ہوتا ؟

نبی اکرمﷺ کے جانشین و خلیفہ حضرت علیؑ نے بھی اسی کی تاکید کی ہے آپؑ فرماتے ہیں: اے لوگو! یاد رکھو کہ کوئی شخص کس قدر بھی صاحب مال کیوں نہ ہو جائے اپنے قبیلہ اور ان لوگوں کے ہاتھ اور زبان کے ذریعہ دفاع کرنے سے بے نیاز نہی ہو سکتا ہے۔یہ لوگ انسان کے بہترین محافظ ہوتے ہیں اس کی پراگندگی کے دور کرنے والے اورمصیبت کے وقت اس کے حال پر مہربان ہوتے ہیں۔پروردگار بندہ کے لئے جوذکرخیر لوگوں کے درمیان قرار دیتا ہے وہ اس مال سے کہیں زیادہ بہتر ہوتا ہے جس کے وارث دوسرے افراد ہو جاتے ہیں۔ آگاہ ہو جاو کہ تم میں سے کوئی شخص بھی اپنے اقربا کومحتاج دیکھ کر اس مال سے حاجت برآوری کرنے سے گریز نہ کرے جو باقی رہ جائے تو بڑھ نہیں جائے گا اورخرچ کردیا جائے تو کم نہیں ہو جائے گا۔اس لئے کہ جو شخص بھی اپنے خاندان اورقبیلہ سے ہاتھ روک لیتا ہے تو اس قبیلہ کے لیے ایک ہاتھ رک جاتا ہے اور خود اس کے لئے بیشمار ہاتھ رک جاتے ہیں۔اور جس کے مزاج میں نرمی ہوتی ہے وہ قوم کی محبت کو ہمیشہ کے لئے حاصل کر لیتا ہے۔

ائمہ اہلبیتؑ نے اس پر بہت زیادہ تاکید کی ہے امام باقرؑ نے فرمایا:صلہ رحمی اعمال کو  پاک کرتی ہے،مال  کو بڑھاتی ہے،بلاوں کو دور کرتی  ہے اور موت دور ہوتی ہے۔ یہ اس فرمان  کی طرح ہے جو  امام جعفر صادقؑ کا فرمان ہے آپؑ نے فرمایا:صلہ رحمی اور بھلائی کرنا حساب کتاب میں تخفیف  کرتے ہیں،گناہوں سے بچاتے ہیں،اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرو ،اپنے بھائیوں سے نیکی کرو اگرچہ وہ اچھے سلام اور اچھے جواب کی ہی صورت میں کیوں نہ ہو۔اس کے ساتھ ساتھ اہلبیتؑ نے ہر حالت میں صلہ رحمی کی تاکید کی ہے ابی بصیرؒ سے روایت ہے میں نے اباعبداللہ ؑ سے سوال کیا کہ ایک شخص  اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلق کرتا ہے  جو  حق کو نہیں پہچانتے (کیا یہ ٹھیک ہے؟) آپؑ نے فرمایا اس کو قطع تعلق نہیں کرنا چاہیے۔

معاشرتی  تحقیقات اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات کو جوڑےو  اور ان کے ساتھ میل جول بنائے رکھنا چاہیے۔اسلام نے اس سے پہلے ہی اس کی بہت زیاد تاکید کی ہے اور اس کے ذریعے سے انسان کی عمر طویل ہوتی ہے نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:ایک شخص جو صلہ رحمی کرتا ہے اور اس کی زندگی میں سے تین سال باقی تھے اللہ اس کی عمر تیس سال کر دیتا ہے،اگر قطع تعلق کرتا ہے اور اس کی عمر میں سے  تیس سال باقی تھے تو  اس کو تین سال بنا دیتا ہے اس کے بعد آپﷺ نے اس آیت مجیدہ کی تلاوت کی:

((يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ))"سورہ رعد  ۳۹

اللہ جسے چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے قائم رکھتا ہے اور اسی کے پاس ام الکتاب ہے۔

صلہ رحمی پر زیادہ تاکید کے لیے  اور اس پر زیادہ زور دینے کے لیے اما م جعفر صادقؑ نے اسے واجب سے بھی بڑا بتایا ہے امام ؑ فرماتے ہیں:رحم کا حق کبھی بھی ختم نہیں ہوتا اور بات اگر تمہاری ہو(یعنی مسلمان ہوں) تو ان کے لیے دو حق ہیں ایک حق رحم ہے اور دوسرا حق اسلام ہے جس نے تمہیں اور ان کو اکھٹا کیا ہوا ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018