8 شوال 1445 هـ   16 اپریل 2024 عيسوى 1:05 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2019-04-23   1442

إسلامي (تعددي سياسيت)پوليٹيكل پلورالزم اور (معارضة سياسية)اپوزيشن ،حضرت على عليه السلام كى سيرت مباركہ كى روشنى ميں.

 اسلامى سياست بارے ہمارے ذہنوں ميں مختلف أفكار و نظريات پائے جاتے ہيں.جن كاتعلق عموما كسى معاشرے ميں موجود انسان كى انفرادى صورتحال اور اجتماعى ماحول سے ہوتا ہے،جوكہ طبيعي أمر ہے،سماج سے جڑے مسائل كا حل پيش كرنے اوراپنى رائے كا اظہار كرنا اس معاشرے ميں رہنے والے ہر فرد كے لئےاتنا ہى لازم ہے،جس طرح ہر زمان ومكان ميں صحت مند معاشرے كے قيام ميں صحت كے شعبہ ميں اقدامات كرنا لازمى اور ضرورى ہوتا ہے، ان أفكار و نظريات ميں سے تعدديہ سياست political pluralismبھى ہے،جس كا ہمارے معاشرة سے گہرا تعلق ہے،جس كو كسى صورت نظر انداز نہيں كيا جا سكتا ہے، اور نہ ہى دين اسلام اس بات كى اجازت ديتا ہے كہ سياسي ميدان ميں تعددى سياست كى بيخ كنى كى جائے،اور عوام كى سياسي توجہ كو ايک جانب ركھ كرصرف ايک خاص نظريہ سياست بارے سوچنے پران كو مجبور كيا جائے،بلكہ اسلام ميںpolitical pluralism كو پورا تحفظ حاصل ہے۔

تعددیہ (pluralism) سنت الہى ہے،جس كى دليل خدا وند المبدع كا انداز تخليق ہے، خالق دو جہان نے ايک ہى جنس سے مختلف أنواع و اقسام كى مخلوقات كو خلق فرمايا ہے،جيسے اپنى قدرت تخليق سے بنى نوع انسان كو مختلف رنگوں اور بوليوں ميں تقسيم كيا ہے،ان كى طبيعتوں ميں فرق ركھا ہے.عادات،رہن سہن ،اور انداز فكر كوايک دوسرے سے الگ بخشا ہے۔

لہذا قادر مطلق كا ايسا طرز تخليق دليل ہے كہ فهم إنساني ميں موجود تعددي سياست political pluralism كا نظريہ كسى بهى معاشرے كےلئے نقصان ده اور خطرناک نہيں ہے۔

سياسي كثرت سے ہمارى مراد سياسي تنظيميں وگروہى سياست نہيں ہے بلكہ اس سے مراد عوامي سطح پر (سياسي فكر و شعور كى بدولت)متعدد و مختلف سياسي آراء كا پايا جانا ہے،جنہيں سوسائٹى ميں بڑى حد تک اہميت اور مقبوليت حاصل هوتى ہے۔

اس تنوع (pluralism)كا ہمارے معاشرے ميں وجود در اصل انسانى خلقت كا جزء اور فطرت كا حصہ ہے، خدا وند تعالى انسان كو غور و فكر كرنے اور ادراک كى عظيم نعمت سے نوازا ہے جيساكہ قرآن كريم ميں إرشاد ہوا هے  ((يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وأنثى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ))(الحجرات ـ13)

ترجمہ: انسانو! ہم نے تم كو ايک مرد اور ايک عورت سے پيدا كيا ہے،اور پهر تم ميں شاخيں اور قبيلے قرار ديۓ ہيں،تاكہ آپس ميں ايک دوسرے كو پہچان سكو،بے شک تم ميں سے خدا كے نزديک محترم وہى ہے جو ذيادة پرہيز گار ہو،اور الله ہر شئ كا جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہے.

ہم ديكهتے هيں كہ بالتحقيق اسلام وحدت انسانى (معاشرة سازى)كے اهتمام كى طرف دعوت(ايسےانداز ميں چاهتا ہے)كہ جس ميں انسانى تنوع محفوظ رهے،نہ كہ (ايسے معاشرے كے قيام كى طرف دعوت جس ميں)تنوع بشري كى أنواع كو ايک هى كٹهالى ميں تحليل كرديا جائے۔

بنابراين تنوع بشرى(اور اس كى اكائيوں) كے احترام ميں مبادى عامہ (چندين بنيادى أصول و ضوابط)وضع كيے گئے ہيں، چاهے يہ تنوع نسلى، دينى، فكرى، عقائدي، قبائلى، جس قسم كا هى كيوں نہ ہو،كيونكہ مثالي معاشرة كا قيام اور پهر( اس مثالى  معاشرے كےذريعہ) مثالي فرد (پيدا كرنے كے لئے)ان أصول و ضوابط كو بنياد بناياگيا هے ،اس اعتبار سے كه يه هى حقيقي حل ہے۔

ان أصول و ضوابط كو پيش كرنےسے پہلے دين اسلام نے ايک ايسے ضابطے كى نشاندہى كى ہے اگر اس ضابطہ كى پابندى يقيني بنائى جائے تو معاشرے كے لئے (اس اسلامى ضابطہ كى رو سے) فرد كو مثال بنايا جاسكتا هے،اور مثالي معاشرة كى بنياد ركھنے كے ليے فرد مثال اور نمونه بن سكتا ہے،اس ضابطہ كا تعلق كسي خاص مزهب و مسلک سے نهيں ہے،اس ضابطہ كو اسلام ميں " تقوى "سے تعبير كيا گيا هے،جيساكہ مزكورة بالا آيت ميں اس كا آيا هے،انّ أكرمكم عند الله اتقاكم،

آيت شريفہ ميں تھوڑا غور كرنے سے بخوبى جانا جا سكتا ہے اس ميں " الناس "ذكر ہوا ہے،يعني خدا وند تعالى تمام انسانوں سے مخاطب ہے،نہ كہ صرف مسلمانوں يا مومنوں سے مخاطب ہے.يا اس کے علاوة جو ديگر توصيفات ذكر ہوئى ہيں، بلكہ دين اسلام نے قرآن كريم ميں تنوع بشري كو الله تعالى كى نشانيوں ميں سے قرار ديتا ہے،اور اسے اپنى نعمتوں اور فضل ميں سے شمار كراتا هے،جو كہ ہم سے غور وفكر كرنے اور خدا وند كريم كى عطا كردة نعمتوں كے بدلے شكر بجا لانے كا تقاضا كرتا ہے۔

((وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ)) (الروم ـ22).

ترجمه:اور اس كى نشانيوں ميں سے آسمان و زمين كى خلقت اور تمہارى زبانوں اورتمہارے رنگوں كا اختلاف بھى ہے كه اس ميں صاحبان علم كے لئے بہت سى نشانياں پائى جاتى ہيں.

انسانى تنوع كے لئے ضرورى ہے كہ علم اجتماع Sociology كے باب كو بند نہ كيا جائے،اور اس كى راه ميں روكاوٹيں كهڑى نہ كى جائيں،بلكه اس كو مزيد پهلنے پهولنے كے مواقع قراہم كيے جائيں،حتى كہ وجود خدا كے بارے (عقدة توحيد.إيمان بالله ۔۔) ميں بهى عقائدي و فكرى آذادى دى جائے(،نيز قرآن كريم كى تعليمات ميں بهى واضح طور پر ملتا هے كه انسان كو ايک حد تک خود مختار هونے كا حق ديا گيا هے) در اصل تنوع انسانى كے حق ميں يه بات ضرورى هے كه سوشيالوجى كے باب ميں لا قهر ولا جبر كى پاليسي اپنائى جائے،جوكہ قرآن كريم كے اس قاعدة كى پيروى هے كه جس ميں انسان كو كسى منهج اور راستہ اپنانے كا اختيار حاصل هے.

إرشاد رب العزت ہے۔ (لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ)(البقرة ـ156)

ترجمہ:دين ميں كسى طرح كا جبر نہيں ہے،ہدايت گمراهى الگ اور واضح هو چكى ہے،اب جوشخص بهى طاغوت كا انكار كر كے الله پر ايمان لے آئے،وهو اس كى مضبوط رسى سے متمسک هوگيا،جس كے ٹوٹنے كا امكان نہيں هے،اور خدا سميع بهى هے اور عليم بهى ہے۔

دينى اور دنيوي اعتبار سے إنسان كا كسى جماعت يا مذہب سے(بااختيار ہوكر) وابسطہ ہونا عدم أكره كے باب سے هے،اسى طرح سے اسلام نے سوشيالوجى ميں كوئى خاص حد بندى نهيں كى ہے،كيونكہ اسلام ميں زور زبردستى نهيں ہے۔

اسلام تنوع سياسي(جماعاتى سياست)كو معاشرے ميں سياسي كردار ادا كرنےكى مكمل طور پر اجازت ديتا ہے، عدم جبر کے باب ميں يہ أمر بهى ہے كه انسان دينى اور دنيوي اعتبار سے كسى خاص عقيدةو نظريہ كى اتباع كرنے ميں خود مختار هے،اور عدم إكراه تعدديت و تنوع بهى شامل ہے۔

اسلامى نظام سياست تنوع سياسي(جماعاتى سياست كو معاشرے ميں اپنا كردار ادا كرنے كى) مكمل اجازت ديتا ہےاورسماجى سطح پرموجود متعدد طبقوں كى حقيقت كا معترف هے،نيز اس أمر كو بهى قبول كرتا هے كه هر طبقه ايک مخصوص منهج پر يقين رکهتا هے جس كا رهن سہن ايک مخصوص انداز اور نظم ونسق سےهوتا هے،(جيساكه تنوع دينى،يعنى خاص مذهب و مسلک كى بنياد پر فرقه بندى)،

هر كميونٹى (ان كى زندگى گزارنے ) كا ايک خاص هدف ومقصد هوتا هے

جس كے حصول كى خاطر اجتماعى طور كوشاں رهتے هيں۔

اسلام ميں تنوع سياسي (جماعاتى سياسي)كو احترام كى نگاه سے ديكها جاتا هے،

تعدديت"pluralism"كے حق ميں اسلام كا عملى شكل ميں مثبت رويہ حضرت على عليه السلام كے دور ميں بخوبى ديكھنے كو ملتا هے،خليفة رسول صل الله عليه وآله وسلم کے بلند مرتبه پر فائز آپ عليه السلام تعددى سياست"political pluralism"پر يقين ركهتے تهے(بلكہ اگر آپ عليه السلام كو تعددي سياست كے بانيوں ميں سے كہا جائے تو غلط نہ هوگا) اور سياسي مخالف كو اظہار رائے كا پورا حق دينے كے قائل تهے،جوكه ايک بہترين مثال ہے۔

يہ ايک تاريخى حقيقت ہے كہ آپ عليه السلام نے اپنا حق حاكميت كسى سے جبرا قبول نہيں كرايا،بلكہ اس كے برعكس منكرين بيعت كے ساتھ احترام سے پيش آئے،اور ان كو مكمل تحفظ فراهم كيا اور ان پر ناراضگى كا اظہار تک نہيں كيا،اور جو لوگ شروع ميں بيعت كے انكارى هوئيے اور بعد ميں داخل بيعت هوئيے،ان كو اس بات كا احساس تک نہيں دلايا كہ تم نے مجھ كو خليفة الرسول صل الله عليه واله وسلم ماننے سے منه پھيرا تها، نيز آپ عليه السلام نےاپنے كسى موقف كى تأييد حاصل كرنے كيليئے ان پر سختى نہيں كى، مزيد برآں كٹوتى كيئے بغير ان كے حقوق باهم پہنچاتے رهے،جسطرح سے آپ عليه السلام خوارج كے ساتھ پيش آئے،باوجوديكہ (خوارج كى إعلانية بغاوت سے قبل)ان كى نيتوں سے آگاه تهے،آپ كا انکے ساتھ ايسا حسن سلوک دليل هے كه آپ سياسي تنوع كےحق ميں تھے،اور إسلامي نظام حكومت ميں معاشرة كے كسى بھى فرد كو سياسي رائے دينے كا حقدار جانتے تهے،(چہ جائيكہ اس كى رائے اسلامى سياست كى رو سے مطابقت نه ركھتى ہو)

منكرين بيعت اور خارجيوں كے ساتھ مثبت رويہ هونے كے باوجود آپ عليه السلام كى معرفت سے محروم يہ گمراه ٹولا آپ عليه السلام پر سبّ و شتم كرتا اور إلزام تراشيوں سے كام ليتا تھا اور سياسى حزب كا لبادة اوڑھ كر آپ عليه السلام كے خلاف سازشوں ميں مصروف رہتا تھا، جس كا مقصد حقيقي خلافت رشيدة كے نظام حكومت پر شب خون مارنا تھا،اور امت مسلمة كو دوباره كرپٹ سياسى نظام حكومت تلے زندگى گزارنے پر مجبور كرنا تھا،جبکہ آپ عليه أفضل الصلاة والسلام ان كو تمام تر حقوق باهم پہنچاتے رہے ،تاريخ ميں أيسى مثال نہيں ملتى،كہ جہاں سياسى مخالف جماعت يا فرد كو حكمران جماعت ان كے تمام تر حقوق ديتى هو،جس طرح آپ عليه السلام نے اپنے سياسي مخالفين اور خارجيوں كو ان كے حقوق دئيے ہيں،

آپ عليه السلام نے اپنے دور خلافت ميں سياسي مخالفين كو( اپوزيشن كے طور پر تسليم كرتے ہوئيے) اختلاف رائے كا حق ديا،جس طرح سے ان كے ديگر حقوق من وعن ديتے ہوئيے فرمايا!:"إن لكم علينا أن لا نبدأكم بقتال، وأن لا نقطع عنكم الفيء، وأن لا نمنعكم مساجد الله".

ترجمه:تمهارے بارے همارى ذمہ  دارى بنتى هے (كہ جب تک تم بغاوت اور اعلانية جنگ كا آغاز نہ كرو)هم قتال ميں پہل نہيں كريں گے،(اور بيت المال سے تمہارے حصّہ كا خراج نہيں روكيں گے،اور تم كو مسجدوں ميں (ذكر خدا كيلئيے)داخل هونے سے نهيں روكيں گے۔

خلافت ظاهرى (حكومت)كى باگ ڈور سنبھالنے کے بعد اور جنگ جمل سے پہلے آپ عليه السلام كو بلكل أسى طرح كى سياسى سازش كا سامنا هوا،جب طلحة وزبير (آپ عليه السلام كى حكومت كے خلاف حركت ميں آئے اور دلوں كا كھوٹ عملى صورت ميں ظاهر كرنا شروع كيا)تو عمرة كرنے كا بہانہ بنا كر (مكہ كى بجائے،بصره جانے كيليئے) كوفہ سےنكلنے كى آپ عليه السلام سے اجازت چاهى،تاكہ بصرة جاكر لوگوں كو آپ عليہ السلام كى حكومت كے خلاف اكسائيں،اور ايک مسلحہ گروه تشكيل دے كر آپ عليہ السلام كے ساتھ جنگ كريں۔

باوجوديكہ آپ عليہ السلام ان دونوں كى نيتوں سے آگاه تھے،كہ يہ عمره بجا لانے كى غرض سے مكہ كو نہيں جارہے،بلكہ بصره جاكر ميرى حكومت كے خلاف مسلمانوں كو بھڑكاوا ديں گے،اور مسلح ہوكر ميرے خلاف اٹھ كھڑا ہونے كيليئے ان كو آماده كريں گے،تاكہ ميرى حكومت گرا سكيں،پھر بھى ان الفاظ کے ساتھ ان كو جانے كى اجازت ديتے هيں:"إنّنی أذنت لهما مع علمی بما قد انطويا علیه من الغدر واستظهرت بالله علیهما، وإنّ الله تعالى سیردّ کیدهما ویظفرنی بهما"

ترجمه؛ميں نے ان كو جانے كى اجازت دى،اور ان كا معاملة الله پر چھوڑتا هوں،عنقريب خدا ان كے دهوكا وفريب كو فاش كريگا،اور مجھے ان پر كاميابي اور غلبہ عطا فرمائے گا،۔

آپ عليه السلام نے ان دونوں كى نيتوں بارے علم ركھتے ہوئيے بھى ان كو نظر بند كيا اور نہ ہى گرفتار كرنے كا حكم صادر فرمايا،كيونکہ آپ عليه السلام سياسى تعدد أور سياسى اختلاف رائے كے اظہار حق پر يقين ركھتے تھے۔

خاتم الأنبياء كى رحلت كے بعد اور خلافت ظاهرى سے پہلے سياسى خلفاء ثلاثة كے ادوار ميں آپ عليه السلام كے كردار كو اپوزيشن سے تعبير كيا جاسكتا هے،اگرچہ آپ عليه السلام رسول كريم صل الله عليه واله وسلم كےحقيقي جانشين أور شرعى خليفة بلافصل تھے اور حق كى نمائندگى كے لئيے  سب سے زيادة بہتر اور حقدار تھے،حق معارضة اور تعددى سياست پر يقين رکھنے كے باوجود آپ عليه السلام نے اپوزيشن كا كردار اس طرح سے استعمال نہيں كيا جسطرح موجودة دور كى سياست ميں متعارف اور رائج ہے،(آپ عليه السلام نے 25سال كے عرصہ ميں اپنا حق خلافت حاصل كرنےكى كوشش تک نہيں كىى اور اس طويل مدت كو خاموشى سے گزار ديا)تاكہ مسلمانوں ميں خونريزى نہ ہو اور اسلام كا شيرازة بكھرنے نہ پائے،

چنانچہ تاريخ ہميں بتاتى ہے كہ آپ عليہ السلام تينوں سياسي خلفاء كے دور ميں اپنا حق لٹتا ديکھتے رہے،جوكہ (وصيت رسول صل الله عليه واله وسلم كے مطابق شرعى حق اور منہاج نبوت تتمہ كے طور پر الہى حق تھا،اور جنہوں نے  آپ عليه السلام كا حق خلافت لوٹا ان كے ردعمل ميں آپ عليه السلام كا موقف (مصلحت اسلام كى خاطر )پرامن اور خاموش رہا، آپ عليه السلام نے يوں فرمايا::"لَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّي أَحَقُّ بِهَا مِنْ غَيْرِي

ترجمه:بالتحقيق تم لوگ جانتے هو (منصب خلافت)ميں اوروں سے ذيادة حقدار ہوں،ان كلمات ميں آپ عليه السلام يہ بتانا چاهتے هيں كه امت مسلمہ كى زمام أمور سنبھالنا صرف ميرا حق ہے،اور يہ حق بحيثيت رہبر و امام امت خدا وند تعالى كى طرف سے مجھے عطا كيا گيا هے،كيونكه ختم نبوت كے بعد امامت كا سلسلہ نهج نبوت كے واسطے متمم اور إكمال دين ہے۔

اسى بابت آپ نے مزيد فرمايا:" وَوَاللهِ لَأُسْلِمَنَّ مَا سَلِمَتْ أُمُورُ الْمُسْلِمِينَ، وَلَمْ يَكُنْ فِيهِا جَوْرٌ إِلاَّ عَلَيَّ خَاصَّةً، الْتِمَاساً لِأَجْرِ ذلِكَ وَفَضْلِهِ، وَزُهْداً فِيَما تَنافَسْتُمُوهُ مِنْ زُخْرُفِهِ وَزِبْرِجِهِ"،

ترجمه:خداكى قسم!جب تک مسلمانوں كے أمور كا نظم ونسق برقرار رہے گا ،أور صرف ميرى هى ذات ظلم وجور كا نشانہ بنتى رهے گى،ميں خاموشى اختيار كرتا رهوں گا تاكہ اس صبر پر خدا سے اجر وثواب طلب كروں،اور اس زيب وزينت اور آرائش كو ٹھكرا دوں،جس پر تم مٹے ہوئيے ہو.

إمام على عليہ السلام كے اس خطبة شريفہ ميں غور كرنے سے اس حقيقت كو بخوبى جانا جا سكتا ہےكہ سابقہ تينوں سياسي خلفاء كے دور حكومت ميں سياسي معارض(اپوزيشن)كے طور پر آپكا كردار قرآن وسنت كى روش پر تھا،جسكا ہدف و مقصد قرآنى تعليمات اور اصولوں اور ان كے نفاذ كے كے مرحلوں ميں موجود خلا كو پر كرنا تها،(مثلا ـ خليفہ ثانی كے دور ميں متعدد بار شريعت وغيرہ سے متعلق علمى مسائل ميں موجود پيچيدگيوں كو قرآن وسنت اور علم امامت كے ذريعة  اس انداز سے حل فرمايا خليفة ثانى كو كہنا پڑا "لولاك لهلك عمر")

جب تيسرے سياسي خليفہ كے دور ميں نوبت يہاں تک آگئى كہ قرآن وسنت كى روشنى ميں اسلامى حكومت كے ليئے وضع كيے گئے رهنما اصولوں كو بالائے تاک ركھ ديا گيا،اور نام نہاد اسلامى حكومت جاه طلبى،ذاتى مفادات،أقرباء پرورى وغيرة تک محدود هوكر ره گئى،اور بيت المال حكمرانوں كى عياشيوں پر بے دريغ استعمال هونے لگا،اور عوامى مسائل سے چشم پوشى كى جانے لگى،امت مسلمه كى فلاح و بہبود اور معاشرے كى اصلاح كى بجائے ان كے حقوق كو پامال كيا جانے لگا، تو اس ابترى كو ديكھ كر آپ عليه السلام نے سياسي معارض كى حيثيت سے چند نكات پر خصوصى توجہ  دى،(اور چند نكاتى ايجنڈا ترتيب ديا اور اس پر عمل شروع كيا)

1ـالهدفية الإيجابية:اسلامى حكومت كے قيام ما مقصد مثبت أهداف كو حاصل كرنا ہے،آپ عليه السلام نے يہ باور كرايا كہ حكومت حاصل كرنے كى غرض وغايت بادشاهت جمانا نہيں هے،بلكہ اصل هدف و مقصد معاشرے كى إصلاح(نيز سماجى ترقى،معاشرے كى فلاح وبہبود اور عوام كے حقوق كا تحفظ) ہوتا ہے،اور اگر يہ هدف ومقصد كے تحت حكومت حاصل كى جائے تو ايسى حكومت كے معارض حزب اختلاف كى ضرورت ہي نہيں رہتى،(يعنى حكومت كى جانب سے عوام كے حق ميں نامناسب يا متنازع اقدامات كى انفرادى يا جماعاتى سياسى مخالفت كى قطعى گنجائش نہيں رہتى)

2ـ سلمية: آپ عليه السلام نے حاكم كا سيرت نبوى كے پابند هونے پر زور ديا۔

3ـ إعلانيہ طرز تنقيد:آپ عليه السلام نے ڈھكے چھپے انداز سے حكومت پر تنقيد نہيں كى،بلكہ اعلانية اور كهلم كهلا طريقہ سے حاكم وقت تک اپنے تحفظات كو پهنچايا،اور حكومتى خاميوں كو بيان كيا،اسلامى سياست ميں اس بات كو قانونى حيثيت حاصل هے كہ حاكم وقت اگر غلطى پر هو،(گمراه هو جائے)تو اس كو نصيحت كى جائے،اور سيدهى راه دكهائى جائے۔

4ـ صبر اور إنتظار:حكومت ميں بہترى آنے كى اميد پر عوام كو صبر و إنتظار كى تأكيد فرمائى،اور انقلاب لانے ميں عجلت نہيں دكهائى،كيونكہ عجلت كے اثرات هميشہ منفى ہوا كرتے ہيں،لهذا حكومت كو تبديل كرنے اور انقلاب برپا كرنے كى بجائے آپ عليه السلام نے صبر إنتظار كو ترجيح دى۔

چنانچہ آپ عليہ السلام نے فرمايا،: "وطفقت أرتئي بين أن أصول بيد جذاء أو أصبر على طخية عمياء، فرأيت أن الصبر على هاتا أحجى، فصبرت وفي العين قذى، وفي الحلق شجاً"،

ترجمه:اور ميں نے سوچنا شروع كرديا كہ اپنے كٹے هوئيے هاتهوں سے(يعنى كونى ساتھ دينے والا نہيں ہے)حملہ كروں يا اس بھيانک تيرگى پر صبر كرلوں،مجھے اس اندھير پر صبر قرين عقل نظر آيا،لهذا ميں نے صبر كيا،حالانكه آنكهوں ميں غبار اندوه كى خلش تهى،اور حلق ميں رنج وغم كے پهندے لگے هوئيے تهے۔

آپ عليہ السلام نے اس سارى صورتحال ميں انتہائى صبر سے كام ليا،چونكہ مسلمانوں كى فكرى صلاحيت بہت ذيادة مضبوط تھى اور نہ ہى ان كى خلافت اور حكومت بارے سوچ يكجا تھى،نيز اسلام بھى نومولود تھا،جبكه دشمنان اسلام سازشوں ميں مصروف اور اسلام كو نقصان پہنچانے كيلئيے موقع كى تلاش ميں گھات لگائے هوئيے تهے. لهذا آپ عليه السلام نے بطور اپوزيشن ،حكومت كا تخته الٹنے اور انقلاب لانے كى بجائے اس كى إصلاح كرنے كى ٹهانى،كيونكه اس صورتحال ميں إصلاح كو ترجيح دينا ہى مناسب و بہتر تها،اور نہ ہي آپ عليه السلام نے بطور اپوزيشن غير جمہورى انداز اور مخفى طور پر سياسي چالوں كے ذريعه حكومت كو مزيد كمزور كرنے كى كوشش كى،جيساكه آجكل كے دور ميں اپوزيشن جماعتيں كيا كرتى ہيں،

علوى معارضہ كى يہ خاصيت تهى كہ أمور مسلمين كے نظم و نسق ميں قرآن وسنت كو اپنا منهج اور مبدأ قرار ديا هے،مزيد يہ كہ پرامن طريقه سے اپوزيشن كا رول ادا كيا،تاكہ كسى بهى ممكنہ شورش اور اناركى سے دور ره كر انسانى جانوں كى حفاظت كو يقينى بنايا جائے، جبكہ يہ بات اپنے تئيں قابل ذكر ہے كہ آپ عليه السلام كے اخلاق نبيل كى بركت سےمنظم و منسق صورت ميں كيجانيوالى مقاومت كى بدولت اس عظيم اور بڑے مقصد ميں كاميابى حاصل هوئى،نہ كہ بطور اپوزيشن غير منظم اور بے ترتيب طريقه كار اختيار كيا گيا،

اس بے نظير اور أعلى ترين سياسي حكمت عملى كے نتيجه ميں اصلاحى هدف تک رسائى كا مقصد خدا وند تعالى كى رضا حاصل كرنا تها اور آپ كى ولايت كے سائے ميں رهنے والے مواليان كے دلوں كى مسرت بخشنا تها،بلكه آپ عليه السلام تينوں سياسي خلفاء کے دور سے ليكر اپنى خلافت ظاهرى تک اپنے منقطع  النظیركردار كى بدولت مخالفين كے دلوں ميں بهي گهر كر گئے،

خلاصة: يہ كہ آپ عليہ السلام كے نزديک كسى بهى حكومت بارے جمہورى بنيادوں پر عوامى سطح كے باهمى اختلاف كا جائز هونا اس نكتہ كى طرف توجه دلاتا هے كہ (سلطة) حكومت ايسا امتياز نہيں هے كه جس كو حاصل كرنے كے بعد ظلم كا بازار گرم كر ديا جائے اور عوام كے حقوق كو پامال كر ديا جائے، اور نہ ہى (معارضة) اپوزيشن كا مقصد يہ هے كہ حكومت پر غير سياسى انداز سے دباؤ ڈال كر مطالبات كو منوايا جائے جو كه مفاد عامہ سے ہٹ كر ذاتى نوعيت كے ہوں۔

سياست ميں باہمى اختلاف رائے پلورالزم كى ہي ايک قسم هے،جس كے متعلق بطور كلى جانكارى كى ضرورت هے،جس كو صحيح معنوں ميں جاننے كے بعد ہى حقوق الله اور حقوق الناس كا تحفظ ممكن ہے، اور اس نظريہ كے تحت ہى آپ عليه السلام كى خالص اصلاحى حكومت تھى،نه كہ ايسى انقلابى طرز كى حكومت جس كا مقصد صرف حكومتى تبديلى ہوتا ہے۔

لهذا پچھلے تينوں سياسي خلفاء كے دور حكومت ميں بهي بطور سياسى معارض آپكا هدف معاشرے كى إصلاح و سالميت تها،جيساكه قرآن كريم نے اس كو ايجاد كرنے كا حكم ديا ہے، دونوں مرحلوں (حكومت و اپوزيشن)ميں آپ عليه السلام كا كردار هادى اور مصلح كے طور پر تها۔

اسلامى حكومت كى سربراہى كرنے كى غرض وغايت (نظام حكومت ميں بہترى كے ساتھ ساتھ)امت مسلمہ كى اصلاح كرنا تھى،آپ عليه السلام كا مقصد ہرگز يہ نہيں تها حكومت كو اپنى ملكيت بناليں اور نہ ہى دنياوى لالچ ميں آكر حكومت كو اپنے هاتھ ميں ليا،

جيساكه آپ عليہ السلام نے فرمايا:

"اللهم إنك تعلم أنه لم يكن الذي كان منا منافسة في سلطان، ولا التماس شيء من فضول الحطام، ولكن لنردّ المعالم من دينك، ونظهر الإصلاح في بلادك، فيأمن المظلومون من عبادك وتقام المعطلة من حدودك"،

ترجمه:خداوند تو جانتا ہے كہ ميں نے حكومت كے بارے ميں جو اقدام كيا ہے اس ميں نہ سلطنت كى لالچ تھى اور نہ ہى مال دنيا كى تلاش تهى،ميرا مقصد يہ تها كہ دين كے آثار كو ان كى منزل تک پہنچاؤں،اورشہروں ميں إصلاح پيدا كروں،تاكہ مظلوم بندے محفوظ هو جائيں،اور معطل حدود قائم ہو جائيں۔آپ عليه السلام نے حكومت سنبهالنے سے پہلے (دور اپوزيشن ميں)بهي أسى طرح كا اظہار فرمايا تها؛خداكى قسم!جب تک مسلمانوں كے أمور كا نظم و نسق قائم رهے گا اور صرف ميرى ذات ظلم و جور كا نشانہ بنتى رہےگى،ميں خاموشى اختيار كرتا رہوں گا۔

آپ عليه السلام كا بطور عظيم سياسى رهنما كا كردار عالم سياست ميں روشن باب كے طور پر هميشه كى طرح نماياں رہے گا،اور ہر دوركے سياستدانوں كے سياسى قدوة كى حيثيت سے مانا جائيگا،اس بات كے پيش نظر كہ آپ عليه السلام كى سياسى زندگى اپنے اندر بے شمار فكرى موارد كو سميٹے هوئيے هے، جن كے سامنے آج كے دور كى سياسي تنظيميں عاجز نظر آتى هيں،چاہے جس قدر سياسى شعور ميں ترقى پا چكى ہوں ،خصوصا آپكے دور ميں بڑے بڑے پيمانے پر فكرى و اجتماعى تغييرات ہوئيں،اس وجه سے بعد ميں آنيوالى سياسى تنظيموں كے نزديک آپكا دور تاسيسى دور سمجھا جاتا ہے،دنيا كے كسى بهى خطے ميں اسلامى تحريكوں بلكہ انقلابى تحريكوں كے ليئے بھى آپ كے سياسي منهج كو بنيادى اہميت حاصل ہے۔

آپ عليه السلام نے مشركين قريش كے نظام حكومت کے خلاف رسول خدا صل الله عليه واله وسلم كى معيت ميں اسلامى نظرية سياست کے تحت مقاومت بعينہ اس روش كو اپنايا جس طرح كا رويہ آپ نے خلافت ظاہرى سنبهالتے وقت اپنايا تھا، خلافت كا حق آپكو ألله تعالى نے عطا فرمايا تها،اگرچہ يہ حق (دنيا كى ستم ظريفى كى وجه سے) تأخير كا شكار ہوا.ليكن اپنے دور خلافت ميں آپ عليه السلام نے كسى پرظلم كيا اور نہ كسى كے حق پر شب خون مارا.

ظافرة عبد الواحد خلف

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018