10 شوال 1445 هـ   19 اپریل 2024 عيسوى 10:18 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مسلمان شخصیات |  عالم مجاہد ، سعید بن جبیر
2022-12-16   671

عالم مجاہد ، سعید بن جبیر

نام سعید بن جبیر بن ھشام الوالبی الاسدی، کنیت ابو محمد یا ابو عبد اللہ، تابعی ہیں اور ان کا اصل تعلق حبشہ سے تھا ۔ بنو اسد کے غلام تھے اور بنو والبہ بن الحارث کے بھی غلام کہلاتے تھے۔ آپ ۴۵ ہجری نبوی کے موالید میں سے ہیں، ایک اور روایت کے مطابق ۴۶ ہجری میں پیدا ہوئے۔

سعید بن جبیر رضوان اللہ تعالی علیہ اکابر تابعی اور امام زین العابدین علیہ السلام کے صحابی تھے۔ آپ نے امام علیہ السلام سے دین و دنیا کے بہت سارے مسائل کی تعلیم حاصل کی ۔ بلکہ آپ امام علیہ السلام کے بڑے نامدار اصحاب  اور اعلام میں سے تھے۔ البتہ انہوں نے ابن عباس کے ہاں بھی فقہ و حدیث اور تفسیر میں زانوئے تلمذ تہ کیا ہے۔

سعید بن جبیر ان پانچ  وفاداروں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے عقیدہ و ایمان میں امام کی پیروی کی ہے ۔ آپ دین کے مسائل میں ایک پرہیزگار فقیہ تھے ۔  اگرچہ کہ علم تفسیر میں بھی آپ کو مہارت حاصل تھی  اور جب قراء القرآن کی بات آتی تھی تو سرفہرست افراد کے ساتھ  ان کا  بھی نام لیا جاتا تھا ، اور جب مفسرین کی بات آتی تھی تو وہ صف اول میں آتے تھے ۔ ان کی عظمت کے لئے یہ کافی ہے کہ  وہ احادیث نبوی کے رواۃ میں سے ہیں ۔

ابن جبیر رضوان اللہ تعالی علیہ نے مکہ مکرمہ میں نشو نما پائی ۔ اور وہاں کے بڑے نامور عالم کہلائے ۔ اس کے بعد  عراق کی جانب ہجرت کی اور شہر کوفہ میں سکونت اختیار کی اور اہل کوفہ کے معلم و استاد ہوئے ۔ وہ اپنے حسن اخلاق کی وجہ سے خطیب جمعہ کی موجودگی میں بولنے کے بجائے اپنے سر پر کوڑا مارنے کو ترجیح دیتے تھے۔ چنانچہ اپنے اس  مشہور قول کی وجہ سے معروف ہوگئے کہ اگر کوئی ان کے سامنے کسی کی غیبت کرنا چاہتا تو کہتے:" اگر تم کسی کے خلاف بات کرنا چاہتے ہو تو اس کے سامنے ہی کرو۔" ابن جبیر اپنے شدید تقوا و پرہیز گاری کی وجہ سے معروف تھے ۔ یہاں تک کہ انہوں نے ایک دن کپڑے کے ایک ٹکڑے میں ایک قیمتی پتھر دیکھا لیکن اسے نہیں اٹھایا ۔

ان کے خوبصورت اقوال میں  سے ایک یہ ہے: خشیت یہ ہے کہ تم اللہ سے اس طرح ڈرو کہ یہ خشیت تم اور تمہاری معصیت کے درمیان رکاوٹ بنے ، ایسی صورت میں یہ واقعی خشیت ہے جبکہ " ذکر " طاعت الٰہی ہے۔ پس جس نے اللہ کی اطاعت کی اس نے اللہ کا ذکر کیا اور جس نے اللہ کی اطاعت نہیں کی وہ اللہ کا ذاکر نہیں ہوا ۔ اگرچہ وہ کتنی زیادہ تسبیح و تلاوت قرآن کرے ۔ "

سعید بن جبیرکے بارے میں سوائے خیر کے کچھ نہیں کہا گیا ہے۔ امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا " سعید بن جبی علی بن الحسین علیھما السلام کی اقتداء کرتے تھے اور امام زین العابدین علیہ السلام ان کی تعرف کرتے تھے ۔ حجاج نے ان کو قتل بھی اسی وجہ سے کیا کہ آپ امام زین العابدین علیہ السلام کے سچے عاشق اور پیروکار تھے۔ آپ ایک سچا عقیدہ رکھتے تھے ۔  

چنانچہ فضل بن شاذان نیشاپوری رضی اللہ تعالی عنہ کہتےہیں:"علی بن الحسین علیھما السلام کی امامت کے شروع میں صرف پانچ لوگ تھ: سعید بن جبیر ، سعید بن المسیب، محمد بن جبیر بن مطعم ، یحییٰ بن ام الطویل، ابو خالد کابلی ۔ "

ابن شہر آشوب کہتے ہیں:" سعید بن جبیر کو جھید العلماء ( مجاہد عالم ) کہا جاتا تھا ۔ وہ دو رکعت نماز میں ختم قرآن کیا کرتے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی زمین میں نہیں ہے مگر وہ جبیر بن سعید کے علم کا محتاج ہے۔ "

جس طرح سے تاریخ الکوفہ کے مؤلف علامہ شیخ براقی رضوان اللہ تعالی علیہ نے سعید بن جبیر کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے :" نہیں تھا زمین میں کوئی بھی مگر وہ سعید بن جبیر کے علم کا محتاج ۔ "

شیخ کاشف الغطاء کہتے ہیں:" سعید بن جبیر بن ھشام کوفی، حافظ و قاری، مفسر، شہید ، شہرہ آفاق عالم، علم کی بلند و بالا چوٹی اور شاندار شخصیت ،ہر زبان پر جن کا نام، جن کی آواز آفاق تک پہنچ گئی اور ہر حد پار کر گئی، کوفہ کے شیعوں کا نچوڑ، اہل بیت علیھم السلام کے ساتھ والہانہ عقیدت رکھنے والے اور اس کو ظاہر کرنے والے اور اہلبیت کی اطاعت کے وجوب کی جانب دعوت دینے والے تھے اور یہی چیزیں ان کی شہادت کا سبب بنیں ۔ رضوان اللہ تعالی علیہ"

شہادت:

سعید بن جبیر کی شہادت ۱۱ رمضان المبارک  ۹۵ ہجری میں واقع ہوئی۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر شریف ۵۹  سال تھی ۔ حجاج بن یوسف ثقفی لعنہ اللہ تعالی کے حکم پر شہید کردئے گئے۔ اس نے اپنے جلادوں سے صرف سعید بن جبیر کی شہادت کے بارے میں سوال کیا  لیکن ان کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا جو سعید بن جبیر کے ساتھ شہید ہوئے تھ۔ جلادوں میں سے ایک نے جواب دیا: " ان کو میں نے اس کی روح کے ساتھ ہی قتل کردیا۔ لیکن جن کو تم اس سے پہلے قتل کرتا تھا، ان کو قتل کرنے سے پہلے خوف کی وجہ سے ان کی روح بدن سے نکل جاتی تھی۔ اس وجہ سے ان کا خون کم بہتا تھا۔ "

رواۃ سعید بن جبیر کی شہادت کے وقت ان کی  شجاعت  کو بھی نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے ظالم و جابر حجاج ثقفی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس ملعون کے سامنے سینہ سپر ہوکر امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے فضائل بیان کئے۔ جس پر حجاج ثقفی ملعون نے ان کے قتل کا حکم دیا، ایسے میں سعید نے  قبلہ کی طرف رخ کیا قرآن کریم ان آیات کی تلاوت کی:"  وجھت وجھی للذی فطر السماوات والارض حنیفا وما انا من المشرکین ۔" اس پر حجاج کو غصہ آیا  ، فورا جلاد کوحکم دیا کہ زبردستی جبیر کا چہرہ قبلہ سے پھیر دے ، اس نے سعید کا چہرہ پھیر دیا ۔اس پر سعید بن جبیر رضوان اللہ تعالی علیہ نے قرآن کریم کی یہ آیات تلاوت کی :" فاینما تولوا فثم وجہ اللہ ان اللہ واسع علیم "۔ اس پر حجاج ملعون نے ان کے قتل کرنے کا حکم دیا اورکہا کہ ان کو چہرے کے بل گرا دیا جائے۔ اس پر ابن جبیر رحمۃ اللہ علیہ نے بلند آواز سے کہا:" منھا خلقنا کم و فیھا نعیدکم و منھا نخرجکم تارۃ اخریٰ"، پس سعید نے اللہ کی راہ میں صبر و استقامت کے ساتھ مرتبہ شہادت پاکر آرام کر گیا ۔اور حجاج ملعون کی قبر میں عذاب کی آگ ہوگی ۔ حجاج کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ نیند  میں ڈر کے مارے اچانک چیخ مار کر اٹھتا اور کہتا :" اے ابن جبیر میرا اور تمہارا کیا معاملہ ہے ؟ بلکہ وہ نیند میں عتبیٰ ابن جبیر کو دیکھتا تھا کہ وہ کہتا :" اے دشمن خدا ! کس بات پر تم نے مجھے قتل کردیا ہے؟"  حجاج وحشت سے جاگ اٹھتا اور کہتا   میرا اورابن جبیر کا کیا ہے ؟

عمارۃ الحی کی قبرستان (یہ قبرستان عراق میں واسط کے نزدیک ہے ) میں دفن ہوئے۔ ان کی قبر ایک بڑی اور معروف مزارات میں سے ہے، رضوان اللہ تعالی علیہ ۔ 

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018