| مسلمان شخصیات | فرزدق ۔۔۔ جن کی شاعری اہمیت کی حامل ہے
فرزدق ۔۔۔ جن کی شاعری اہمیت کی حامل ہے
فرزدق ایک اصلی عربی اور عراقی شاعر ہیں، جن کے لہجے میں نرمی، کلام میں مٹھاس تھی۔ فرزدق ابتدائی دونوں صدیوں کے مشہور اور نامور شاعر تھے کہ جن کے بارے میں کہا گیا ہے: " اگر فرزدق کے اشعار نہ ہوتے تو زبان عربی کا ایک تہائی ختم ہوجاتا"
فرزدق کا نام ، ھمام بن غالب بن صعصعۃ بن ناجیۃ بن عقال بن محمد بن سفیان بن مجاشع بن دارم بن حنظلہ بن زید بن مناۃ بن مر بن ادّ بن طابخۃ ابو فراس بن ابی خطل التمیمی البصری ہیں جو فرزدق کے لقب سے معروف ہیں اور ان کی کنیت ابوفراس ہے۔ ابوفراس فرزدق ۳۸ ہجری کو شہر بصرہ میں پیدا ہوئے اور بصرہ میں ہی ۱۱۰ ہجری کو انتقال کر گئے۔
جس طرح سے شعراء اپنے شعر کو کمانے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ فرزدق نے شعر کو کمانے کا وسیلہ نہیں بنایا۔ وہ اشعار کہتا تھا تو بس ولایت اہل بیت علیھم السلام۔ انہوں نے اپنے ہر شعر کو اہل بیت علیھم السلام کے حق کو ظاہر کرنے کے لئے کہا ہے۔ خاص طور سے کہ جب وہ چھوٹے تھے تو ایک دن امیر المؤمنین علیہ السلام کے دیدار کا شرف نصیب ہوا۔ اس ملاقات میں امیر المؤمنین علیہ السلام نے قرآن سیکھنے کا حکم دیا اور اس ہنر شعر کو ایک اصولی نام دیا اور اس نے فرزدق کو ایسا اصولی شاعر بنا دیا کہ جس پر کوئی شاعر برتری حاصل نہ کر سکا ایک دن غالب یعنی فرزدق کے والد امیر المؤمنین علیہ السلام کی حکومت کے ایام میں آپ کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اس وقت غالب ضعیف ہوچکے تھے اس لئے فرزدق بھی اپنے والد کے ساتھ تھے۔ امیر المؤمنین علیہ السلام نے پوچھا کہ یہ بچہ کون ہے آپ کے ساتھ ؟ غالب نے عرض کیا َ میرا بیٹا ہے ۔ امام نے پوچھا : اس کا نام کیا ہے ؟ عرض کیا :ھمام ہے ۔ یا امیر المؤمنین میں نے ان کو شعر اور کلام عرب سکھایا ہے ۔امید ہے کہ یہ ایک اچھا شاعر بنے گا ۔ امام نے فرمایا: اگر ان کو قرآن کی تعلیم دو تو یہ اس کے لئے بہتر ہے ۔ فرزدق اس واقعہ کو بتانے کے بعد کہتے تھے :" ان کا کلام آج تک میری روح و جان میں ہے جیسا کہ وہ اپنے آپ کو زنجیروں میں جکڑ لے اور اسے کھول نہیں سکتا جب تک کہ وہ قرآن حفظ نہ کرلے۔
جب امام حسین علیہ السلام مدینہ سے روانہ ہو کر کوفہ کی جانب نکلے تھے تو نزدیک کوفہ فرزدق امام علیہ السلام سے ملتے ہیں ۔ فرزدق کہتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ کو لے کر ساٹھ ہجری میں حج کیا، میں اونٹ کو ہنکا رہا تھا اور ایسے میں حرم میں داخل ہوگیا ۔ دیکھا کہ امام حسین علیہ السلام مکہ سے خارج ہورہے ہیں ،آپ کے ساتھ تلواریں بھی ہیں اور ڈھالیں بھی۔ میں نے عرض کی: یہ قطار کس کے لئے ہے ؟ جواب دیا گیا کہ یہ حسین علیہ السلام کے لئے ہیں۔ میں امام کی خدمت میں گیا اور سلام عرض کیا ۔ اور عرض کیا : اللہ آپ کی آرزو اور خواہش پورا فرمائے ، فرزند رسول ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، حج سے بھی کیا جلدی ہوگئی ؟ امام نے فرمایا : اگر جلدی نہ کروں تو پکڑا جاؤں گا۔ پھر امام نے ان سے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے عرض کی: ایک عرب ہوں ، اللہ کی قسم اس سے زیادہ امام نے مجھ سے پوچھ گچھ نہیں کی ۔ پھر مجھ سے فرمایا: مجھے ان لوگوں کے بارے میں بتادو جب ہم ان سے جدا ہوئے ۔ " فرزدق نے واقعہ کربلا کے بعد امام حسین علیہ السلام کے غم میں مرثیہ پڑھا ہے ۔ جس میں یہ کہا: دیکھو، آپ کے پیچھے اگر عرب اپنے سردار و افضل ترین کے فرزند کے دشمن ہوئے ہیں۔ تو میں کہوں گا کہ آپ نے جاننے والے سے سوال کیا ہے۔ میں نے دیکھا کہ لوگوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں البتہ ان کی تلواریں آپ کے خلاف اور فیصلہ تو آسمان سے نازل ہوتا ہے ۔ اور اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔ امام نے فرمایا : تم نے سچ کہا ، حکم تو اللہ ہی کا ہے اور ہمارا رب کا ہر دن نیا کام اور شان ہے (کل یوم ھو فی شان)۔ اگر ہم جو چاہتے ہیں اسی کے مطابق قضا نازل ہوئی تو ہم اللہ کی ان نعمتوں پر حمد کریں گے ۔ اور وہ ہی ادائے شکر میں مدد گار ہے اور اگر ہماری امید کے برخلاف قضائے الہی نازل ہوئی تو یہ اس کے لئے بعید نہیں ہے جس کی نیت حق ہو اور تقوا اس کا سریرہ ہو۔ میں نے عرض کی: جی ہاں ، اللہ آپ کو اس تک پہنچائے جو آپ ک و پسند ہے اور جس چیز سے خائف ہیں اس سے محفوظ فرمائے ۔ اس کے بعد میں نے نذر و مناسک حج کے کچھ مسائل پوچھے جن کا امام نے مجھے جواب مرحمت فرمادیا اور اپنی سواری کو حرکت دی اور فرمایا : السلام علیک۔ جان لو کہ اس کی عزت دائمی ہوگی اور اور ہیبت باقی رہے گی۔ اور اگر تم صبر کرو اور اپنے آپ کو نہ بدل دوتواللہ زمانے بھر میں بھی اس میں سوائے ذلت کے کچھ اضافہ نہ فرمائے گا۔ امام حسین علیہ السلام ان سے جدا ہوئے ۔ فرزدق نے بعد میں یہ اشعار کہے :
فإن أنتم لم تثأروا لابن خيرِكم ۔
فألقوا السلاحَ واغزلوا بالمغازل
اگر تم اپنے بہترین کے فرزند کا انتقام نہیں لےسکتے ہو تو اپنے بازو لیٹ کر تکلے سے گھماؤ۔
اسی طرح فرزدق نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام سجاد علیہ السلام کی امامت کی خبر کو عام کردیا ۔ اس کی دلیل کے لئے فرزدق کا وہ اشعار میمیہ ہیں جس کو انہوں نے امام سجاد عیہ السلام کے حق میں ہشام بن عبد الملک کے سامنے طواف کعبہ کے وقت کہا۔ یہ وہ اشعار ہیں جن کو سن کر اموی خاندان کو بہت تکلیف ہوئی ۔اس شاہکار کلام کے کچھ اشعار یہ ہیں :
هذا الذي تعرف البطحاء وطأته والبيت يعرفه والحلّ والحرم
هذا ابن خير عباد الله كلهـــــــم هذا التقي النقي الطاهر العلم
یہ وہ شخص ہے جس کے قدم کو سرزمین مکہ جانتی ہے ، اور بیت اللہ بھی ان کو جانتا ہے اور حل و حرم بھی ۔ یہ بہترین بندوں کا بیٹا ہے یہ تقی و نقی اور طاہر اور صاحب علم ہے ۔
جن علماء نے فرزدق کی عظیم شان و منزلت کے بارے میں کہا ہے ان میں سے سید محسن امین رضوان اللہ تعالی علیہ کا کلام ہے وہ کہتے ہیں :
"فرزدق ایک سردار، سخی ، فاضل اور خلفاء اور امراء کے نزدیک قابل احترام شاعر تھا ۔ بنو امیہ کے دور میں فرزدق اہلبیت سے اپنے عقیدے کا برملا اظہار کرتا تھا ۔ بنو ہاشم کے زندوں کی تعریف کرتا اور ان کے مردوں کا ماتم کرتا تھا ۔ جبکہ بنو امیہ اور ان کے حکمرانوں کا مذاق اڑاتا تھا۔ "
چنانچہ جاحظ نے بھی کہا ہے :" اگر تم چاہتے ہو کہ قصیدوں میں ایسا مختصر قصیدہ جس کے مانند نہیں سنا گیا ہو تو تم فرزدق کے مختصر قصائد کو پڑھ لو۔ اس لئے کہ فرزدق کے سوا کسی شاعر کو نہیں پاؤ گے جس نے مختصر اور طویل دونوں قسم کے اشعار میں اس طرح خوبصورتی کو جمع کیا ہو۔