16 شوال 1445 هـ   25 اپریل 2024 عيسوى 4:50 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | اسلام میں معیشت |  بازار اسلام کے تناظر میں
2022-02-18   1164

بازار اسلام کے تناظر میں

اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اس کے تمام احکام میں کوئی نہ کوئی خاص مقصد ہوا کرتا ہے اسلام میں بازار کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے اور اس کا بھی ایک خاص مقصد ہے۔ اس کا اہم ترین ہدف اقتصاد ہے جس کو قائم کرنے کے لئے اسلام نے کچھ خصوصیات اور حدود بھی معین کئے ہیں۔ اسلام چاہتا ہے کہ بازار بھی ان ہی قواعد و ضوابط کے تحت قائم رہے۔ اسلام کا بازار میں اس طرح تفصیل کے ساتھ آکر دخالت کرنا صرف اس لئے ہے کہ اقتصادی عمل بہتر طریقے سے چلے۔اور دوسری وجہ یہ ہے کہ انسان کا معاشی نطام حرکت میں ر ہے۔ مزید یہ کہ اسلام میں بازار کے اوصاف درحقیقت تجارتی عمل کے شرائط و ضوابط کی حیثیت رکھتے ہیں اور اسلام چاہتا ہے کہ بازار اور کاروباری تجارت میں ان اصول اور شرائط کی پابندی ہونی چاہئیے۔ یعنی اسلام کی نگاہ میں یہ معیارات ہیں کہ جن کے اندر رہ کر مسلمان کو اقتصادی اور تجارتی عمل جاری رکھنا چاہیئے۔ چاہے وہ آپس میں تجارتی معاملات انجام دے رہے ہوں یا دوسروں کے ساتھ تجارتی کاروبار کر رہے ہوں۔ ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی اقتصادیات کی اپنی خاص خصوصیات ہیں۔ جن کو شارع حکیم نے اپنی حکمت مطلقہ سے وضع کیا ہے۔ اس نے اپنی حکمت سے ایسے قواعد وضع کئے ہیں جو انسان کی زندگی کے رواں دواں رہنے کے ضامن ہیں۔ اور اسی نے ایسے مصالح اور حکمتیں اس میں رکھی ہیں جو طلب ورسد کی پیچیددگیوں کو حل کرتی ہیں، نیز حالات اضطراری اور تزاحمات کے مواقع پر بھی اسلام نے ایسے احکام وضع کیئے ہیں جن سے یہ مشکلات برطرف ہوجاتی ہیں ۔ پس جب ہم اسلامی بازار کی جانب ایک تجارتی وسیلہ کے لحاظ سے مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مقابلے کا معیار درحقیقت اقتصادی حرکت اور اس کی گردش ہے۔ یہاں مقابلہ سے مقصود پیدوار کے عمل کو بڑھانا اور اور مارکیٹنگ ہے ۔ کیونکہ اس طرح لوگوں کی معیشت میں بہتری آجاتی ہے اور لوگوں کے لئے روزگار کے بہتر مواقع فراہم ہوجاتے ہیں ۔جبکہ کند ذہنی اس کے برخلاف ہے اس سے اقتصاد میں نہ گردش ہوسکتی ہے اور نہ رونق آسکتی ہے۔ البتہ تجارتی مقابلے کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک طرف سے پیداوار کی مقدار میں حد سے زیادہ اضافہ نہ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ صارف بھی اکتفاء کرے۔ یعنی اس میں تولید کنندہ اور صارف دونوں کے لئے برابر کا فائدہ ہے ۔

نیکی کی طرف سبقت اور مقابلہ:

نیکی کی جانب سبقت لے جانا اور اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا انسان کی اخلاقی تربیت میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے ۔اسلام نے اس طرح کے مقابلے کو زندگی کے ہر پہلو میں بینادی اہمیت دی ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعے انسان کی انفرادی اور اجتماعی دونوں لحاظ سے ترقی ہوتی ہے ۔ پس جب سوسائٹی کے لوگ نیک اعمال میں ایک دوسرے  کا مقابلہ کرتے ہیں اور نیک کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا مقابلہ کرتے ہیں تو یقینا اچھا والا مقابلہ اقتصادی سرگرمیوں میں بھی ہوجائے اور کاروباری اور تاجر پیشہ لوگ بھی نیک کام انجام دینے میں جد جہد اور سعی و کوشش کریں گے۔ جس کا ایک فطری نتیجہ یہ ہوسکتا ہے کہ سودی معاملات سے وہ لوگ پرہیز کریں ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں کے زیادہ کرنے سے رک جائیں گے ۔ علاوہ اس کے اپنی احتیاجات و ضروریات کو جائزاور شرعی طریقے سے پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس طرح سے بازار میں ایک پسندیدہ اورر اخلاقی توازن برقرار ہوجائے گا اور ساتھ ہی ان کے اس طرح مثبت مقابلے سے مفید پیداوار میں اضافہ بھی ہوجائے گا  او وسائل بھی بہتر مہیا ہوجائیں گے۔ جس کا ایک اور اچھا نتیجہ  یہ  ہےکہ زندگی گزارنا آسان ہوجائے گا۔کیونکہ اس صورت میں صارفین اپنی ضرورت کی چیزوں کو مناسب قیمت پر خرید سکتے ہیں۔

محنت اور تجارت کی آزادی :

اسلام بازار میں آزادی کے ساتھ کام کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ لہذا سارے لوگ آزاد ی کے ساتھ کاوربار اور تجارت کرسکتے ہیں ۔ صرف شرط یہ ہے کہ نہ نقصان اٹھائیں اور نہ کسی کو نقصان پہنچائیں۔کیونکہ اسلا م میں اس بارے قاعدہ ہے (لا ضرر ولا ضرار فی الاسلام )۔ جس طرح سے اسلام کی نگاہ میں اقتصادی آزادی سے مقصود سپلائی اور طلب میں تعادل ہے۔ کیونکہ طلب ہے جس کے ذریعے حکم لگایا جسکتا ہے۔ اس کے مصادیق میں سے ایک یہ ہے کہ قیمت میں اضافہ کو صارف کے طلب میں کمی کے ذریعے متوازن بنایا جاسکتا ہے۔ جس کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ تولید کنندہ اپنی اشیاء کی قیمت  کم رکھنے پر مجبور ہوجائے گا کیونکہ بازار کا سسٹم ہی ایسا ہے ۔ یوں اسلامی بازار کے لئے کچھ خاص قسم کے تاجروں اور تولید کنندہ کے استبداد کا خطرہ نہ رہے گا۔ بلکہ حکومت کو بھی اس معاملے میں آکر دخالت دینے کی ضرورت نہ رہے گی۔ کیونکہ طلب اور رسد کے درمیان خود بخود ایک تعادل قائم ہو چکا ہوتا ہے۔ چنانچہ اس تعادل سے بازار میں ایک نئی رونق آجاتی ہے اور تولید کنندگان کی تعداد میں  اضافہ ہوجاتا ہے یا بہتر تعبیر میں یہ کہ بازر کے اندر حاکم اقتصادی قوت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور صرف ایک ہی تولید کنندہ پر انحصار کا مسئلہ ختم ہوجاتا ہے۔ جس سے چند ایک تولید کنندگان کے ذخیرہ اندوزی کا سد باب بھی ہوسکتا ہےاور مہنگائی اور صارفین کے  استحصال  کے مواقع کا بھی سد باب ہوتا ہے۔

بازار کی شفافیت:

اسلامی بازار اپنے عام وخاص اقتصادی معاملات اور اس میں پنی شفافیت کے لحاظ سے ایک جداگانہ اور ممتاز حیثیت رکھتا ہے اور ہر قسم کے برے اور غلط کاموں سے بالکل دور ہے۔ کیونکہ اسلامی بازار کا اخلاقی نظام بازار کے اوپر نگرانی کی ضرورت پر زور دیتا ہے تاکہ بازار کی شفافیت اور جائز کاروبار کی حالت باقی رہے۔ خاص طور سے قیمتوں ، اشیاء کی کوالٹی اس کے خوبی اور خرابی سب پر کڑی نگاہ رہے ، نیز اسلام کا نظام اقتصاد اس پر بھی نظر رکھتا ہے کہ یہ چیزیں مارکیٹ میں کہاں سے آتی ہیں ،کہاں پر بنتی ہیں سب پر کنٹرول رکھتا ہے ۔ اسلام کی نگاہ میں اقتصاد ایک بشری علم ہے اس کا احتکار نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ یہ سب کی ملکیت ہے اور یہ وہی علم ہے جو ایک سادہ صارف کو بھی مارکیٹ کی گردش اور اس کے اتار چڑھاؤ سے آگاہ اور خبردار رکھتا ہے ۔ بلکہ مختلف مارکیٹوں کے تمام حالات سے بھی با خبر رکھتا ہے ۔ اسلام کی ان بنیادی اصلاحات میں سے ہے کہ اسلام نے ان اقتصادی معاملات کو کو منع کیا ہے جن سے معاشرے میں نقصان ہوتا ہو۔ جیسے ضرر والی فروخت، بیع منابذہ اور بیع ملامسہ۔ اسی طرح سے معاملہ میں نقصان کرنے کو بھی منع کیا گیا ہے (جس کو بیع غبن ) کہتے ہیں اس معاملہ کی وجہ سے خریدار کو جو نقصان ہوا ہے اس کی وجہ سے اسے مذکورہ معاملہ کو مسترد کرنے کا حق حاصل ہوتا  ہے۔ اس طرح کے قوانین فقہی کتابوں میں مفصل بیان ہوئے ہیں جو اسلام کے اقتصادی نظام میں مضبوط قواعد کہلاتے ہیں اور اخلاقیات کی تعمیر میں بھی مؤثر ہیں۔ جیسے بیع بالخیار۔ غرض یہ وہ اصول و قواعد ہیں جو ایک مارکیٹ کے لئے شفافیت اور نظم دیتے ہیں کہ جن سے خریدار اور فروشندہ دونوں جب آگاہ ہوتے ہیں تو ان کے اندر اب ایک دوسرے کو دھوکہ دینے یا غفلت میں رکھ کر سوء استفادہ کرنے کا موقع نہیں مل سکتا ہے  یہ وہ چیز ہے جس آج مارکیٹ کی یکسانیت کہلاتی ہے۔ اس لئے کہ  اچھی نگرانی اور  کنٹرول کا ہونا سبب بنتا ہے کہ اشیاء کی قیمتیں مناسب رہیں اور مسلمانوں کا بازاری نظام جتنا بھی پھیل جائے مذکورہ موزونیت  پورے بازار میں  قائم رہتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے اقتصادی فکر میں ترقی و تکامل پیدا ہوتا ہے ،خلاصہ یہ کہ اقتصادی میدان میں مقابلے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جس ذریعے سے بھی ہو آدمی منافع زیادہ حاصل کرے یہ ہرگز مراد نہیں ۔ بلکہ اس سے مقصود پیداوار کا مثبت اور مفید اضافہ  ہے۔

مارکیٹ میں اخلاق کی حکمرانی:

اسلام جس طرح سے سیر وسلوک کے میدان میں اخلاقی نظام دیتا ہے اسی طرح سے اقتصادیات میں بھی اخلاقی قواعد و ضوابط فراہم کرتا ہے۔ جس کی کاروبار کے وقت بھی پابندی ضروری ہے چناچہ اس سلسلے میں اہلبیت علیھم السلام کے بہت سے  فرامین حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں جن  پر عمل ایک تاجر کے لئے لازمی ہے۔ انہی تعلیمات میں سے ایک امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کا یہ فرمان ہے: " یا معشر التجار !الفقہ ،ثم المتجر، الفقہ ثم المتجر، االفقہ ثم المتجر۔ " اے گروہ تجار! سب سے پہلے فقہ کا علم سیکھو پھر کاروبار کرو۔  پہلے فقہ پھر تجارت ، پہلے فقہ پھر تجارت۔ اسی طرح سے امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:" من اراد التجارۃ فلیتفقہ فی دینہ لیعلم بذالک ما یحل لہ ومما یحرم علیہ، و من لم یتفقہ فی دینہ ثم اتجر تورط فی الشبھات"۔ (ترجمہ): جوشخص کروبار کرنا چاہتا ہے اسے دین میں سوجھ بوجھ حاصل کرنا چاہئیے تاکہ اسے معلوم ہو کہ کون سی چیز اس کے لئے حلال ہے اور کون سی چیز اس پر حرام ہے ۔ اس لئے کہ جو آدمی فقہ کا علم سیکھے بغیر تجارت شروع کرے گا وہ ضرور شبھناک چیزوں مین ڈوب جائے گا۔" اسی اخلاقی قاعدہ میں سے ایک یہ ہے :' لا یبیع بعضکم علی بیع اخیہ " یعنی ایک مسلمان تاجر کے لئے یہ سزاور ہے کہ جب وہ دیکھے کہ ایک معاملے میں دوسرے مسلمان بھائی کو نقصان ہو رہا ہے اور اس کا ازالہ بھی نہیں ہوسکتا ہے تو اس کو سمجھائے اور نصیحت کرے کیونکہ اصل میں فائدہ دونوں کو ہونا چاہئیے یہاں ایک کو فائدہ مل رہا ہے تو یہاں ایک ایسا طریقہ اختیار کرے جس سے دونوں کو فائدہ ملے یا اس کو ایک جائز مشارکت کی جانب دعوت دے یا کسی اور کام کی راہنمای کرے جو جائز اور زیادہ بہتر ہو ۔ اسی طرح اور مفید ہدایات ۔ لیکن  دھوکہ و فریب کے ذریعے اپنا ہی فائدہ اٹھاکر بازار سے خارج ہوجائے تو یہ اسلامی اقتصادی مقابلہ کی روح کے ساتھ منافات رکھتا ہے ۔ اسی لئے اسلام نے ملاوٹ  جس طرح کی بھی ہو  اسے حرام کردیا ہے ۔ کیونکہ اس میں بھی ایک آدمی کے لئے حقیقت چھپائی جاتی ہے ۔ جس طرح سے خود تدلیس ہے یعنی جنس کی صفت بیان کرتے وقت اس کی حقیقت چھپانا تاکہ خریدار لینے کے لئے تیار ہوجائے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وارد ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ کے بازار میں داخل ہوئے اور آپ نے ایک اچھا طعام دیکھا  اور اس کے مالک سے پوچھا:"میں تمہارے طعام کو اچھا ہی دیکھ رہا ہوں، اس کی قیمت کیا ہے؟ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوئی کہ اپنے دست مبارک سے اس کو ذرا سا کھنگالے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا ہی کیا  تو اس کے اندر سے بیکار طعام نکل آیا ۔  یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا : " میں نے تمہیں نہیں دیکھا مگر تم نے مسلمانوں کے لئے خیانت اور ملاوٹ دونوں کو جمع کیا ہے"۔

جو کچھ مذکورہ بالا سطور میں لکھا گیا ان سے درجہ ذیل چیزیں سامنے آتی ہیں:

 یہ کہ اسلام عاملین پیداوار اور صارفین دونوں پر کسی طرح کا اکراہ اور جبر نہیں کرتا ہے وہ جو کام کرتے ہیں اس میں اگر کسی اور کو نقصان نہیں پہنچتا ہے تو آزاد ہیں ۔ تاکہ بازار کی کاروباری رونق بحال رہے ۔ البتہ اسی طلب و رسد کے قاعدہ کے مطابق یہ کہ عامل پیداوار کی رسد اور صارف کی طلب میں  یکسانیت کا ہونا مارکیٹ کے استحکام کا بنیادی اصول و قاعدہ ہے۔ کیونکہ طلب اور رسد کے درمیان یکسانیت قیمتوں کو حد کے اندر رکھتی ہے جس کی بدولت اقتصادی عمل میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا ہے۔ چاہے  یہ خلل عامل پیداوار کے لحاظ سے ہو یا صارف کے لحاظ سے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018