11 شوال 1445 هـ   20 اپریل 2024 عيسوى 6:41 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | احکامِ اجتماعی |  اسلام ، روحانیت اور فلسفہ احکام پر تحقیقی نقطہ نظر
2022-01-22   751

اسلام ، روحانیت اور فلسفہ احکام پر تحقیقی نقطہ نظر

عام طور پر بے دین لوگ دین کو اور خاص طور پر دین اسلام کو نشانہ بناتے ہیں اور دین و مذہب کو ایک بے مقصد چیز سمجھتے ہیں اور اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ دین کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ دین بنیادی طور پر انسانی زندگی کے ساتھ سازگار نہیں ہے، دین انسانی معاشروں کے لیے افیون کی مانند ہے۔ لوگ کچھ نہیں کر سکتے تو مذہب میں پناہ لیتے ہیں مذہب دراصل بے بسوں کا طریقہ ہے۔خدا نہ کرے ایسا ہو مگر یہ ملحدین چاہتے ہیں کہ ہر اس چیز کو تباہ کر دیں جس کی مذہب ہمیں تعلیم دیتا ہے اور ان مذاہب میں سے اسلام ہے جس کی بنیاد پر بہت سی قوانین بنائے گئے ہیں بہت سے قومی اور بین الاقوامی تنظیمیں کام کر رہی ہیں اور بہت سے ممالک میں اسلام کی بنیاد پر قوانین بنائے گئے ہیں۔ دین کے منکرین ان معاشروں اور ان تہذیبی آثار کا تذکرہ نہیں کرتے جو اسلام نے تشکیل دیے ہیں اسلام نے جس تہذیب کی بنیاد رکھی وہ انسان کی بنائی کسی بھی تہذیب کو شکست دے سکتی ہے خواہ وہ انسانی تہذیب کتنی ہی بڑی اور کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔

اسلام انسان کی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے اور بالخصوص انسان کو روحانی طور پر طاقتور بنا دیتا ہے اور اس میں انسانیت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دیتا ہے اگر یوں بھی کہا جائے تو درست ہوگا کہ اسلام انسان میں بھلائی کا جذبہ پیدا کر دیتا ہے۔ انسانیت کا جذبہ ایسا جذبہ ہے جسے آپ شارع مقدس کی طرف سے آنے والے ہر حکم کے پیچھے کار فرما پائیں گے۔ اسلامی احکام میں روحانی پہلو کی طرف بہت زور دیا جاتا ہے اللہ تعالی نے اسلامی احکام میں بنو نوع انسان کو باہم پرونے کا اہتمام کیا ہے اور انسانوں میں اتحاد، وحدت اور یکجہتی پیدا کرنے کا حکم دیا ہے اور ہر طرح کی باہم تفرقہ پیدا کرنے والی چیزوں سے روکا ہے۔ ہم شارع مقدس کی طرف سے آنے والے تمام احکامات یہاں تک کہ عبادات میں بھی یہ دیکھتے ہیں کہ یہ ایک دوسرے کی مدد و نصرت کا جذبہ پیدا کرتی ہیں، اس سے محتاج اور فقیر کی مدد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں یہ جذبہ اس حکم قرآنی سے پیدا ہوتا ہے جو اللہ تعالی نے قرآن میں غریب ،فقیر،یتیم اور مسکین کی مدد کے لیے دیا ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ (27) لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ (28) ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ))(سورة الحج ـ 27 ـ 29)

۲۷۔ اور لوگوں میں حج کے لیے اعلان کرو کہ لوگ آپ کے پاس دور دراز راستوں سے پیدل چل کر اور کمزور اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں۔ ۲۸۔ تاکہ وہ ان فوائد کا مشاہدہ کریں جو انہیں حاصل ہیں اور خاص دنوں میں اللہ کا نام لو ان جانوروں پر جو اللہ نے انہیں عنایت کیے ہیں، پس ان سے تم لوگ خود بھی کھاؤ اور مفلوک الحال ضرورتمندوں کو بھی کھلاؤ۔ ۲۹۔ پھر وہ اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور اللہ کے قدیم گھر کا طواف کریں۔

اسی طرح ارشاد ہوتا ہے:

((وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ ۖ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ ۖ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ))(سورة الحج ـ 36)

۳۶۔ اور قربانی کے اونٹ جنہیں ہم نے تم لوگوں کے لیے شعائر اللہ میں سے قرار دیا ہے اس میں تمہارے لیے بھلائی ہے، پس اسے کھڑا کر کے اس پر اللہ کا نام لو پھر جب یہ پہلو پر گر پڑے تو اس میں سے خود بھی کھاؤ اور سوال کرنے والے اور سوال نہ کرنے والے فقیر کو کھلاؤ، یوں ہم نے انہیں تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکر کرو۔

دین نے کھانا کھلانے کے سلسلے کا آغاز اللہ کے حکم سے کیا گیا اسلام نے کچھ امور کا کفارہ مسکین کو کھانا کھلانا قرار دیا اور قرآن کریم کی بہت سی آیات میں اس کی تاکید ملتی ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

(( لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ ۖ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ۚ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ))(سورة المائدة ـ89)

۸۹۔ اللہ تمہاری بے مقصد قسموں پر تمہارا مواخذہ نہیں کرے گا لیکن جو سنجیدہ قسمیں تم کھاتے ہو ان کا مواخذہ ہو گا، پس اس (قسم توڑنے) کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا انہیں کپڑا پہنانا یا غلام آزاد کرنا ہے اور جسے یہ میسر نہ ہو وہ تین دن روزے رکھے،جب تم قسم کھاؤ (اور اسے توڑ دو) تو یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو، اللہ اسی طرح اپنی آیات تمہارے لیے کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو۔

اسی طرح اسلام میں یہ حکم ہے کہ جو کسی وجہ سے روزے نہ رکھ سکے وہ فقیروں کو کھانا کھلائے گا ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ))(سورة البقرة ـ 184)

۱۸۴۔( یہ روزے) گنتی کے چند دن ہیں، پھر اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں مقدار پوری کر لے اور جو لوگ روزہ رکھنے میں مشقت محسوس کرتے ہیں وہ فدیہ دیں جو ایک مسکین کا کھانا ہے، پس جو اپنی خوشی سے نیکی کرے تو اس کے لیے بہتر ہے اور اگر تم سمجھو تو روزہ رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے۔

اسی طرح ملحدین تھوڑا سا غور و فکر کریں تو یہ بات ان کے لیے واضح ہو جائے گی کہ بہت سے عبادات ہی غریبوں اور فقیروں کی کفالت پر مبنی ہیں اور ان کے ذریعے محتاجوں کی مدد کی جاتی ہے زکاۃ کا فلسفہ ہی غریبوں کو کھلانا ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ ۖ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَ))(سورة الأنبياء ـ 73)

۷۳۔ اور ہم نے انہیں پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے مطابق رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے نیک عمل کی انجام دہی اور قیام نماز اور ادائیگی زکوٰۃ کے لیے ان کی طرف وحی کی اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے ۔

اسی طرح ایک اور جگہ اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے :

((رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ۙ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ (37) لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَيَزِيدَهُم مِّن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ))(سورة النور ـ 37 ـ38)

۳۷۔ ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید و فروخت، ذکر خدا اور قیام نماز اور ادائیگی زکوٰۃ سے غافل نہیں کرتیں وہ اس دن سے خوف کھاتے ہیں جس میں قلب و نظر منقلب ہو جاتے ہیں۔ ۳۸۔ تاکہ اللہ انہیں ان کے بہترین اعمال کی جزا دے اور اپنے فضل سے انہیں مزید بھی عطا کرے اور اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دے دیتا ہے۔

یہی فلسفہ خمس، قربانی اور کفارات میں ہے۔

قرآن ان لوگوں کو بے نقاب کرتے ہیں جو دینداری کا اظہار کرتے ہیں اور صرف چند مظاہر تک محدود رہتے ہیں صحیح نمازیں پڑتے ہیں مگر مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے قرآن ان کی دینداری کو چیلنج کرتا ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ (1) فَذَٰلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ (2) وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ (3) فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ (4) الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ (5) الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ (6) وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ(7))(سورة الماعون ـ 1 ـ 7)

۱۔ کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟ ۲۔ یہ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے، ۳۔ اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔

۴۔ پس ایسے نمازیوں کے لیے ہلاکت ہے ۵۔ جو اپنی نماز سے غافل رہتے ہیں۔ ۶۔ جو ریاکاری کرتے ہیں۔ ۷۔ اور (ضرورت مندوں کو) معمولی چیزیں بھی دینے سے گریز کرتے ہیں۔

روزے کا فلسفہ بھی یہی ہے جس میں انسان کو بھوک اور پیاس کا احساس دلایا جاتا ہے امام حسین ؑ نے کسی سائل کے جواب میں فرمایا تھا جس نے پوچھا تھا : اللہ نے انسانوں پر روزے کیوں فرض کیے ہیں؟آپ نے فرمایا تھا تاکہ امیروں کو بھوک کا پتہ چلے اور پھر وہ مساکین پر  خرچ کریں۔

اس سب سے بڑھ کر اللہ تعالی نے صرف نماز پڑھنے کو عبادت قرار نہیں دیا بلکہ اللہ تعالی نے کسی مستحق کی مدد کو بھی عبادت قرار دیا ہے ارشاد بارلی تعالی ہوتا ہے:

((لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ... ))(سورة البقرة ـ 177)

۱۷۷۔ نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنا رخ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو، بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ جو کوئی اللہ، روز قیامت، فرشتوں، کتاب اور نبیوں پر ایمان لائے اور اپنا پسندیدہ مال قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے نیز جب معاہدہ کریں تو اسے پورا کرنے والے ہوں اور تنگدستی اور مصیبت کے وقت اور میدان جنگ میں صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی لوگ متقی ہیں۔

اسلامی تعلیمات میں یہ بات سکھا دی گئی ہے کہ انسان اپنی شخصی ضرورت سے پہلے دوسروں کی ضرویات کو پورا کرے گا اس طرح انسان خدا کے  قریب ہو جائے گا نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:

"خير الناس من ينفع الناس فكن نافعاً لهم"

سب سے اچھا انسان وہ ہے جو لوگوں کو  فائدہ پہنچاتا ہے  لوگوں کو فائدہ پہنچانے والے بنو۔

اسی طرح آپﷺ کا فرمان ہے:

"خصلتان ليس فوقهما من البر شيء الإيمان بالله والنفع لعباد الله"

دو ایسے کام ہیں جن سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں ہے ایک اللہ پر ایمان لانا اور اس کے بندوں کو فائدہ پہنچانا۔

اسی طرح امام محمد باقرؑ نے مسلمانوں سے بھوک کو ختم کرنا اور ان کو لباس دینا ستر حج سے زیادہ ثواب قرار دیا ہے جیسا کہ آپ کا فرمان ہے:

جو مسلمان گھرانے کی کفالت کرتا ہے ان کی بھوک مٹاتا ہے،ان کے بے لباس بدن کو لباس دیتا ہے،ان کی ضروریات اس طرح پوری کرتا ہے کہ انہیں لوگوں سے مانگنے کی ضرورت نہیں رہتی تو یہ شخص مجھے اس شخص سے زیادہ محبوب ہے جو حج پر حج کرتا ہے یہاں تک کہ دس حج تک پہنچ جاتا ہے وہ یہ عمل جاری رکھتا ہے اور ستر حج تک پہنچ جاتا ہے ۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018