11 شوال 1445 هـ   20 اپریل 2024 عيسوى 3:23 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | قرآنی مضامین |  سورہ بقرہ کی خصوصیات، فضائل اور ثواب
2021-12-22   3342

سورہ بقرہ کی خصوصیات، فضائل اور ثواب

سورۃ البقرہ قرآن کریم کی دوسری اور سات طویل ترین سورتوں میں سے ایک ہے۔یہ  قرآن کریم کی سب سے بڑی سورت  ہےجو تقریبا اڑھائی سپاروں پر محیط ہے۔ اس سورت میں موجود اہم اور بافضیلت آیات درجہ ذیل ہیں۔

آیت الکرسی :

((اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ))(سورة البقرة ـ 255)،

 اللہ وہ (ذات) ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ زندہ اور سب کا نگہبان ہے، اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند، زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے سب اسی کی ملکیت ہے، کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضور سفارش کر سکے؟ جو کچھ لوگوں کے روبرو اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے وہ ان سب سے واقف ہے اور وہ علم خدا میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جس قدر وہ خود چاہے، اس کی کرسی آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان دونوں کی نگہداری اس کے لیے کوئی کار گراں نہیں ہے اور وہ بلند و بالا اور عظیم ذات ہے۔

آیت استرجاع:

((الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ))(سورة البقرة ـ 156)

جو مصیبت میں مبتلا ہونے کی صورت میں کہتے ہیں: ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

آیت سحر یہ ہے:

((وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَىٰ مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّىٰ يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ))(سورة البقرة ـ 102)

اور سلیمان کے عہد حکومت میں شیاطین جو کچھ پڑھا کرتے تھے یہ (یہودی) اس کی پیروی کرنے لگ گئے حالانکہ سلیمان نے کبھی کفر نہیں کیا بلکہ شیاطین کفر کیا کرتے تھے جو لوگوں کو سحر کی تعلیم دیا کرتے تھے اور وہ اس (علم) کی بھی پیروی کرنے لگے جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر نازل کیا گیا تھا، حالانکہ یہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے جب تک اسے خبردار نہ کر لیں کہ (دیکھو) ہم تو صرف آزمائش کے لیے ہیں، کہیں تم کفر اختیار نہ کر لینا، مگر لوگ ان دونوں سے وہ (سحر) سیکھ لیتے تھے جس سے وہ مرد اور اس کی زوجہ کے درمیان جدائی ڈال دیتے، حالانکہ اذن خدا کے بغیر وہ اس کے ذریعے کسی کو ضرر نہیں پہنچا سکتے تھے اور یہ لوگ اس چیز کو سیکھتے تھے جو ان کے لیے ضرر رساں ہو اور فائدہ مند نہ ہو اور بتحقیق انہیں علم ہے کہ جس نے یہ سودا کیا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور کاش وہ جان لیتے کہ انہوں نے اپنے نفسوں کا بہت برا سودا کیا ہے۔

آیت قبلہ:

((قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ))(سورة البقرة ـ 144)

ہم آپ کو بار بار آسمان کی طرف منہ کرتے دیکھ رہے ہیں، سو اب ہم آپ کو اسی قبلے کی طرف پھیر دیتے ہیں جسے آپ پسند کرتے ہیں، اب آپ اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کریں اور تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو اس کی طرف رخ کرو اور اہل کتاب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق پر مبنی (فیصلہ)ہے اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔

آیت بیع و شراء:

((وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ))(سورة البقرة ـ 207)

اور انسانوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو اللہ کی رضاجوئی میں اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور اللہ بندوں پر بہت مہربان ہے۔

آیت ابتلا: یعنی جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کچھ کلمات کے ذریعہ آزمایا:

((وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ))(سورة البقرة ـ 124)

 اور ( وہ وقت یاد رکھو)جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات سے آزمایا اور انہوں نے انہیں پورا کر دکھایا، ارشاد ہوا : میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا: اور میری اولاد سے بھی؟ ارشاد ہوا: میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔

آیت رباء: 

(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ)(سورة البقرة ـ 278)

اے ایمان والو! اللہ کا خوف کرو اور جو سود (لوگوں کے ذمے) باقی ہے اسے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو۔

(الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ )(سورة البقرة ـ 275)

 جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ بس اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر حواس باختہ کیا ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے، پس جس شخص تک اس کے رب کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ سود لینے سے باز آ گیا تو جو پہلے لے چکا وہ اسی کا ہو گا اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جس نے اعادہ کیا تو ایسے لوگ جہنمی ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

آیت دین (دال کو زبر کے ساتھ)

(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِنْ كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأخرى وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا وَلَا تَسْأَمُوا أَنْ تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إلى أَجَلِهِ ذَٰلِكُمْ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وأدنى أَلَّا تَرْتَابُوا إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَا وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ وَإِنْ تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ)(سورة البقرة ـ 282)

 اے ایمان والو! جب کسی معینہ مدت کے لیے قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ دیا کرو اور لکھنے والے کو چاہیے کہ تمہارے درمیان انصاف کے ساتھ تحریر کرے اور جسے اللہ نے لکھنا سکھایا اسے لکھنے سے انکار نہیں کرنا چاہیے، پس وہ دستاویز لکھے اور املا وہ شخص کرائے جس کے ذمے قرض ہے اور اسے اپنے رب یعنی اللہ سے ڈرنا چاہیے اور اس میں کسی قسم کی کمی نہیں کرنی چاہیے لیکن اگر قرضدار کم عقل یا ضعیف یا مضمون لکھوانے سے عاجز ہو تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ املا کرائے، پھر تم لوگ اپنے میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو (گواہ بناؤ) جن گواہوں کو تم پسند کرو، تاکہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے اور جب گواہی کے لیے گواہ طلب کیے جائیں تو انہیں انکار نہیں کرنا چاہیے اور قرض چھوٹا ہو یا بڑا مدت کے تعین کے ساتھ اسے لکھنے میں تساہل نہ برتو، یہ بات اللہ کے نزدیک قرین انصاف ہے اور گواہی کے لیے زیادہ مستحکم ہے اور اس سے تم اس بات کے زیادہ نزدیک ہو جاتے ہو کہ شک و شبہ نہ کرو، مگر یہ کہ تم آپس میں جو دست بدست تجارتی معاملات کرتے ہو ان کے نہ لکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، البتہ جب خرید و فروخت کیا کرو تو گواہ بنا لیا کرو اور کاتب اور گواہ کو نقصان نہ دیا جائے اور ایسا کرو گے تو یہ تمہاری طرف سے نافرمانی ہو گی اور اللہ سے ڈرو اور اللہ تمہیں تعلیمات سے آراستہ فرماتا ہے اور اللہ تو ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔

آیت ایلاء( اپنی زوجہ سے مباشرت نہ کرنے کی قسم کو ایلاء کہتے ہیں)

(لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ )(سورة البقرة ـ 226).

 جو لوگ اپنی عورتوں سے الگ رہنے کی قسم کھاتے ہیں ان کے لیے چار ماہ کی مہلت ہے، اگر ( اس دوران) رجوع کریں تو اللہ یقینا بڑا معاف کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔

سورہ بقرہ  کی امتیازی خصوصیات:

سب سے زیادہ آیات والی سورت۔ یعنی  اس سورہ کی ۲۸۶ آیات ہیں۔

قرآنِ کریم کی سب سے لمبی آیت سورہٴ بقرہ کی آیت نمبر۲۸۲ ہے، جو آیتِ مداینہ کہلاتی ہے۔

سورہ بقرہ سب سے زیادہ احکام پر مشتمل ہیں۔

سورہ بقرہ مدینہ سورتوں میں سے ہے ( یعنی یہ سورت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدنی زندگی گزار رہے تھے اس وقت نازل ہوئی،  صرف ایک آیت مکہ میں نازل ہوئی اور وہ آیت یہ ہے: ((وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ))( سورة البقرة ـ 281) 

ترجمہ:  اور اس دن کا خوف کرو جب تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر وہاں ہر شخص کو اس کے کیے کا پورا بدلہ مل جائے گا اور ان پر ظلم نہ ہو گا۔  یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع مشعر اور منیٰ میں تھے۔

سورۃ بقرہ کے آسماء

سورہ بقرہ کے کئی اسماء ہیں ان میں سے ایک "بقرہ" ہے۔ اس سورہ کا نام بقرہ اس لئے رکھا ہے کیونکہ اس سورہ  میں گایئں سے متعلق کا ایک واقعہ ذکر ہوا ہے۔

اس سورہ کا ایک نام "سنام القرآن" ہے ۔جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں  "

إِنَّ لِكُلِّ شَيْ‏ءٍ سَنَاماً، وسَنَامُ‏ الْقُرْآنِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ"

ہر چیز کے لیئے رفعت اور بلندی ہے اور قرآن مجید کی بلندی سورہ بقرہ ہے

اس سورہ کا ایک نام "الزہراء" ہے ۔ اس سورہ کا ایک نام "فسطاط القرآن"  بھی ہے۔(فسطاط کا معنی خیمہ ہے اور خیمہ کسی چیز کا جامع ہوا کرتا ہے) جیسا کہ حضرت رسول اعظم (ص) نے ارشاد فرمایا

انَّ أَصْفَرَ الْبُيُوتِ بَيْتٌ لَا يُقْرَأُ فِيهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ فُسْطَاطُ الْقُرْآنِ‏

گھروں میں سے سب سے خالی گھر وہ ہے کہ جس میں سورہ بقرہ کی تلاوت نہ کی جائے جو فسطاط القرآن ہے۔

سورہ بقرہ احکام و معارف الھی کا جامع ہے  جس میں اللہ تعالی کی وحدانیت کے علاوہ باقی اصول الدین بنوت و معاد کے بارے میں آیات موجود ہیں۔اس سورت میں خالق اور مخلوق کے بارے میں آیات ہیں۔ اس  سورہ میں ، ایمان و اہل ایمان، کفر اور اہل کفر، نفاق اورا نفاق کا تذکرہ بھی ہیں۔ اسی طرح بعض انبیاء علیھم السلام کے قصے بھی اس سورہ میں موجود ہے۔

قرآن کریم کے معجزات کا بیان، احکام شرعیہ ، نماز روزے اور حج  کا بیان اور  اس کے علاوہ دوسرے مسائل جیسے قبلہ  کی تبدیلی، ذواج و طلاق، تجارت، والدین، سود، انفاق وغیر کا بیاں اس سورہ میں ہے۔

فضائل:

قرآن مجید کی سورتوں میں یہ  سب سے افضل سورہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے کسی سوال کے جواب میں فرمایا

آپ سے پوچھا گیا :

ای سورة القرآن افضل؟ (قرآن کی کونسی سورت  افضل ہے؟)۔

قال البقرة (فرمایا : سورہ بقرہ)۔

پھر سوال کیا گیا:

أَيُّ آيتها أَفضلُ؟ (اس کی کونسی آیت افضل ہے)

قال آیة الکرسی۔ (فرمایا : آیۃ الکرسی)

اس سورہ کی فضائل میں سے ایک یہ ہے کہ یہ  سورہ اور سورہ آل عمران  دو نورانی سورتوں میں سے ہیں۔ جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

"تَعَلَّمُوا الْبَقَرَةَ وَ آلَ عِمْرَانَ فَإِنَّهُمَا الزَّهْرَاوَانِ، وَ إِنَّهُمَا يُظِلَّانِ صَاحِبَهُمَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ غَيَايَتَانِ أَوْ فِرْقَانِ [فَرِيقَانِ] مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ"

دو نورانی سورتوں بقرہ اور آل عمران کو پڑھا کرو۔ یہ دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی کہ گویا یہ دو سائبان ہیں یا دو ابر ہیں یا پر کھولے پرندوں کی دو جماعتیں ہیں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

"مَنْ قَرَأَهَا فَصَلَوَاتُ اللَّهِ وَ رَحْمَتُهُ عَلَيْهِ، وَ أُعْطِيَ مِنَ الْأَجْرِ كَالْمُرَابِطِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ سَنَةً لَا تَسْكُنُ رَوْعَتُهُ ، يَا أُبَيُّ مُرِ الْمُسْلِمِينَ أَنْ يَتَعَلَّمُوهَا ، فَإِنَّ تَعَلُّمَهَا بَرَكَةٌ وَ تَرْكَهَا حَسْرَةٌ ، وَ لَا يَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ وَ هُمُ السَّحَرَةُ "

جو بھی اس سورہ کی تلاوت کرے گا وہ اللہ کے درود و سلام اور لامتناہی رحمتوں کا مستحق ہو گا اور اسے ایک سال تک اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کاثواب عطا ہوگا اور کفار کا اس پر کوئی خوف و دبدبہ نہ ہو گا۔اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا اے ابی ،مسلمانوں سے کہو کہ سورہ بقرہ کو یاد کریں کیونکہ اسے سیکھنا برکت ہے اور اسے ترک کرنا ندامت ہے،جادو گر اس سورہ کو پڑھنے اور سننے کی طاقت نہیں رکھتے۔جو بھی اس سورے کی تلاوت کرتا ہے اس پر اللہ تعالی کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہے

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018