16 شوال 1445 هـ   25 اپریل 2024 عيسوى 10:19 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | حضرت محمد(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نبوت سے پہلے |  بتحقیق نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خلقِ عظیم کے مالک ہیں
2019-02-20   1818

بتحقیق نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خلقِ عظیم کے مالک ہیں

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق:

حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم کے حلم اور بردباری کی ایک روشن مثال فتح مکہ ہے، کہ جب آپ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم فاتح بن کر مکہ میں داخل ہوئے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبلیغ کی ابتداء سے لیکر اس وقت تک کے تمام مظالم اور دشمنوں کی طرف سے ہونے والی تمام تردشمنیوں، جرائم، ناانصافیوں، برائیوں، قتل وغارت اورظلم وستم کے باوجود کسی سے انتقام نہیں لیا بلکہ سب کو معاف کردیا۔ اس کے بارے میں تاریخ کی کتابوں میں بہت سارے شواہد موجود ہیں جنہیں آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  فاتحانہ انداز میں مکہ میں داخل ہورہے تھے تو اس وقت یہ نعرہ بلند کرتے ہوئے داخل ہورہے تھےکہ آج کا دن، عفو اور بخشش کا دن ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اس دن اپنے چچا حضرت حمزہ ؑ کے قاتل حبشی غلام اوران کے بدن کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے مثلہ کرنے والوں کو بھی معاف کردیا۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکہ والوں کے ساتھ کیے جانے والے یہ تمام تراحسانات اوربخششیں ثابت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت حلیم اوربردبار تھے ۔

آپ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم نے اس سخت ترین مشکل اور کٹھن وقت میں، کھڑے ہوکر اہل مکہ سے خطاب کرتے ہوئےفرمایا کہ آج میری جانب سے تم لوگوں کے ساتھ  کیے جانے والے متوقع سلوک کے بارے میں کیا خیال ہے۔ تو سب نے یک زبان ہو کر کہا، کہ آپ  خودسخی  وکریم بھائی اور کریم بھائی کے بیٹے ہیں، لھذا ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ آپ ہمیں بخش دیں گے اور ہمارے ساتھ نیکی کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آج میں تمہارے ساتھ وہی سلوک کروں گا جو میرے بھائی یوسف نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا اور میں وہی کہوں گا جو میرے بھائی یوسف نے کہا تھا کہ: آج تمہیں خوف کھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے  جاو ہم نے تمہیں آزاد کردیا ہے۔ یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم  کی حیات مبارکہ  کے واضح عملی اخلاق کے نمونوں میں سے ایک نمونہ ہے ۔

علمِ محمدی  صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم:

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کا مصدر اور منبع وحی تھی، اور اس کے وحی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ بات اور عمل جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرتے تھے وہ اللہ کے حکم سے ہی ہوتے تھے۔ خالق کائنات سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ قوی رابطہ، باقی تمام انسانوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جدا کرتا ہے، اسی مستحکم رابطہ کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علم کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو بھی عمل کرتے تھے یا جو کچھ فرماتے تھے وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالی کے حکم کے مطابق ہوتا تھا، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے : (وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ، إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ) (النجم ـ۴،۳).

وہ اپنی  خواہش سے نہیں بولتا۔  یہ تو صرف وحی ہوتی ہے جو (اس پر) نازل کی جاتی ہے۔ )نجم، ۳، ۴) یہ آیت اور اسی طرح کی دیگر آیات واضح کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم  کے علم کا ذریعہ اور منبع،  کسی بشر کی افکار نہیں ہیں، اور نہ یہ ہی ان علماء اور ماہرین کے علم کی طرح ہیں  جو اکتشافات کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں، اور وہ اپنے فکری اورعلمی نظریات کے اس حد تک حامی ہوتے ہیں کہ ان کی مخالفت  تک برداشت نہیں کرتے، اور ان کے خلاف کی جانے والی ہر بات کا اپنی پوری طاقت کے ساتھ دفاع کرتے ہیں، حالانکہ بہت ہی جلد ان کو مزید تحقیق اور تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس علم کی مخالفت کو وہ برداشت نہیں کرتے تھے وہ درحقیقت  علم نہیں تھا بلکہ سو فیصد غلط تھا، یا فقط ایک حد تک درست تھا۔  لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم اور افکار ایسے نہیں تھے، بلکہ وہ سو فیصد درحقیقت کے مطابق ہوتے تھے،  جنہیں نہ اس وقت کے معاشرہ میں اس کو جھٹلایا جا سکا، اور نہ آج  کے بدلے ہوئے سائنسی اور جدید ترقی یافتہ معاشرہ میں ان کو جھٹلایا جا سکتا ہے۔

حضرت رسول اکرم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھانے، پینے، سونے، جاگنے اور چلنے کے اعتبار سے اگرچہ دیگر انسانوں کی طرح تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم اپنے نورانی کلمات، وسعت علمی، گزشتہ اور آئندہ آنے والی امتوں کے بارے میں رکھنے والے علم کی وجہ سے سب سے جدا تھے، آپ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم  کا یہ علم اور سابقہ اور آنے والی امتوں کے بارے میں یہ معلومات اور خبریں  کسی اندازے،  یا پیشین گوئی کی بنیاد پر نہ  تھے، بلکہ یہ سب، شہرِ علم (مدینۃ العلم) ہونے  کے مصادیق میں سے بعض مصداق تھے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ میں علم کا شہر ہوں۔

اور یہ سارا علم، اللہ رب العزت کی طرف سے اپنے حبیب کو تمام انسانوں سے ممتاز رکھنے اور اعلی مرتبہ پر فائز کرنے کے لیے عطا کیا گیاھا۔ جیسا کہ قرآن مجید اس بارے میں کہتا ہے : ((تِلْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هَٰذَا فَاصْبِرْ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ)) (هود - 49).

ترجمہ: یہ ہیں غیب کی کچھ خبریں جو ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں، اس سے پہلے نہ آپ ان باتوں کو جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم آپس صبر کریں انجام یقینا پرہیزگاروں کے لیے ہے۔

حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی شخصیت:

بشر کی ہدایت اور رہنمائی جو نہایت ہی مشکل  ذمہ داری ہے، اس ذمہ داری  کو نبھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے حببب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی مرسل بنا کر بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت سارے مشکل اور کٹھن مراحل سے گزارا، ان تمام مشکلات نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی شخصیت کو پہاڑ کی مانند مضبوط اورمستحکم بنایا کہ مخالف سمت سے آنے والی ہوائیں آپ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم کو اپنے ہدف اور مقصد سے نہ ہٹا سکیں۔ پیغمبر اکرم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم  نے اپنی ولادت سے ہی طرح طرح کی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کیا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یتیمی کی زندگی گزرادی، اور      یہی مشکلات اور پریشانیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی شخصیت کو مضبوط اور عظیم بنانے میں بہت اہم رہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ان تمام نا مساعد اور پریشان کن حالات کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹے، اور یہ چیزیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم شخصیت پر اثر انداز نہ ہو سکیں۔  حضرت امام جعفر صادقؑ اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے جد امجد کی طرف سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اللہ تعالی نے  جب اپنے  نبی کی تربیت کی،  توبہترین تربیت کی، اورجب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت کامل ہوئی، اور خلق عظیم کی منزلت پر فائز ہوئے تو دین کے امور اورامت کی ہداہت کی ذمہ داری آپ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم  کے سپرد کی، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اللہ کے بندوں کی قیادت اور رہنمائی کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی یہ عظیم، متوازن، جامع اور کامل شخصیت  اسی تربیت الٰہی کا نتیجہ تھی۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم شخصیت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ضمیرکے زندہ ہونے، اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح کی پاکیزگی کی دلیل ہے اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی حیات  مبارکہ میں انجام پانے والے تمام امور، چاہے  وہ تبلیغ احکام  ہو، یا  دین کا بیان، علم ہو یا آپ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم  کی بصیرت، صبر وشجاعت ہو یا آپ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم کی بردباری یہ سب کچھ آپکی شخصیت کی عظمت پر گواہ ہیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنی زندگی کے جتنے سال اس دنیا میں گزارے، وہ سارے مکارم اخلاق کی تکمیل میں گزارے، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر عمل مکارم اخلاق کا نمونہ تھا، یہاں تک وہ وقت بھی آن پہنچا کہ روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کی نمایندگی  کی عظیم ذمہ داری آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر ڈالی گئی۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018