16 شوال 1445 هـ   25 اپریل 2024 عيسوى 1:44 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | افکارو نظریات |  تہذیبوں کا تصادم... اسلامی نقطہ نگاہ سے
2020-10-23   1668

تہذیبوں کا تصادم... اسلامی نقطہ نگاہ سے

تنازعات کے عنصر:

کسی بھی تنازعہ خواہ انفرادی سطح کے ہوں یا معاشرتی، ثقافتی یا نظریاتی سطح کے ہوں یہ اکثر تین عناصر "زمین، نسل اور عقیدے پر مشتمل ہوتے ہیں۔

زمین

بقا کی جدوجہد ایک فطری تقاضا ہے جس کو اللہ تعالٰی نے انسان کو اپنے وجود، اپنی فیملی ممبرز کی حفاظت اور ان کو درپیش خطرات سے بچانے کی ذمہ داری سونپی ہے، چاہے وہ انفرادی یا گروہی سطح پر ہو، اسی بنا پر، انسان اپنے وجود کے آغاز سے ہی کسی خاص اراضی پر اپنی بادشاہت قائم کرنے،اپنا اثر و رسوخ بڑھانے، اپنی حاکمیت کو مسلط کرنے، اور اپنے وجود کو حرمت اور تقدس کی نگاہ سے نوازنے کی کوشش کررتا رہا ہے، اور اس سلسلے میں کسی کوعزت نفس مجروح کرنے اور حدود کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ یہ قانوں گھر، شہر، اور وطن پر یکساں لاگو ہوتا ہے، لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ انسان گھر، شہر، اور وطن کے لئے لڑتا ہے اور شدت سے اس کا دفاع بھی کرتا ہے، اور شاید یہی بیشتر تنازعات اور جنگوں کی اصل وجہ ہے جو کہ انسانیت اپنے قیام کے بعد طویل عرصے تک دیکھتی رہی ہے۔

نسل ِانسانی:

پوری انسانیت ایک مرد اور عورت سے وجود میں آئی ہے پھر اس نے ہزاروں سال تک اس میں کئی گنا اضافہ اور شاخیں پھیلائیں یہاں تک کہ اس کی آبادی حالیہ مردم شماری کے مطابق سات ارب سے زیادہ افراد تک پہنچ گئی ہے۔اس طرح سے انسانوں کے مختلف قومیت ، نسل اور قبیلے بن گئے۔ جیساکہ اللہ فرماتے ہیں: (إنا خلقناكم من ذكر وأنثى وجعلناكم شعوبا وقبائل) (الحجرات -13) ،ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو،

اور یقینا، جو خصوصیات ابن آدم کی فطرت میں خدا نے رکھی ہیں اس کی بنا پر انسان ہمیشہ اسی گروہ کی طرف مائل رہتا ہے جہاں سے اس کا وجود دنیا میں آیا ہے، اسی پر فخر کرتا ہے، اور اسی کا دفاع بھی کرتا ہے۔وہ کسی کو حد سے تجاوز کرنے اور زیادتی کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔اور جب سے انسان کا وجود دنیا میں قائم ہو اتب سے آج تک جتنی قومی اور نسلی تنازعات اور جنگیں ہوئی ہیں، وہ سب انسانی نسل کے تحفظ، دفاع اور اسکے وقار کی بقا کی خاطر لڑی گئی ۔

عقائد:

کرہ ارض پر بسنے والے لوگ اکثر مختلف عقائد، مذاہب اور نظریات کی پیروی کرتے ہیں، جن میں سے کچھ آسمانی ادیان کی پیروی کرتے ہیں، جن کو انبیاء اور پیغمبروں لے کر آئے، جیسے تین مشہور مذاہب، اور ان میں سے کچھ وہ جنہیں حالات کی وجہ سے خود انسان نے بنایا، مثلا بدھ مت، ہندوازم وغیرہ، اور ان میں سے کچھ فکری، سیاسی یا معاشی عقائد ہیں جیسے کمیونزم، سرمایہ داری اور دیگر ہیں۔

عقیدہ انسانی زندگی میں پایا جانے والا مضبوط تر ین تعلق ہے، یہ تعلق خون، نسل اور نسب سے بھی زیادہ گہرا ہوتا ہے۔اس لئے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معمولی اعتقادی فرق کی وجہ سے ان کے مابین تنازعات اور تباہ کن جنگیں دیکھنے میں آتی رہی ہیں جن سے بہت تباہی ہوئی پس اس طرح سے انسانیت نے عقائد کی بنیاد پر بہت زیادہ نقصانات اور قربانیاں دی ہیں۔

یوں اگر دیکھا جائے تو زمین پر ہونے والی کشمکش اور تنازعات مذکورہ بالا وجوہات میں سے کسی ایک وجہ سے پیدا ہوئی ہے، اگرچہ سارے اسبا ب جمع نہ بھی ہوئے ہوں۔ اس حوالے سے ہمارے پاس انسانی تاریخ ،( قدیم اور جدید ) کے  بہت سارے ثبوت اور شواہد موجود ہیں۔

"تہذیبوں کا تصادم" کی اصطلاح:

تہذیبوں کا تصادم یہ ایک جدید اصطلاح ہے جو ایک سے زیادہ مختلف ثقافتوں کے مابین تصادم یا مسابقت کے تصور کی طرف اشارہ کرتی ہے، جن میں سے ہر ایک دوسری ثقافتوں پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو اور اپنی ثقافت کو مسلط کرنا چاہتا ہے ، اور یہ تنازعہ امریکہ اور سوویت یونین کے مابین سرد جنگ کے بعد کے دور میں ظاہر ہوا تھا ، جو سن 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ ختم ہوا تھا۔

تہذیبی تصادم کا نظریہ:

اس نظریہ کے قیام میں تین افراد نے اپنا حصہ ڈالا، پہلے مراکش سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ڈاکٹر المہدی ہیں، جنہوں نے تہذیبوں کے تصادم کے تصور کی تفصیلی وضاحت پیش کی۔ انہوں نے 1991 ء میں، جرمن ویمن میگزین کے ساتھ اپنے انٹرویو میں، خلیج کی دوسری جنگ کو اس تنازع کام پہلا تہذیبی تصادم قرار دے دیا۔

پھر امریکی سے تعلق رکھنے والے سیاسیداں سیموئل ہننگٹن، اپنے مقالہ (تہذیبی تصادم اور عالمی نظم و ضبط کی بحالی) جو 1993 ء میں شائع ہوا تھا اس میں انہوں نے اس نظریے کو جاپان سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم فرانسس فوکیوما کے مقالہ (تاریخ کا اختتام اور آخری انسان) کے جواب میں پیش کیا۔

آخرالذکر- فوکلٹ یامہ ہے جیسے تہذیب کے تصادم کے نظریہ کے بانیوں میں سے تیسرا شخص سمجھا جاتا ہے

دنیا میں موجود تہذیبیں:

جن تہذیبوں کی ہم بات کررہے ہیں وہ سات تہذیبیں ہیں:

چینی تہذیب۔

جاپانی تہذیب۔

ہندوستانی تہذیب۔

اسلامی تہذیب۔

مغربی تہذیب۔

افریقی تہذیب۔

لاطینی امریکی تہذیب۔

سیموئیل ہنٹنگٹن نے اپنی کتاب "تہذیبوں کا تصادم" میں لکھا ہے کہ سرد جنگ کے بعد کی کثیر قطبی دنیا اپنی تہذیبوں کے مابین تعلقات  پر زور دیتی ہوئی نظر آئی ہے کیونکہ دنیا میں سب سے زیادہ تصا دم اور تنازعات مختلف تہذیبوں کے مابیں اختلاف کی بنیاد پر رونما ہوتے ہیں۔، جیسے ثقافت یا ثقافتی شناخت جو عام طور پر ہر ایک کی پہچان ہوتی ہے- جوکہ ثقافت اور تہذیبوں کی سرد جنگ کے بعد دنیا میں یکجہتی ، اختلافات اور تنازعہ کے اسباب کے طور پر سامنے آئی ہے۔

جہاں تک فرانسس فوکولٹ کی بات ہے، اس نے ایک طرف امریکہ اور سرمایہ دارانہ نظا م اور دوسری طرف سوویت یونین اور نظریہ کمیونزم اکے مابین تنازعہ کا ذکر کیا ہے  جو تقریبا پینتیس سال سے زیادہ عرصہ تک جاری رہا اوباالآخر سرمایہ داری کی فتح کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ فوکولٹ کہتے ہیں کہ: "ساری دنیا آزادی سے متعلق جو بھی حکم کرے اس کو قبول کرتاہے، جبکہ امریکہ نے لبرل افکار، جمہوریت اور سرمایہ داری کو اپنانے کے بعد تاریخ کے خاتمے کو موڑنا شروع کر دیا ہے، کیونکہ جو بھی اس کے نظریات کو مسترد کرتا ہے ،تو امریکہ کی نظر میں وہ مخالف ملک ان ممالک سے پیچھے ہیں جو ان کے نظریہ کو  قبول کرنے والوں میں سے ہے۔

اسلام اور تہذیبوں کا تصادم

اسلامی تہذیب دنیا کی عظیم تہذیبوں میں سے ایک ہے، اور کوئی بھی اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ یہ تہذیب مستقبل کے منصوبوں اور عالمی سطح پر متضاد دھاروں کے بیچ زندہ رہنے کی اور جاری رہنے کی اہل ہے ،لہذا، اس دور کے "تہذیبوں کے تصادم" کے تناظر میں اسلامی تہذیب کی موجودہ گی وقت کی ضرورت ہے۔

تنازعات کی پہلی چنگاری .. سرد جنگ کا خاتمہ:

1991 میں سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد مغرب(امریکہ جس کی نمائندہ گی کرتا ہے) عالمی دنیا سے تنہائی کا شکار ہوگیا اور عالمی سطح پر تنازع اور کشمکش دو جوہر ی ممالک جن میں ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادی اور دوسری طرف سویت یونین اور کمونسٹ نظریہ رکھنے والے ممالک کے مابین رہا جبکہ کوئی تیسرا فریق نہیں تھا۔

مغرب عالمی دنیا سے تنہائی اور سوویت یونین کے خاتمے کے باوجود زمین کی تمام تہذیبوں پر مسلط ہوگیا، اگرچہ روس ایک مضبوط اور طاقتور ملک تھا اور وہ اپنی دفاع وغیرہ کی بھر پور صلاحیت رکھتا تھا لیکن اس کے پاس تہذیب و ثقافت کے تحفظ کا کوئی منصوبہ نہیں تھا اس کی وجہ سے وہ ناکام ہوگیا۔

اسلام کی آفاقیت:

اسلام ایک عالمی مذہب ہے جو مقامی اور علاقائی حدود و قیود سے بالاتر ہے۔ جیساکہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے (وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ) (الانبیا -107) ،

ترجمہ: اور (اے رسول) ہم نے آپ کو بس عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

اور خدا وندعالم نے دین اسلام کو آخری دین قرار دیا اور عالمی قیادت کی بشارت دی  جیساکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :(ونريد أن نَمُنَّ على الذين استُضعِفوا في الأرضِ فنجعَلَهم أئمةً ونَجعلهمُ الوارثين) (القصص -5)

ترجمہ: اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بے بس کر دیا گیا ہے ہم ان پر احسان کریں اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہی کو وارث بنائیں۔

ان آیات میں اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ اسلام ہی بالآخر دنیا کی رہنمائی کرے گا، اور اس کا قائد ایک ایسا امام ہوگا جو اس زمین کا وارث ہوگا اور اس کائنات میں جو کچھ خدا نے بنایا ہے اس پر حکومت کرے گا۔

اہل مغرب اسلامی تہذیب سے واقف تھے اور اسلامی تہذیب کو اپنے لئے ایک خطرہ سمجھتے تھے۔چناچہ اس کے رد عمل میں اس نے ممکنہ طور پر اسلام مخالف پروپیگنڈہ کیا شروع کیا، اس طرح سے اسلامی تہذیب و ثقافت کو نقصان پہنچانے اور اس کے موثر کردار کو محدود کرنے کی کوشش شروع کی ،خصوصا جب اسلامی تہذیب امریکی اور یورپی معاشرے کے حلقوں کے مابین مستقل طور پر پھیلنا شروع ہوگئی، تو یورپ نے اسلامی تہذیب و ثقافت کومغرب کی تہذیب کے روبرو کھڑا کرنے اورطرح طرح کے اسلام مخالف بہانے اور دلائل پیش کرنا شروع کئے، یہاں تک کی یورپ اور ان کے اتحادیوں کے ہاں یہ دلائل قابل قبول شکل اختیار کرگئے، لہذا اسلام مخالف سازشیں شروع ہوئیں، جس سے آخر میں نام نہاد القاعدہ اور داعش جیسے دہشت گرد گروپ تشکیل پائے۔

پوشیدہ انکشاف:

یہ بات بھی مخفی نہیں ہے کہ کچھ مغربی سیاست دانوں نے بھی مغرب اور اسلام کے مابین تہذیبی کشمکش کو بڑھانے میں واضح کردار ادا کی۔ پس ان میں سے جو مذہبی مائنڈ سیٹ رکھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ، "ہم صلیبی جنگ کریں گے ،" اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جنگ اس وقت تک نہیں رکے گی جب تک: "ہر عرب اور مسلمان اسلحے سے پاک، غیر مذہبی، پر امن اور امریکہ سے پیار کرنے والے نہیں بن جاتے ہیں" اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ: "مشرق میں اصل کشمکش عربوں اور یہودیوں کے مابین نہیں ہے۔ بلکہ اصل تنازعہ اسلام کی تہذیب اور مغرب کی تہذیب کے مابین ہے۔ اگر ہم اسلام کی تہذیب کو تنازع کے میدان سے بےدخل کرنے کے اہل ہوجایئں تو ہمیں عربوں اور یہودیوں کو اکٹھا کرنا آسان ہوگا۔"

دوسری بات اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تہذیبوں کے تصادم کا تصور پیش کرکے اسلامی تہذیب و ثقافت کو کمزور کرنے میں، اس کی سرگرمیوں کو محدود کرنے، اور شاید اس کا خاتمہ کرنے، اور اس میں موجود اعتدال پسند ی کو غلط رنگ دے کر انتہا پسندی کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی اگرچہ انتہا پسندی مغربی سے ہی شروع ہوئی جبکہ اسلام ہر وقت کھلے دل کے ساتھ ہر بات اور دلائل سننے کے لئے تیار ہے، ثبوت یہ ہے کی بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کے ساتھ  تمام اسلامی ممالک شریک اور ان کے ساتھ تعاون کرنے میں پیش پیش ہیں۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018