15 شوال 1445 هـ   24 اپریل 2024 عيسوى 5:18 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مسلمان شخصیات |  ابن درید اسلام کی عظیم شخصیت
2020-01-19   597

ابن درید اسلام کی عظیم شخصیت

ابن درید نے اپنی علمی و ادبی تحریروں  کے ذریعے اسلامی تہذیب وادب  کو بام عروج تک پہنچایا۔کتابوں میں ان کی شخصیت، علمی صلاحیت و استعداد اور علم لغت پر گرفت و مہارت  رکھنےکے حوالے سے  خصوصی ذکر ہوا ہے ۔ علما نے ان کی تحریروں اور کتابوں وغیرہ کو   پیشِ نظررکھتےہوئے ابن درید کی تعریف اس طرح لکھتے ہیں  کہ" وہ ایک جید و جلیل القدر عالم اور بہت بڑا شاعر تھا۔ وہ اہل علم کے سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ عربی زبان یعنی لسانیاتِ عرب  و نسب کی محافظت کرنے والوں کے پیشرو بھی تھے۔ان کی شخصیت میں ایسی خصوصیات پائی جاتی تھیں جو دوسرے ہم عصروں میں یا تو نہیں تھیں اگر تھیں تو بھی بہت کم تھیں۔تاریخ   میں بہت کم علماء شعری فضا میں پرواز کرتے نظر آتے ہیں عام طور پر شاعر لوگ جب شاعری کرتے ہیں تو چندگنےچنے شاعروں کے علاوہ ان کی تخلیقات میں گہرائی اور علمی رنگ کم ہی نظر آتے ہیں لیکن ابن دریدکی شاعری علمی  اورگہرائی پر مشتمل ہےکیونکہ وہ علمی مہارت رکھنےکے ساتھ   شعری میدان میں گرفت رکھتے تھے،یہ کہنا بجا ہوگا کہ ان کے علم اور قلم  دونوں بہت مضبوط تھے۔وہ علم کو اشعار کی صورت میں پیش کرتے ہوئے ادبی سرمایہ جمع کرنے کی قدرت  و صلاحیت رکھتےتھےیہی وجہ تھی کہ ان کے ہم عصر علما،شعرا اور  تاریخ و تذکرہ نگاروں اور صاحبان علم ان کو اعلم الشعرا و شعر العلما سے پکارتے اور لکھتے نظر آتے ہیں ۔

ابن درید کی ولادت و تربیت اور اساتذہ:

ابو بکر محمد بن حسن بن درید الازدری بصری کی ولادت 223ھ۔837ء میں بصرہ میں ہوئی۔ اس زمانے میں شہرِ بصرہ علمی مراکز میں سے ایک مرکز شمار ہوتا تھا ۔ شہر بصرہ میں اس وقت علمی و ادبی فضا قائم تھی۔ ابن درید کی نشت و برخاست اور تعلیم و تربیت اسی خاص ادبی ماحول میں موجود اہل علم و زبان کے درمیان ہوئی تھی۔ان کو علم لسانیا ت اور عرب کی شاعری سے دلچسپی تھی۔ ان کی قابلیت و صلاحیت کے پیچھے ان کے والد کے ہاتھ تھے ۔ ان کے والد بصرہ کے سربراہوں میں شمار ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب ثروت  آدمی تھے ۔ ان کو حصولِ علم کی ہر منزل و قدم پر والد کی مدد اور تعاون حاصل رہا۔ابن درید نے اپنے چچا "حسین" جو بصرہ کے فضل و کمال رکھنے والے بزرگ علما میں شمار ہوتے تھے سے بھی تعلیم حاصل کی۔ان کےچچا"حسین" نے اپنے بتیجے کی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام و خیال رکھا۔ ابن دریدکی علمیت و شخصیت کو بام عروج تک پہنچانے  والے محسن اساتیذ کرام کے اسما  گرامی یہ ہیں۔ابو حاتم سہل بن محمد سجستانی ،ابو فضل عباس بن الفرج ریاشی،ابو عثمان سعید بن ھارون لانشاندانی تھے ان کے علاوہ ،الحسین بن درید،عبد الرحم ابن 131اصمعی نمایاں ہیں۔

ابن درید کا سفراوردورےوغیرہ:

557ء میں جب شہر بصرہ کے قرب وجوار کے شہروں میں فساد و انقلاب برپا ہوا تو ابن درید شہر بصرہ چھوڑ کر عمان چلے گئے اور وہان 12 سال تک رہے بعد ازاں وہ ایران کے شہر اہواز کی طرف چلے گے ۔اہوازمیں کچھ مدت گزارنےکے  بعدوہ  اپنے وطن بصرہ میں منتقل ہوئے۔وہ جب بصرہ میں داخل ہوئے تواس وقت ایک جلیل القدر عالم ،شاعر اور ماہر لسانیات کی حیثیت سے داخل ہوئے۔ان کی ملاقات بصرہ کے دیگر علما سے ہوئی  اور وطن پہنچتےہی  درس و تدریس میں مشغول ہو گئے۔ ان کے حلقہ درس میں شاگردوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔ ان کو جب  علمی،شعری صلاحیتوں کی بنا پربہت شہرت ملی۔ان کی علمی صلاحیت و استعداد اورشہرت کی وجہ سےاس وقت حکومت میں موجود طاقتور شخص عبد اللہ بن میکال نے اپنے بیٹے اسماعیل کی تعلیم و تربیت کے لئے خصوصی دعوت دی۔انہوں نے ان کی دعوت کو قبول کرتےہوئےذمہ داری بہترین طریقےسےنبھائی۔انہوں نے شہر اہواز میں اپنی زندگی کا سنہری اور یادگار وقت گزارے۔اہواز میں قیام کے دوران فارس کی حکومت نے ان کو نہایت اہم منصب پر فائز کیااور یہ حکومت میں موجود ایسا منصب و عہدہ تھا جو کمال درجہ علمی مہارت رکھنے والوں کے علاوہ کسی اور کو نہیں دیا جاتا تھا۔ ابن درید کی اجازت اور رائے کے بغیر نہ کسی تحریر کی کتابت ہوتی تھی اور نہ ہی کوئی حکم نافذ ہوتا تھا۔وہ چھے سال تک فارس میں ر ہے ، اسی دوران انہوں نے اپنی کتاب "الجمھور فی لغۃ العربیہ" لکھنے کے علاوہ ایک نظم بھی لکھی جو ان کے نام سے ہی مشہور ہو گئی۔ابن میکال کو جب عہدہ حکومت سے بر طرف کر دیا گیا تو ابن درید بصرہ کی طرف  گئے اور آخری ایام تک بصرہ میں ہی رہے۔ان کی وفات321ھ937ءمیں  بصرہ میں ہوئی۔

تالیفات ابن درید:

انہوں نے با مقصد اور علم و حکمت سے بھر پور زندگی گزاری۔انہوں نے لسانیات کے موضوع پر پچاس سے زائد کتابیں لکھی ہیں۔ان کی علمی خدمات اور علمی سرمایوں میں شمار ہونے والی چند مشہور کتابوں کا نام یہ ہے۔الجمھور فی علم اللغۃ،اسرج و للجام،الاشتقاق،المقیس،الوشاح،الخیل الکبیر،الخیل الصغیر،وللانواءالمجتبیٰ و المقنیٰ،و الملاحسن،رواۃ العرب۔جب ان سے ان کی مزید تحریروں کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے ان کتابوں کا نام بتا دیا جو نہیں چھپی تھیں ان کی یہ کتابیں 1946ء میں قاہرہ میں چھپ چکی ہیں ان کتابوں میں اللغات،السلاح،غریب القرآن،فعلت و افعلت،ادب الکاتب،السحاب و الغیث،المصود و الممدودہ،تقدیم اللسان،وزراء العرب وغیرہ ہیں۔

شا گردان ابن درید:

ابن درید علم و حکمت اور شعر و ادب کی دنیا میں بہت مشہور ہوئے ان کو ایسا  امتیاز و مقام حاصل تھا جس طرح خلیل بن احمد فراھیدی کو حاصل تھا۔ انہوں نے جو علمی اثاثے زمانے کا حوالہ کیا ان میں ان کی تا لیفات اوردیگر علمی سرمایوں کے علاوہ بہت سارےعلمی جانشین پیدا کئے ۔بہت سے شاگرداس عظیم شخصیت کی علمیت و حکمت سے فیض یاب ہونے کے لئے ان کے حلقہ درس میں شرکت کرتے تھے ان کے بعض تلامذہ کا نام جو ان کی علمی امانت کو ہر وقت بانٹتے رہے۔ابو سعید سیرافی،ابو الفرج اصفہانی،ابن خالویہ ،ابو الحسن رمانی،ابو القاسم زجاحی،ابو بکر بن شاذاد،ابع عبید اللہ مرزبانی،اسماعیل بن محمد بن میکال،ابو علی قالی،ابو علی فارسی،ابو الحسن رمانی،الاآمدی،صاحب موازنہ،ابن شقیر،المسعودی،ابو بکر بن محمد بن ابراہیم جوری،محمد بن حسن بن المظفر حاتمی وغیرہ۔

ابن درید کے بارے میں اہلِ  علم کی آراءونظریات

مشہور و معروف  صاحبانِ علم کی صف مین ابن برید کا نام و ذکر موجود ہے یہ ان کی علمی شخصیت کی دلیل ہے۔ مشہور علما،ادبا اورتاریخ نگاروں کی باتیں اور  تحریریں بھی ان کی عظمت کو بیان کرتی ہیں جیسےمسعودی "مروج الذھب" میں لکھتے ہیں کہ " ابن درید ہمارے زمانے میں شعری بلندیوں کوچھوتے رہے زبان و شعر میں کافی مہارت حاصل کر لی۔ انہوں نے خلیل احمد فراھیدی جیسا مقام حاصل کیا۔وہ بہت بڑا عالم تھاانہوں نے لسانیات و لغات میں تحقیق کر کے ایسی باتیں لکھی ہیں جو ان سے پہلے تحریر کرہ کتابوں میں نہیں ملتی ۔انہوں نے شاعری کے تمام طریقے اپنائے اور ان کی شاعری میں بہت وسعت پائی جاتی ہےان کے بہت اشعار موجود ہیں اور ان کا کلام بہت  عمدہ ہے۔

ابو طیب لغوی حب کا شمار علما ءنحو میں  سے ہواہے، انہوں نے ابن دریدکے بارے میں یوں  لکھا ہے کہ " یہ وہ ایسا عظیم شخص تھا جن پر بصریوں کی تعلیم ختم ہوگئی۔وہ لوگوں کی نسبت سب سے زیادہ ذہین اور معلومات رکھتے تھے ۔شعر و شاعری کے قد آوروں میں اعلی و ارفع مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے شعری اسالیب کو نئی جہت دی، وہ ساٹھ سال تک حصول علم میں کوشاں رہے ۔

ابن ندیم اپنی مشہور کتاب 'الفہرست' میں ابن درید کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ "ان کو زبان و ادب پر بڑی گرفت  حاصل تھی وہ عربی زبان،اشعار اور نسب کے عالم و ماہر تھے ۔علم لسانیات میں وہ خلیل بن احمد فراہیدی کے قائم مقام تھے۔ وہ شعر و سخن میں ید طولی رکھتے تھے یہاں تک کہ ان کے با رے میں کہا گیا ہے' اعلم الشعرا و اشعر العلما۔انہوں نے چالیس اسلوب  و فن متعارف کرادیا۔

شہر بن آشوب نےان کو شعرائے اہل بیتؑ میں شمار کیا ہےاور اہل بیت کی شان میں شعر لکھنے والوں کی صف اول کے شعرا میں سے  قرار دیا ہے۔خطیب بغدادی نے ان کے بارے میں اس طرح سے بیان کیا ہے کہ' وہ تاریخ بغداد میں ان اہل علم کے پیشوا اور سر گرم  رہنما تھے جو عربی زبان اور نسب کے محافظ تھے۔ ان کے بارے میں یہ کہا گیاے ہے "انہ اعلم الشعرا اور اشعر العلما" ۔

معجم الادباء میں یاقوت حمیدی اس طرح لکھتے ہیں کہ" وہ وعلم و ادب پرگرفت  رکھنےوالی ایک ایسی ہستی تھی جب سے بہت سی ایسی باتیں اور اشعار ملتے ہیں ا سطرح کے اشعار دوسرےشعراسے نقل نہیں ہوئے۔

ابن انباری'  نزھۃ الالبا' میں یوں ذکر کرتے ہیں کہ "وہ  نہ صرف عربی لغت و نسب شناس تھے بلکہ عربی شعر و ادب کو قائم و دائم رکھنے والوں میں سے تھےابن حلکان کے  بقول جو انہوں نے اپنی کتاب' وفیات ا لاعیان' میں لکھا ہے کہ ابن درید علم و ادب کے ماہر ہونے کے ساتھ بہترین اشعار کے خالق بھی تھے ۔

عبد اللہ اصفہانی نے اپنی کتاب 'ریاض العلما' میں تفصیل کے ساتھ اس طرح لکھتے ہیں کہ" جب وہ فارس میں تھے تو فارس میں موجوداہل قلم اپنی تحریروں اور دیوان یعنی کلیات کو ان کے پاس لیکر آتے تھے اور ان کی رائے کو اہمیت دیتے ہوئے  ان کی بتائی ہوئی باتوں پر من وعن عمل کرتے تھے۔ جب  میکال کو حکومت سے الگ کیا تو انہوں نے خراساں کی راہ لی جبکہ ابن درید بغداد کی طرف آئے اور آخر حیات تک بغدادمیں رہے۔ بغداد پہنچنے کےبعد ان کی ملاقات ایک شیعہ وزیر سے ہوئی انہوں نے اعلی عہدہ داروں سے بات چیت کر کے ان کے لئے 50 دینار ہر ماہ دینے کا حکم دیا یہ سلسلہ ان کی وفات تک جاری رہا۔

صاحب معجم الشعرا ابن درید کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں کہ "ہماری یہ عظیم علمی ہستی کی ولادت بصرہ میں ہوئی وہ ایک امیر اور معزز گھرانے کا چشم وچراغ تھا ۔ چند سال عمان میں گزارنے کے بعد فارس کی طرف آئےبعد ازاں اپنے وطن بغداد  منتقل ہوئے اور 231 میں فوت ہوگئے ۔وہ عالموں کے پیش رو او زبان عرب کے محافظ ہونے کے ساتھ ساتھ دولت شعروشاعری سے مالا مال تھے ان کے کافی اشعار نقل ہوئے ہیں۔

ابن درید کی سخاوت و اخلاق

ان کی شخصیت نہ صرف علمی افق پر نمایاں تھی بلکہ جود و سخا اور خوش اخلاقی کی صفات سے بھی مزین تھی ۔بہت سے لوگوں نے ان کی سخاوت و اخلاق کی گواہی  اس طرح دی ہیں اس طرح کہ وہ بہت ہی سخی انسان تھے کوئی بھی ضرورت مند ان کے گھر سے خالی ہاتھ واپس نہیں جاتاتھا۔ ان کی زندگی کہ   علمیت،شجاعت اور سخاوت سے بھری ہوئی تھی۔

نظم :المقصورہ

جہاں بھی ابن درید کا ذکر ہوتا ہے وہاں ان کی معروف  و مشہور نظم 'المقصورہ' کا ذکر ضرور ہوتا ہے ۔ان کی یہ نظم عربی زبان میں  نہ صرف منفرد ہےبلکہ اس کو عربی ادب کا سرمایہ تصور کیا جاتا ہے ۔ اس نظم میں انہوں نے تاریخی گہرائیوں کو بتانے کے علاوہ عربی زبان کےایسے الفاظ کو جمع کیا ہے جن سے پہلے ادیبوں نے چشم پوشی کی تھی۔بہت سے علما نے اس نظم کی وضاحت و تشریح کی ہے ان علما میں سے اس وقت کے فقیہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن ھشام بن ابراہیم لحمی البستی اور امام ابو عبد اللہ بن جعفر  وغیرہ ہیں۔

وفات ابن درید

ابن درید 933ء۔321ھ میں بغداد میں انتقال کر گئے ۔ ان کی وفات کے حوالے سے سید محسن امین اعیان الشیعہ میں لکھتے ہیں کہ' وہ منگل کے دن 12 شعبان یا رمضان 321ء میں فوت ہوئے اس وقت ان کی عمر 89 سا تھی۔جس دن ابن درید کا انتقال ہوا اس دن زوردار بارش ہو رہی تھی سخت ترین بارش ہونے کی وجہ سے لوگ ان کے جنازے میں شریک نہیں ہوسکے۔ ان کے جنازے میں صرف وہ افراد شریک ہوئے جو ان سےبہت زیادہ محبت کرتے تھے ۔عجب اتفاق تھا کہ  ! ان کی تدفین سے ایک گھنٹہ پہلے ابو ھاشم الجبائی شیخ معتزلہ کی تدفین ہوچکی تھی۔ اس وقت یہ کہا گیا کہ ابن درید اور الجبائی کی موت سے علم لغت اور علم کلام کے گلستان میں خزاں آگئی۔ابن درید کی وفات کا تذکرہ کرتے ہوئے خطیب بغدادی نے لکھا ہے کہ 'جب ابن درید فو ت ہوئے تو خیزراں کے قبرستان میں دفن کرنے کے لئے ان کا جنازہ اٹھایا گیا۔ اس دن خطرناک بارش ہورہی تھی اچانک چند لوگ ایک اور جنازہ اٹھا ئے قبرستان میں داخل ہوئے جب قریب جاکر دیکھا تو وہ جنازہ ابو ھاشم الجبائی کا تھا، ا س وقت لوگوں نے کہا کہ ابن درید اور الجبائی کی وفات سے علم اللغت کا دروازہ بند ہوگیا۔لوگوں نے ان دو علمی ہستوں کے جنازے کو  قبرستان خیزراں میں سپرد خاک کردیا۔ابن درید کے جنازے کے ساتھ اس وقت کے ادیب و شاعر ابو الحسن احمد بن جعفر بن موسی بن یحیٰ بن خالد بن ہر مک جو البر مکی کے نام سے مشہور تھے موجود تھے انہوں نےمرثیہ بھی لکھاہے۔

 

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018